خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں طبی نگہداشت کا بہتر نظام اور علا ج کیلئے ضرورت بنیادی ڈھانچے کے فقدان کے باعث مریضوں اور زخمیوں کو روزانہ کی بنیاد پر معمولی سے مرض کے علاج کیلئے بھی جموں یا سرینگر کے بڑے ہسپتالوں کا رخ کرناپڑتاہے جہاں پہلے سے ہی بھاری رش کے بیچ بروقت علاج اور پھر قیام و طعام کا بندوبست کرنا ان کیلئے مشکلات کا سبب بن جاتاہے ۔بدقسمتی سے راجوری پونچھ اور ڈوڈہ کشتواڑ و رام بن کے ہسپتالوں میںا مراض کی تشخیص کےلئے معقول انتظامات نہیںاور اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ معمولی سے عارضوں کے علاج اور مکمل تشخیص کےلئے انہیں جموں یا سرینگر ریفر کردیاجاتاہے ،جس سے ان خطوں کے عوام میں یہ احساس جاگتاہے کہ یہاں تعینات طبی عملہ عوام کو طبی خدمات فراہم کرنے کے اہل ہی نہیں ہے۔یہ ایک معمول بن چکاہے کہ سب ضلع ہسپتالوں سے مریضوں اور زخمیوں کو ضلع ہسپتالوں اور پھر ضلع ہسپتالوں سے انہیں صوبائی سطح کے بڑے ہسپتالوں میں بھیج دیاجاتاہے اور بعض اوقات مریض کو ایمبولینس کی سہولت بھی نہیں ملتی اور اس کے گھر والوں کو بھاری اخراجات برداشت کرکےاپنے بل بوتے پر ہی اسے ہسپتال پہنچناناپڑتاہے ۔ضلع ہسپتالوں سے صوبائی ہسپتالوں تک مریضوں اورزخمیوں کی منتقلی کے دوران کئی لوگ راستے میں ہی دم توڑ بیٹھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ روزانہ اس حوالےکی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ان دونوں پہاڑی خطوں میں طبی عملہ کی کم و پیشپچاس فیصد سے زیادہ قلت پائی ہی جارہی ہے لیکن ایک اور بڑا مسئلہ طبی خدمات کی فراہمی کیلئے بنیادی ڈھانچے کی عدم دستیابی ہے۔پریشانی کی بات یہ ہے کہ پہلے توکئی جگہوں پر سٹی سکین ، الٹراسائونڈاور دیگر تشخیصی مشینیں نصب ہی نہیں ہیں اوراگرکہیں پہ دستیاب ہیںبھی تو ان کو چلانے کیلئے ماہرعملہ ہی تعینات نہیں یاپھر عدم توجہی کے باعث یہ مشینیں ناکارہ پڑی رہتی ہیں ۔نتیجہ کے طور پر سیٹی سکین اور دیگر تشخیصی عمل کیلئے مریضوں اور زخمیوں کو مجبوراًسرینگر یا جموں کارخ کرناپڑتاہے جہاں نجی کلنکوں سے وابستہ افراد پہلے سے ہی ان کی تاک میںہوتے ہیں ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مریض کے جموں پہنچ جانے کے بعد اسے جب میڈیکل کالج یا دوسرے ہسپتالوں میں بہتر علاج کی سہولت نہیں ملتی تو وہ وہاں بھی اپنا علاج پرائیویٹ کروانے پر مجبور ہوجاتاہے، جہاں اس کے ایکسرے،الٹراسائونڈ،خون کی جانچ اور دیگر تشخیص پر ہزاروں روپے خرچ ہوجاتے ہیں ۔چند سال قبل تک طبی خدمات کے حوالے سے ان دونوں پہاڑی خطوں کے عوام کا دارومدار مکمل طور پر جموں کے ہسپتالوں اور خاص طور پر پرائیویٹ کلینکوں پر تھا تاہم مغل شاہراہ اور سنتھن کشتواڑ سڑکیں کھل جانے کے بعد انہیں کشمیر کے ہسپتالوں میں علاج کا ایک بہترین متبادل میسّر ہواہے اور موسم گرما کے دوران سرینگر کے ہسپتالوں میں ایک اچھی خاصی تعداد خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے مریضوں کی ہوتی ہے ،لیکن وہاں ایک تو بھاری رش کے باعث انہیں پریشانی کاسامناکرناپڑتاہے اور دوسرا یہ سڑکیں سال بھر کھلی بھی نہیں رہتی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اضلاع کی سطح پر ہی ہسپتالوں میں بنیادی طبی ڈھانچے کو مستحکم کیاجائے اور ہر دو خطوں میں میڈیکل کالجوں کی جلد سے جلد تعمیر مکمل کی جائے تاکہ لوگوں کو وہیں پر علاج کی سہولت مل سکے اور انہیں دربدر نہ بھٹکناپڑے ۔مقامی سطح پر طبی ڈھانچے کو استحکام بخشنے سے جہاں ان خطوں کے غریب عوام کا کم خرچے پر علاج ہوسکے گاوہیں سرینگر اور جموں کے ہسپتالوں پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا ۔امید کی جانی چاہئے کہ گورنر انتظامیہ خطہ پیر پنچا ل اور خطہ چناب کے پریشان حال لوگوں پر رحم کھاتے ہوئے انہیں بہتر سے بہتر طبی خدمات کی فراہمی کو یقینی بنائے گی ۔