شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
خالق کائنات نے تمام مخلوقات میں حضرت انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کی تخلیق کا مقصد رب العالمین کی عبادت وبندگی بتایا۔ بندے کو بندگی میں ہی زندگی سمجھنی چاہیے ۔ لہٰذا ہم سب ایمان والوں کو چاہئے کہ خدائے تعالیٰ کی اطاعت وبندگی کے جو تقاضے ہیں وہ اسوۂ رسول اکرم ؐ کے مطابق ادا کریں۔ پیغمبر اسلام ؐکی اطاعت کو ہر شعبہ زندگی میں نافذ کریں ، اسلامی اقدار وآداب کے تحت اپنی اولاد کی تربیت کریں ،تمام دنیوی امور میں نبویؐ معیار پر قناعت کریں ،مال ملے تو حکم الہیٰ کے حدود میں رہ کر خرچ کریں،حقوق لینے کے بجائے دینے کی کوشش کریں ،دنیا کی دیگر اقوام کی خوشحالی مسرفانہ زندگی اور تعیش کے بجائے صحابہ کرام ؓ کی طرز حیات کی کامل پیروری کریں۔ غرض یہ کہ تخلیق انسانی کا مقصد پروردگار عالم کی عبادت وبندگی ہے۔ اس تمہید کے ذیل میں جب ہم آج کے انسان کی طرز زندگی پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کا انسان اپنے مقصد تخلیق کو بھول چکا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آج ہمارے مسلم معاشرے میں سے شرافت اور اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے، امانت اور دیانت لوگوں کے دلوں سے اٹھ چکی ہے، خدا فراموشی عام ہے ، رشوت کا بازار گرم ہے، بے دینی کا سیلاب چاروں طرف امڈا ہوا ہے، لوگ خدا اور آخرت سے غافل ہو بیٹھے ہیں اور غفلت کی حد یہ کہ عملاً ہمارا حال یہ ہے کہ اصلاح معاشرہ کے لیے ہماری جدوجہد اسی ذہنی مفروضے کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے کہ ہمارے سوا ساری دنیا کے لوگ خراب ہوگئے ہیں اور اپنے آپ پر ہماری بہت کم نظرجاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہماری کوششیں محض ایک رسمی کاروائی بن کررہ جاتی ہیں ۔دنیا میں سب سے مشکل ترین کام ذاتی اصلاح کاکام ہے ۔اصلاح العباد والبلاجیسے کام کے لئے خدائے تعالیٰ نے انبیاء و مرسلینؑ چنے، جن کا کردار بھی بلند ہوتا ، اخلاق، اعمال اور قلوب سب مثالی ہوتے اور ان کا سینہ بھی بہت بڑاہوتا کیونکہ مخلوق کے ساتھ معاملہ تحمل کا بہت ضروری ہے۔ مخلوق ایک چیز قبول کرتی ہے تو قبول کرنا اور غلامی اختیار کرنا برابر ہے کیونکہ ایک شخص جب آپ کی نصیحت مانے گا اس کے مطابق اپنی زندگی کوڈھالے گاتو ذہنی طور پر وہ آپ کا قدرداں ومقلد ہوگا ۔آپ کے اخلاق آپ کے علم اور آپ کی خیر خواہی کو وہ ہمیشہ یادرکھے گا اور اس میں آسان لفظوں میںایک عنصر غلامی یا فرمان برداری کا بھی شامل ہے۔ امام غزالی علیہ الرحمہ نے طالبان علوم کے بارے میں لکھا ہے کہ طلبہ تو شیخ کے غلامان ہیں ۔استاذ جو کہے وہی وہ کہتے ہیں کہ بس یہی کریں گے، تویہ غلامی وہ نہیں جو معیوب ہے ، جوہزار اطاعتوں کا مجموعہ ہے۔ انسان دوقسم کے ہوتے ہیں:کچھ جلدی ماننے والے ہوتے ہیں اور کچھ دیر لگاکر ماننے والے ہوتے ہیں، جیسے زمین دوقسم کی ہوتی ہے کچھ بیج کو غائب کردیتی ہے، کچھ گل لالہ وگل نرگس وغیرہ قسم قسم کے پھل پھول اگاتی ہے۔ مثلا ایک آدمی کو کہا گیا کہ سرڈھکو اس نے کہا شکریہ بہت بہت مہربانی۔ یہ بھی ایک انسان ہے جب کہ دوسرے نے کہا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ایک ہی بات کے تعلق سے دو متضاد روشیں ۔ خدائے تعالیٰ نے قرآن مقدس میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بہترین آدمی تو وہ ہے کہ جو دوسروں کو بھی خیر بتاتا ہے اور اپنے آپ کو بھی۔ ایک مخلص و کامل مسلمان سمجھتا ہے کہ نیکی اور برائی ایک جیسی نہیں ،آپ ہمیشہ برائی کا جواب اچھائی سے دیں، کبھی ایسا بھی ہوگا کہ وہ بدخواہ آدمی آپ کا شکرگذرا ہو جائے گا اور یہ مقام بڑی قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے ہر ایک کاکام نہیں ہے ،اس مقام کے حصول کوروکنے میں شیطانِ نفس کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دوانسانوں کے مابین جب اختلاف ہو جائے تو بہتر تو یہ ہے کہ تیسرا صلح کرادے، یہ بہت بڑی نیکی ہے لیکن دور حاضر میں جب دو آدمی لڑتے ہیں توتیسرا آدمی ان کی ویڈیو بناکر آگ پر تیل چھڑک رہا ہوتا ہے۔ اس پر مستزادیہ کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور ذلیل ورسواء کرنے کا ایک طور مارسلسلہ دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بے تکان جاری کردینا اور اس پر منفی مثبت کمنٹ بازی وغیرہ دل آزاریوں کے اس نامناسب عمل کے ساتھ وقت گذاری کا ایک مشغلہ بنتا جارہا ہے ۔راست گوئی کے ساتھ قلم کے تقدس کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ بعض لکھنے والے کے ہاتھ میں قلم ایسے لگتا ہے کہ جیسے کسی بدمست کے ہاتھ میں ننگی تلوار لگ گئی ہو، جس سے وہ دوسروں کے ساتھ اپنے آپ کو بھی زخمی کر رہا ہو۔ خلاصہ ٔ کلام یہ کہ کسی کی ایذاء رسانی مومن مسلم پرحرام ہے۔ اہل نظر کہتے ہیں کہ تمام بیماریوں میں سب سے بری بیماری دل کی بیماری ہے اور دل کی بیماریوں میں سب سے بری بیماری دل آزاری ہے۔( اللہم احفظنا) اور اس قسم کے گناہوں میں تقریبا سماج کے ہر قسم کے لوگ شریک ہوتے ہیں جو کہ اس دور کا ایک المیہ ہے ؎
خواندہ نخواندہ برابر شود
فضل خداوند میسر شود
یہی وہ چیز ہے جو خیر کی طرف آنے نہیں دیتی ۔خیر چھوٹا ہویا بڑا خیر خیر ہی ہوتاہے ۔ ان باتوں کے لئے اور ان مسائل کو سمجھانے کے لئے ایک تو تحمل چاہئے ،ساری ہدایت ایک ہی دن میں نہیں ملتی۔ غرض یہ کہ دنیا کا سب سے مشکل ترین کام اصلاح کاکام ہے۔ اصلاح صرف ان کا کام نہیں ہوسکتا جو صرف جھگڑنا جانتے ہوں۔ اصلاح، معاشرے کے ہر فرد کی ضروری ہے اور یہ کام معاشرے کے ہر بالغ نظر اور عاقل فرد کی ذمہ داری ہے مگر سب سے پہلے اپنی ذات کو اصلاح یافتہ بنانا چاہیے ۔ مثلا بندہ ٔ مومن نماز کے لیے مسجد آئے تو مسجد میں خاموش رہے، دنیا کی باتیں نہ کرے، ذکر وفکر میں محو رہے، نماز کا جب وقت ہو تو پہلے اپنی صفیں درست کرے ، چھوٹے بچوں کو پیار اور دلار سے پچھلی صفوں میں رکھے، فقہانے چھوٹے بچوں کو پچھلی صفوں میں اس لیے رکھنے کو کہا ہے کہ ان میں استقرار نہیں ہوتا ،وہ انتشار بھی پیدا کرسکتے ہیں جس سے صفوں کی رونق خراب ہوتی ہے۔ صفوں کو درست کرنا نمازیوں کا فریضہ ہے ،صفوں کی درستگی سے نماز درست اور قبول ہوتی ہے، جب صفوں میں اتحاد ہوتا ہے تو اُمت کے حق میں آسمان سے خیر وبھلائی کے فیصلے اترتے ہیں ۔اسی طرح اگر کوئی بزرگ پہلی صف میں ہے اور وہ منتشر المزاج و مفترق الذہن ہے اور اپنی کسی ادا کی وجہ سے دوسرے نمازیوں کی عبادت میں خل پذیر ہوتا ہے ،تو اس شخص کی حکمت ومحبت کے ساتھ اصلاح کرنی چاہیے ۔ چنانچہ پیغمبر اسلام ؐکی شان بڑی نرالی ہے اور آپؐ کی عظمت ورفعت مسلمہ ہے، آپؐ نبی الانبیاء اور رسول المرسلینؐ ہیں ،تمام خیرات وحسنات آپؐ کی ذات مبارک میں جمع ہیں، آپؐ نے کتنے خوبصورت انداز میں فرمایا بلغوعنی ولوآیہ اور پیغمبر اسلام ؐ کس شان سے تبلیغ فرماتے تھے ۔آپ ؐسیدنا علی المرتضیٰ ؓکو جب خیبر بھیج رہے تھے تو خیبر کے قبیلے بڑے سخت تھے، سیدنا علی المرتضیٰ ؓ نے سوال کیا: جاتے ہی حملہ کروں یا کچھ سمجھاؤں؟ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا نہیں کچھ سمجھاؤ ۔ نیز فرمایا کہ اگر آپؓ کے سمجھانے سے حق تعالیٰ نے ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دی تو اس کائنات میں سب سے قیمتی اور زیادہ سے زیادہ اونٹ راہ خدا میں قربان کرنے سے بہتر ہے ۔غرض یہ کہ قدرداں لوگ تو ذرا ذراسی بات کی بھی قدر کرتے ہیں، کسی کی اصلاح کرتے وقت عجلت کر نی چاہیے نہ اصلاحی کام کی پیچیدگیوں سے گھبرانا چاہئے بلکہ صبر وثبات کے ساتھ محض اللہ کے لئے پوری دل سوزی سے اپنا اصلاحی کام کر تے رہنا چاہیے ۔ ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ اب زمانے میں خیر نہیں رہا ہے، اور خیر کاکام کرنے پر بھی مصائب کاسامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ اس قسم کی سخت دشواریوں کاسامنا بھی ہوتا ہے کہ جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا ہے،اس لئے خیر کاکام پورے اطمیان اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ کیا جاناچاہیے تاکہ زندگی نمونہ ٔ جنت بن جائے۔ یاد رکھئے درحقیقت جہاں خیر وبھلائی کا کام ہوتا ہے وہاں خیر چاہنے والے بھی ہوتے ہیں مگر حاسدین کی بھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ لہٰذا جنت کمانے کاکام کرنے والوں کے ساتھ مصائب ومشکلات ہونافطری بات ہے، ان سے گھبرانا نہ چاہئے۔کسی دانا نے کہا ہے کہ وہ درخت جو جتنا زیادہ پھل دار ہو ، اسے لوگوں کے پتھروں کے لئے اتنا ہی زیادہ تیا ر ہونا چاہیے۔ بہر حال معاشرے کا درد رکھنے والے افراد کو اپنے حوصلے کبھی پست نہیں کرنے چاہئے۔ بقول علامہ اقبالؒ ؎
تندی ٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
اصلاحی کام کرنے والوں کو ہر حال میں اپنے پروگرام میں ایمانی شعور کے ساتھ اٹل رہنا چاہئے، صبرواستقامت کا مظاہر کرنا چاہئے ۔ علامہ انورشاہ کشمیری علیہ الرحمہ’’ انوار انوری‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’ہماری قسمت میں ان لوگوں کو سمجھاناہے کہ جنہوں نے سمجھنا ہی نہیں ہے بہر حال! ہمیں اجر یقینا ملے گا‘‘۔ جب بھی کہیں سے حق کا کام کرتے وقت رکاؤٹ آتی ہے توعلامہ کے اس فرمان سے حوصلہ بڑھتا ہے ۔ ع
