اسلام آباد//پاکستان عام انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھری کرکٹ سے سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پارٹی نے حکومت بنانے کے جادوئی عدد 137 حاصل کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہے . آزاد اور عوامی مسلم لیگ سمیت کم از کم چار چھوٹی پارٹیاں پی ٹی آئی کے ساتھ ہاتھ ملاتی ہیں تو مسٹر خان جلدہی پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ ہفتہ کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نتائج میں پی ٹی آئی کو 115 سیٹیں ملی ہیں اور اسے حکومت بنانے کے لئے مزید17 نشستیں درکار ہے ۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ -نواز کو 64 اور بلاول بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو 43 سیٹیں ملی ہیں۔ قانون کے تحت پانچ سیٹوں سے الیکشن لڑنے والے مسٹر خان کو چار سیٹیں چھوڑنی پڑے گی۔ اس طرح پی ٹی آئی کے کل 109 نشستیں بچ جائیں گی۔تکشلا کے مسٹر غلام اے خان نے بھی دو سیٹوں پر فتح پائی ہے . انہوں نے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو شکست دی ہے .انہیں بھی ایک نشست چھوڑنی پڑے گی۔ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلی پرویز خٹک نے بھی قومی اسمبلی اور صوبائی دونوں سیٹوں پر انتخاب جیت لیا ہے ۔ پی ٹی آئی اگر انہیں دوبارہ وزیر اعلیٰ بنانا چاہے گی تو ایک اور سیٹ پی ٹی آئی کی جھولی سے چلی جائے گی۔ اس طرح پی ٹی آئی کی کل 109 نشستیں ہی بچ جائیں گی.نو تشکیل شدہ بلوچستان عوامی پارٹی اور مسلم لیگ-ق نے چار چار سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے دو سیٹ حاصل کی ہے جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی جھولی میں تین سیٹیں گئی ہیں اور عوامی نیشنل پارٹی نے ایک سیٹ پر کامیابی حاصل کی ہے ۔عوامي مسلم لیگ (اے ایم ایل )، پاکستان تحریک انسانیت اور جمہوری وطن پارٹی کو بھی ایک ایک نشستیں ملی ہے ۔عام انتخابات میں 12 آزاد امیدواروں نے بھی کامیابی حاصل کی ہے اور حکومت کی تشکیل میں ان کا اہم رول ہو سکتا ہے ۔پاکستان کی کم از کم 12 اپوزیشن پارٹیوں نے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے اور ایسا نہیں ہونے پر بڑے پیمانہ پر تحریک چھیڑنے کی دھمکی دی ہے ۔ اس دوران یوروپی یونین اور امریکہ نے بھی الزام لگایا ہے کہ انتخابات منصفانہ اور آزاد نہیں ہوا ہے ۔امریکہ نے انتخابات کی جانبداری پر شک ظاہر کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو فوج کی حمایت کی گئی جبکہ مسلم لیگ – ن اور پی پی پی نے بندشوں میں اپنی مہم چلائی ۔ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ نے انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بتانے سے انکار کر دیا ہے ۔ پاکستان کے سفیر رہے حسین حقانی نے کہا کہ انتخابات کے نتائج پہلے سے ہی طے تھے ۔یوروپي یونین اور امریکہ کا ساتھ ملنے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے کھل کر انتخابی نتائج کا بائیکاٹ کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے ۔انتخابات کے دوران پر تشدد واقعات بھی ہوئے ۔ ووٹنگ کے دن 25 جولائی کو کوئٹہ میں دھماکہ ہوا تھا جس میں بہت سے لوگوں کی جانیں گئی تھی۔قابل ذکر ہے کہ بدعنوانی کے معاملہ میں راولپنڈی کی جیل میں بند نواز شریف 10 سال کی سزا کاٹ رہے ہیں. اسی جیل میں ان کی بیٹی مریم شریف بھی سات سال کی سز بھگت رہی ہیں. مسٹر شریف بیمار بیوی کو لندن چھوڑ کر اس ماہ وطن واپس آئے تھے اور کہا تھا کہ وہ اپنے ملک کے شہریوں اور پارٹی لیڈروں اور کارکنوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے ۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ بزدل نہیں ہیں کہ ملک سے باہر رہیں. انہیں کسی بات کا ڈر نہیں ہے کیونکہ وہ کسی قسم کی بدعنوانی میں شامل نہیں ہیں، وہ عدالت کے فیصلے کو چیلنج کریں گے ۔