ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کر کے جب جاذب علی گڑھ سے واپس آ رہا تھا تو اس نے دل ہی دل میں یہ طے کر لیا تھا کہ کچھ عرصہ آرام کرنے کے بعد اپنا کریر شہر میں شروع کرے گا اور اس کے بعد شادی کے بارے میں سوچے گا۔ گھر آ کر اسے پتا چلا کہ اس کے ابو نے اس کے لئے ایک لڑکی پسند کرلی ہے۔ وہ جاذب کی جلد از جلد شادی کرنا چاہتے تھے۔ جب جاذب کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اپنی امی سے کہہ دیا کہ وہ ابھی شادی کے بندھن میں نہیں بندھنا چاہتا۔ شادی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ میں پہلے اپنا کام شروع کرنا چاہتا ہوں پھر شادی کے بارے میں سوچ لوں گا آپ لوگوں کو کیوں اتنی جلدی ہے۔جاذب نے اپنی امی کی بہت منتیں کہ وہ ابو کو اس بات کے لئے منع کرے، مگر اس کی امی نے کہا۔ دیکھو بیٹا، تمہارے ابو کی طبعیت اکثر خراب رہتی ہے۔ زندگی کا کیا بھروسہ ۔ وہ اپنی زندگی میں ہی تمہاری شادی کے فرض کی ادائیگی سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔ تمہارے لیے یہی بات بہتر ہے کہ تم اپنے ابو کی بات مان لو امی دلیل سن کر نہ چاہتے ہوئے بھی جاذب نے شادی کے لیے حامی بھر لی۔
جاذب کے پوچھنے پر پتا چلا کہ جس لڑکی سے اس کی شادی ہو رہی ہے اس کا نام درخشاں ہے۔ وہ جاذب کے ابو کے جگری دوست کی بیٹی ہے۔ لیکن بالکل ان پڑھ۔۔ یہ سن کر جاذب نے اپنی امی سے صاف صاف لفظوں میں انکار کر دیا اور یہ بات بھی کہہ دی کہ وہ ایک ان پڑھ لڑکی کے ساتھ کیسے زندگی بسر کر سکتا ہے۔
اس کے ابو بہت دور اندیش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ درخشاں ایک ہوشیار اور خاندانی لڑکی ہے۔ ان پڑھ ہونے کے باوجود اس کی تربیت اچھے ماحول میں ہوئی ہے۔ جاذب کے انکار کی بات جب انہوں نے سنی تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر جاذب اس رشتے سے منع کرے گا تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ کیوں کہ میں نے اپنے بھائی جیسے دوست سے جب یہ رشتہ مانگا تو اس نے آنکھیں بند کر کے اقرار کر لیا۔ اگر میں اب انکار کر دوں گا تو اس پر کیا بیتے گی۔ ابو نے اسے واضح طور پر کہہ دیا کہ اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ درخشاں سےشادی کرنی ہے یا اپنے ابو کو کھونا ہے۔ اب جاذب کے پاس دو راستے تھے جن میں سے وہ صرف ایک ہی راہ کا انتخاب کر سکتا تھا۔ جاذب جانتا تھا کہ ابو کے دونوں فیصلے اس کے لئےکسی سزا سے کم نہیں ہیں لیکن کوئی اس کی بات سننے کے لیے تیار نہ تھا۔ باپ بیٹے کے درمیان پردے حائل ہونے لگے۔ آخرکار اس نے اپنے ابو پر اعتبار کر کے درخشاں سے شادی کے لیے حامی بھر لی۔ تین مہینے بعد درخشاں اپنے گھر سے رخصت ہو کر جاذب کے گھر آگئی۔
درخشاں قبول صورت، سلیقہ مند، نماز و روزہ کی پابند اور محبت کے خمیر سے گندھی ہوئی لڑکی تھی۔ اس کی زبان میں مٹھاس تھی۔ اس نے آتے ہی گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیا اور اپنی سمجھداری سے اپنے سسرال والوں کا دل جیت لیا، سوائے جاذب کے۔
