ہمارے یہاں رائج الوقت نظام ِ تعلیم طلبہ کی ذہنی نشو ونما کے حوالے سے پہلے ہی فرسودہ مانا جاتا تھا ،اب اس کے بین بین یہ ایس ایس اے ٹیچروں کے لئے بدشگونی کی علامت بناہوا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اہل ِکشمیر نے وقت کے بہترین اساتذہ ومدرسین پیداکئے اور کشمیری قوم نے قلم وقرطاس کے بل پر ہمیشہ تاریک فضاؤں میں بھی اپنی خداداد لیاقت ا ور قابلیت کا اُجالاکیا ۔ نیزہمارے معلمین نے اپنی بے مثال ذہانت کی قندیلیں ہر سُوروشن کر کے اپنے نام کا ڈنکا بجایا ۔ آج کی تاریخ میں بات یہ نہیں ہے کہ ہمارے اندر بہترین صلاحیتوں کا فقدان ہے،یا ہم ستاروں سے آگے جانے کی قوت ِ پرواز سے محروم ہیں بلکہ اصل بیماری یہ ہے کہ عصر حاضر میں تعلیم وتعلم کا مردم ساز مشن اپنی جہت بھی کھو گیا ہے اور مقصدیت بھی اور تعلیم وتدریس کا مطلب صرف ڈگر ی کے حصول اور سرکاری ملازمت تک محدود ہوچکا ہے۔ تعلیم کے اینٹ گارے سے اصلاً قوم کی اخلاقی تعمیر نو کا کام لیا جانا چاہیے ، یہ نقطۂ نظر ہمارے تعلیمی نظام سے روز بروزاوجھل ہوتا جارہا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ ماضی تاحال حکمران اور افسر شاہی اساتذہ کی تعظیم وتکریم کو ثانوی اہمیت بھی نہیں دیتے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ایس ایس اے اساتذہ اپنی تنخواہوں اور دیگر سرکاری مراعات کی واگزاری کے لئے کئی مہینوں سے بر سر احتجاج ہیں مگر کوئی اُن کی نہیں سنتا ۔ سابقہ حکومت نے ایک موقع پر رہبر تعلیم اساتذہ صاحبان کی تعلیمی اسناد پر شک کی سوئیاں گھماکر اُن کے مسائل سلجھانے کے بجائے مزید اُلجھا ئے ۔ نتیجہ یہ کہ پیشہ معلمی کی بے توقیری وبدنامی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مخصوص زمرے کے ان سرکاری اساتذہ کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ انہیں کلاسیں چھوڑ کر بار بار اپنے جائز مطالبات لے کر سڑکوں پر آنا پڑتا ہے ۔افسوس صد افسوس کہ اربا ِب ِحل وعقد افہام وتفہیم کا راستہ اپنانے کے بجائے ناراض ٹیچروں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کر نے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ ٹیچنگ کمیونٹی کے تئیں اربابِ اقتدار کا یہ منفی طرز عمل اس بات دلالت کر تاہے کہ شاید ٹیچر ہونا معاشرے میں ایک گناہِ کبیرہ بن چکا ہے ۔ بہر صورت ارباب ِ اقتدارپر فرض عائد ہوتا ہے کہ اول بر سر احتجاج مخصوص زمرے کے اساتذہ کی منصفانہ شنوائی کریں، دوم نظامِ تعلیم کو لا حق بیماریوں کا موثر علاج کرنے میں کوئی تاخیر نہ کریں،بصورت دیگر یہاںتعلیم کانور ماند پڑ سکتا ہے اور معاشرہ جس ہمہ گیر بگاڑو زوال کی ڈگر پر پہنچا ہے،وہ مزید گھمبیرتا اختیار کر سکتا ہے ۔ اگر ہم تعلیم کی وساطت سے ایک تہذیب یافتہ، احساس ِ ذمہ داری سے لیس اوراصلاح پسند معاشرے کی تعمیر و تشکیل چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمارے تدریسی سسٹم کانتیجہ خیز خطوط پر استوار ہونا شرط اول ہے ۔ ا سی اصلاح شدہ تعلیمی نظام کے زیر سایہ جواں نسل کی ٹھیک ٹھاک اُٹھان ہو نے کی امید کی جاسکتی ہے کہ ہم دیش اور دنیا میں سر اُٹھا کر جینے کے قابل ہو سکیں ۔ تاریخ ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ جوقوم علم وآگہی میں آگے ہو، وہ دیر سویر اپنے بحرانوں پر قابو پاتی ہے ،جب کہ ناخواندہ قوم ذہنی پسماندگی اور بیمارسوچ کی شکار ہوکرا پنے مقصد ِزیست کے راستے سے بھٹک جاتی ہے۔ ان معنوں میں کشمیری عوام کو داد ملنی چاہیے کہ لاکھ خرابیوں اور ہزارہا مشکلات کے باوجو یہ تعلیم کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ کر نے پر تیار نہیں بلکہ اس قوم نے نامساعد وناگفتہ بہ حالات میں بھی تعلیم کے ٹمٹماتے چراغ کوگل نہ ہونے دیا۔ ا س کا ایک ثبوت سال ۲۰۱۶ء میں اُس وقت ملا جب جولائی تا نومبر نامساعد حالات کے گرداب میں اُلجھے رہنے اور تعلیم وتدریس کا سارا سلسلہ ٹھپ ہونے کے باوجود دسویںا ور بارہویں جماعت کے ا متحانات میں ننانوے فی صد طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔ ہمارے تعلیمی نصاب کے بارے میں روزِاول سے حقیقت شناس اور بیدار ذہن لوگوں کی ایک شکایت یہ ہے کہ اس میںسے اخلاقیات کا عنصر کھرچ کر حکمرانوں اور قائدین نے قوم کا کوئی بھلا نہ کیا۔ وقت کی پکار ہے کہ جب بھی حکام نظام تعلیم کی اور ہالنگ کی جانب متوجہ ہو نے کی توفیق پائیں تو سب سے پہلے درس ِاخلاقیات کی جانب اپنی فکریں مر کو زکریں، کیوں کہ جب نظام ِ تعلیم اخلاقیات کی مہک سے آراستہ ہو گا تو نئی پود اس سے بہرہ ور ہوکر تمام شعبہ ہائے حیات میں اپنے فرائض کا میابی سے اداکر نے کے قابل ہو سکے گی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ تعلیم سے ذہنی ارتقاء کے پہلو بہ پہلو اگر تعلیم و تدریس سے کردارسازی کا کام لیا گیا ہو تا تو شاید آج ہماری جوان نسل منفی راہوں کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ لڑھکتی نظر نہ آ تی ۔ اس جان لیوا روگ کا تدارک تبھی آسان ہوگا جب تعلیمی نصاب میں درسیات اور اخلاقیات کا ایک حسین امتزاج پھر سے متعارف کرایا جائے۔ البتہ یہ بات ہمیں زیر نظر رہے کہ نظام ِ تعلیم کو عملاًچلانے میں اساتذہ کا رول شہ رگ کی حیثیت رکھتاہے۔ اگر ٹیچر فرض شناس ہوں ،ا پنے پیشے کے تقدس سے آگاہ ہوں، نئی نسل کی تعلیم وتربیت میں اپنی ذمہ داریوں سے انصاف کرنے والے ہوں تو فبہا ،ور نہ کوئی تعلیمی اسکیم کتنی بھی کارآمداور عمدہ ہو، اچھے اساتذہ نہ ہوں تو سب رائیگاں ۔ تعلیم وتدریس کے کثیرالجہت موضوع پر بات اگر وسیع تر تناظر میں کی جائے تواس حقیقت کی گرہیں خود کھل جائیں گی کہ آج بھی ایک استاد کا مقا م زندہ قو مو ں میں قابل ِرشک ہے کیونکہ اسی کے دم قدم سے فکروعمل کی روشنیاں جگمگا تی ہیں اور انسانی سماج کے تہذیب وارتقاء کا سفر جا ری ہے۔ جس قوم کا ٹیچر اپنے پیشے کی اصل اہمیت کا جان کار ہو ، بصیرت کاشناور ہو، زندہ ضمیرکامالک ہو، ہمددری کا مجسمہ ہو ، لازماً کا میابیاں اُس قوم کے قدم چو میں گی، عز ت و آبرو کے چاندستا رے اُسے جھک جھک کر سلام کر یں گے، پیاراوروقار اس کا مقدر بنیں گے ، مگر یہ سب چیزیں فرشتہ خصلت اساتذہ کی تدریسی کاوشوں اور کردار سازیوں کی صدائے بازگشت ہوتی ہیں۔ماضی ٔ قریب تک ہما رے یہا ں ایسے سنجیدہ فکر اور صالح مزاج اساتذہ کرام کی بھر ما ر تھی جن سے طلبہ اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق استفادہ کرتے رہتے۔ ایسے استادوں کی سماج میں عزت وتوقیر ہوتی اور یہ ہر وقت و الدین سے دعائیں لیتے ۔ مسلم تو مسلم اس پیشہ سے تعلق رکھنے والے نیک خصلت پنڈت اور عیسائی مشنری والے بھی اپنے پیشے کی جاذبیت پر سب کچھ نچھاور کر نے والے ہوتے۔ دیانت ،مہارت ، شفقت،سادگی، سچائی ، خلو ص اور ہمدردی کے پتلے ایسے اساتذہ آ ج خال خال ہی نظر آتے ہیں بلکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ اب ہر شعبۂ زندگی میں ایسے لوگ عنقا ہیں۔اس بد قسمتی کی ایک نہیں سینکڑو ں وجوہات ہیں۔ سچ یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم کو اب ایسے فرشتوں کی زیادہ تلاش ہے جن پر میردرد ؔ کا یہ مصرع’’دامن نچوڑ دیں تو فر شتے وضو کر یں‘‘ صادق آئے۔ اگر سچ مچ تمام ٹیچر سو سائٹی میں اپنے کھو ئے ہوئے وقار کی بحا لی اور مالک ارض وسماء کی رضاچاہتے ہیں ،تو انہیں اس کے لئے تعلیم گاہوں میں محنت ، تندہی اور لگن ، خلو ص اورسب سے بڑھ کر جذبہ ٔخدمت ِخلق اللہ کی قندیلیں فروزاں کرنا ہوں گی ۔ بے شک ایسے اساتذہ کی پیدائش کے لئے لازمی ہے کہ پہلے نظام ِتعلیم کی دُرستگی اور صحیح الفکر نظر یہ ٔ تعلیم کو اپنایا جائے ۔