ہمارا کام ہے راتوں کو کاٹنا یاد دلبر میں
مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ ایک بڑے مفسر اور بڑی شان والے عالم گذرے ہیں ،اصلاًوہ کسی اور میدان کے تھے لیکن حق تعالیٰ نے انہیں دوسروں کی مسلسل اصلاحی کاوشوں سے ہدایت کی دولت بخش دی اور وہ مکمل ایمان والے بنے ، اتنے باصلاحیت ہوئے کہ خود لکھتے ہیں کہ’’ یہ عاجز کفر والحاد کی وادیوں میں سرگرداں رہا، کیا قسمت پائی تھی کہ جاگ اٹھی۔‘‘ خدائے تعالیٰ نے انہیں ایمان کی نعمت سے سرفراز کر کے قرآن کی جانب اتنا راغب کردیا کہ ایک تفسیر انگریزی زبان میں باقیات الصالحات کے لطور چھوڑ دی۔ یہ تفسیر قرآن انگریزی دانوں کو پلٹ کر رکھ دیتی ہے ۔آپ کو ان علوم پر پختہ وثقہ نظر رہی جنہیں علوم جدید کہا جاتاہے ۔ آپ کی تفسیر’’تفسیر ماجدی ‘‘ اردو میں بھی ہے۔ آپ بیعت ہوئے تھے شیخ الاسلام علامہ حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ سے۔ حضرت مدنی سے جو بیعت ہوتا تھا تو وہ اسے کچھ دیر اپنے ہاں رکھ لیتے تھے کہ کچھ دن اُن کے یہاں رہیں۔ مولانا دریابادی بھی کچھ روز ان کے ہاں رہے۔ اپنے شیخ کی شب بیداری دیکھی ، ان کے اعمال وافعال دیکھے ،ان کے نالہ ہائے نیم شبی کو دیکھا ،ان کی مہمان داریاں دیکھیں تو دل وجان سے متاثر ہو کر رہ گئے مگرگھبراہٹ بھی ہوئی۔ شیخ الاسلام سے عرض کر لی کہ اجازت ہو تو میں حکیم الامت اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ سے تعلق قائم کروں۔ حضرت مدنی نے حکیم الامت کے نام خط لکھاکہ یہ آئے ہیں وہاں رہیں گے لیکن یہاں والے اعمال غالباً مشکل پڑے ہیں ،آپ کو حق جل مجدہ نے مرجع خلائق بنایا ہے، میں سفارش کرتا ہوں کہ انہیں اپنے دامن فکر و اصلاح میں قبول فرمائیں ۔خط پڑھ کر حکیم الامت نے دیکھا اور پوچھا وہاں کیا مشکل پیش آئی؟ بتایا کہ یہ امکان نہیں ہے کہ کوئی شخص اتنی ڈھیر ساری نیکیاں کرے۔ علامہ تھانویؒ نے فرمایا کہ ہاں میں دائرہ بیعت میں منسلک کروں گا، مولانا کا حکم ہے۔ یہ ہوتا ہے اصلاحِ فکر و نظر کے حوالے سے بندگی ٔ رب میں منہمک ہونے کا قرینہ۔اصلاح احوال کا احساس اسی وقت انسان میں جاگ سکتا ہے جب انسان کے دل میں ایمان باللہ ، ایمان بالرسالت ، اور ایمان بالآخرۃ کے عقائد جاگزین ہوں اور سب سے پہلے اس میں اپنی خود کی اصلاح کی فکر پیدا ہو جائے۔ جس روز اور جس گھڑی ضمیر کی یہ طاقت بیدار ہوگئی، اسی روز اور اسی گھڑی سے صحیح معنوں میں اس پر یہ ابدی حقیقت منکشف ہوگی کہ معاشرے کی خرابی کا جو ہواہم نے اپنے سروں پر مسلط کررکھا تھا اور جس نے ہمیں صحت اخلاق کی ہر تدبیر سے روکا ہواتھا، وہ کتنی بے حقیقت اوربے وزن ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی بندگی کا ہرپل جائزہ لیتے رہیں اور اصلاحی مشن کے قرآنی احکامات اور سیرت مبارکؐ کے اسباق سے اپنی ایمانی شخصیت کی تعمیر کر تے رہیں،تب جاکر بات بنے گی ۔
………………..
رابطہ نمبر 9596664228
E-mail.- [email protected]