جاذب نے درخشاں کو اپنی زندگی میں شامل تو کر لیا مگر وہ اس پر دھیان دیتا تھا اور نہ ہی اس کے ساتھ بغیر ضرورت بات کرتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کے لیے جیسے اجنبی تھے۔ درخشاں نے جاذب کے برتاؤ پر صبر کیا اور خود کو گھر کے کاموں میں مصروف کر لیا۔ اس کو یقین تھا کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب وہ جاذب کے دل میں اپنی جگہ بنا لے گی۔ وہ اللہ پاک سے ہمیشہ یہ دعا کرتی تھی اے اللہ مجھے صبر دے۔ شاید یہ اس کی اچھی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ وہ بڑی لگن اور ہوشیاری سے گھر والوں کے ساتھ ساتھ جاذب کی پسند نا پسند کا خیال رکھتی تھی۔ وہ اسی طرح ان کی خدمت کرتی رہی۔ درخشاں جاذب کا ہر کام وقت سے پہلے کر دیتی تھی۔ چاہے کھانے کی بات ہو، کپڑوں کی بات ہو یا جوتوں کی پالش یا کوئی اور کام۔ وہ کبھی شکایت کا موقع نہ دیتی۔ اس کی سب سے بڑی صفت یہ تھی کہ اس نے نہ اپنے مائیکے والوں کو اور نہ ہی سسرال والوں کو یہ بات محسوس ہونے دی کہ جاذب اس کے ساتھ اجنبیوں جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ اور نہ کبھی جاذب سے کوئی سوال کیا۔ وہ جانتی تھی کہ سوال کرنے سے آگ بھڑک سکتی ہے۔
کچھ عرصہ بعد جاذب نے شہر میں اپنا کام شروع کیا۔ وہ اکیلا شہر جانا چاہتا تھا۔ دوسری طرف درخشاں بھی جاذب کے ساتھ جانے کے لئے تیار نہ تھی۔ لیکن جاذب کی امی نے ان دونوں کی ایک نہ سنی اور ان دونوں کو ساتھ میں شہر جانے کے لیے راضی کر کے ہی دم لیا۔ اگلی صبح وہ لوگ پہلے درخشاں کے والدین سے رخصت لینے گئے پھر جاذب کے والدین کے سائے میں رخصت ہو کر شہر کے لئے روانہ ہو گئے۔
جاذب نے شہر میں رہنے کے لئے کرائے پر گھر لیا اور اپنا کام بھی شروع کیا۔ شہر آکر درخشاں چپ چاپ جاذب کی خدمت میں لگ گئی۔ بہت عرصہ گزر گیا مگر یہاں بھی درخشاں نے نہ ہی کوئی گلہ کیا نہ ہی شکوہ۔ گاؤں میں درخشاں کے ساتھ گھر والے تھے مگر یہاں وہ تھی، اس کی تنہائیاں اور گھر کا سناٹا۔ درخشاں رات کو اس کے آنے تک کا ذمہ داری سے انتظار کرتی تھی۔ اس کے آنے پر اس کے لئے کھانا پروستی تھی۔ غرض وہ ایک نیک اور صالح بیوی کے سارے فرائض خاموشی سے انجام دیتی تھی۔ یہاں بھی وہ اپنے رب سے اپنے لئے صبر مانگتی رہی۔
ایک دن جاذب دفتر سے جلدی آیا تو درخشاں نے حسب معمول اس کے سامنے چائے رکھ دی اور خود کچن میں چلی گئی۔ جاذب نے جیسے ہی چائے کا کپ ہاتھ میں اٹھایا تو اسے اچانک یہ خیال آیا کہ آخر میں کس بات کی سزا درخشاں کو دے رہا ہوں۔ اس کی ساری خوشیاں تو مجھ سے جڑی ہیں۔ یہ اپنے دل کی بات کسی سے کہتی بھی نہیں ہے۔ اگر یہ اپنے دل کی بات مجھ سے نہیں کہے گی تو کس سے کہے گی۔ درخشاں آخر کس مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ وہ درخشاں کی شرافت کا قائل ہو گیا۔ میں نے اسے دکھ کے سوا کچھ نہ دیا۔ جاذب کو یہ احساس ہو گیا کہ وہ سچ مچ درخشاں کا گنہگار ہے۔ آخر وہ بھی تو ایک انسان ہے اور ایک ایسی انسان جس کے اندر سارے اچھی صفات موجود ہیں۔ اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ جاذب بہت شرمندہ ہوں گیا اور سوچنے لگا کیا انسان کو وہ سب کچھ ملتا ہے جس کی وہ توقع کرتا ہے۔ اس کے اندر سے ایک گہری سانس نکلی۔ اسے احساس ہوا کہ اس نے اپنی زندگی کے انمول دن بیوقوفی کی نذر کر دیئے ہیں۔ جاذب نے اپنے آپ سے وعدہ کیا میں درخشاں سے معافی مانگ لوں گا۔ اس کا دل واقعی اتنا اچھا ہے کہ وہ مجھے ضرور معاف کر دے گی۔ میں آج کے بعد درخشاں کو اتنا پیار دوں گا جس کی وہ حقدار ہے۔جاذب کو درخشاں کی محبت، اس کا صبر، اس کی سنجیدگی اور اس کا کردار متاثر کر گیا۔ وہ سوچنے لگا کہ ایک باوفا اور باکردار بیوی اس دنیا کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت ہے۔ جاذب نے پوری نیازمندی کے ساتھ اپنے مقدر کے آگے سر خم کر دیا۔
درخشاں! درخشاں!
آج پہلی بار جاذب نے اسے نام لے کر پکارا۔ یا اللہ یہ خواب ہے یا حقیقت۔ درخشاں کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ وہ دوڑ کر جاذب کے سامنے حاضر ہوئی۔ اس کی آنکھیں خوشی سے نم ہوئیں۔ آج اسے وہ خوشی ملی جس کا اسے مدتوں سے انتظار تھا۔
کیا بات ہے جاذب؟ درخشاں نے پوچھا۔ جاذب نے جواب دیا:تم جلدی سے تیار ہو جاؤ، ہم لوگ باہر گھومنے جائیں گے اور کھانا بھی باہر ہی کھائیں گے۔ درخشاں جلدی جلدی تیار ہوئی اور پہلی بار جاذب کے ساتھ آج گھر سے نکلی۔ اس نے پہلی بار جاذب کا ایسا روپ دیکھا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ جاذب کی بے رخی درخشاں کی خدمت اور صبر کے سامنے ہار گئی۔
ان کی شادی کو کئی برس ہو گئے۔ اللہ پاک نے انہیں محبت کی دولت سے نوازا۔ جاذب نے شہر میں ہی محل جیسا گھر درخشاں کے نام پر تعمیر کروایا۔ وہ درخشاں کو بہت پیار کرتا رہا۔
آج صبح سات بجے جاذب اپنے لان میں کرسی پر بیٹھا چائے کی چسکیوں کا مزا لے رہا تھا اور ساتھ ساتھ اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا تو اچانک پاس والے گھر سے چلانے کی آواز آئی۔ پڑوس میں رہنے والے صاحب کی پڑھی لکھی اور نوکری پیشہ بیوی اپنے شوہر پر برستے ہوئے کہہ رہی تھی کہ کیا میں ایک مشین ہوں۔ دن بھر آفس میں کام کروں اور صبح سویرے تمہارے لیے ناشتہ تیار رکھوں۔ خود کیوں نہیں بناتے ہو۔ مجھ پر حکم مت چلایا کرو۔ میں تم سے زیادہ پڑھی لکھی ہوں۔ تم سے زیادہ کماتی ہوں۔ نوکر نہیں ہوں تمہاری۔
جاذب نے جب پڑوسن کی باتیں سنیں تو اور سوچا کیا دو حروف پڑھنے سے یا پیسہ کمانے سے عورت کی ذمہ داریاں ختم ہوتی ہیں۔ کچھ ذمہ داریاں گھر میں ایسی ہوتی ہیں جو مرد سے زیادہ عورت ہی بہتر نبھا سکتی ہے۔ جاذب نے آج عورت کا ایک نیا ہی روپ دیکھ لیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ اچھی تربیت ضروری ہے۔ چاہیے انسان پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو۔ جاذب نے اپنی نظریں برآمدے کی طرف اٹھائیں تو درخشاں اس کی طرف آتی دکھائی دی۔ اس کے ہاتھوں میں ان دونوں کے لیےناشتے کی ٹرے تھی۔ جاذب کو درخشاں پر بے انتہا پیار آیا اور اپنے ابو کی پسند پر فخر ۔ وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔
پہلگام، اننت ناگ
رابطہ9419038028 8713892806