امریکہ دیش ہے ہی ایسا کہ وہاں جانے کی خواہش دل میں رہتی ہے ۔دنیا کا سب سے طاقت ور ملک جو ایک طرح سے پوری دنیا پر راج کرتا ہے ۔اگرچہ اس کے سبب پوری دنیا میں چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ اس کی انتظامیہ کے دشمن بھی بہت ہیں لیکن موقع ملے تو وہاں کا سفر کرنا کوئی نہ چھوڑ دیںاور اپنا ملک چھوڑ کر کسی اور جگہ تعلیم حاصل کرنے اور رہایش اختیار کرنے کی بات ہو تو لوگوں کے ذہنوں میں پہلا نام امریکہ ہی آتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کا ویزا حاصل کرنے والوں کی لائن لمبی ہی ہوتی ہے۔ میں نے سوچا یہ امریکہ جانے کا سنہری موقع ہے جب میرے بیٹے کی یونیورسٹی کے گریجویشن پروگرام میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔یہ دعوت نامے عمومی ہوتے ہیں تاہم امریکی ویزا حاصل کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ کوئی بارہ ہزار روپے آن لاین فیس وغیرہ بھرنے کے بعد رجسٹریشن ہوئی اور امریکی سفارت خانے میں وقت مقرر ہوا کہ ذاتی انٹرویو کے لئے حاضر ہوجائیں۔بیچ میں کوئی بیس دن کا وقت تھا جب مجھے پہلے سفارت خانے کے ایک بھارتی ذیلی دفتر جانا پڑا ۔وہاں فوٹو گرافی اور فنگر پرنٹنگ کا مرحلہ ہوتا ہے اور مزید تفصیلات ریکارڈ ہوتی ہیں۔دوسرے دن ا مریکی سفارت خانے جانے کا پروگرام تھا۔اطلاع تھی کہ وہاں اندر کوئی بھی چیز بشمول موبائل، پرس وغیرہ لینے کی اجازت نہیں،اسلئے مجھے ایک اور ساتھی کی ضرورت تھی جو میری شریک حیات نے پوری کردی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ میری شریک حیات نے امریکہ جانے سے اس وجہ سے انکار کیا کہ پندرہ سولہ گھنٹے کا ہوائی سفر کون کرے گا ۔اگرچہ اس سفر کے دوران تھکان کا احساس مجھے بھی تھا تاہم امریکہ دیکھنے کے شوق نے مجھے ارادہ سفر پر مائل کردیا۔ خیر بات امریکی سفارت خانے کی ہو رہی تھی جہاںپہنچنے پر پتہ چلا کہ ایک چھوٹے سے کیبن میں ایک شخص فیس کے عوض موبائل وغیرہ سنبھالتا ہے اور سفارت خانے کے اندر پرس لینے پر کوئی پابندی نہیں البتہ سم کارڈ وغیرہ اندر لینے نہیں دیتے۔اپنے مقررہ وقت کے لئے انتظار کرنے والوں کی بھاری بھیڑ جمع تھی۔ٹیلی وژن پر امریکی پولیس کے افراد دیکھے تھے جو کالی وردیاں پہنے واکی ٹاکی لے کر ادھر ادھر گھومتے ہیں اور چھوٹے بڑے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ اپنے پتلونوں سے دو دو تین تین فٹ کے ڈنڈے آویزان رکھے چلتے ہیں۔دلی میں بھی امریکی سفارت خانے کے ارد گرد مامور سکورٹی والے اسی ڈریس میں ملبوس دکھے تو میں سوچنے لگا کہ امریکی انتظامیہ کو دلی پولیس پر شاید بھروسہ نہیں کہ اپنے ہی لوگ یہاں بھی تعینات کئے ہیں۔البتہ بعد میں ان افراد کی بات چیت سے پتہ چلا کہ یہ لوگ مقامی ہیں اور سیکورٹی ایجنسیوں سے فراہم شدہ ہیں ۔اس بات پر ہنسی آئی کہ رعب جھاڑنے کے لئے یہ لوگ امریکی پولیس جیسا ڈریس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔سفارت خانے کے اندر جاکر سکورٹی کے مرحلے سے گزرنا پڑا جس دوران بیلٹ بھی اتارنا پڑا۔اندر کچھ دیر انتظار کے بعد اپنی باری پر افسر نے استفسار کیا کہ کیا کام کرتے ہیں، خرچہ کون برداشت کرے گا، کس وجہ سے امریکہ جانے کا ارادہ کئے ہیں ۔مطمئن ہوکر وہیں یہ اطلاع دی کہ آپ کا ویزا منظور ہوا ۔ البتہ کئی لوگ ایسے بھی تھے جنہیں ایک یا دوسرے بہانے ویزا کی فراہمی سے انکار کیا گیا۔دو تین دن انتظار کے بعد موبائل پر اطلاع ملی کہ پاسپورٹ وغیرہ اسی دفتر سے حاصل کیا جائے جہاں پہلے دن فوٹو گرافی اور فنگر پرنٹنگ کا کام ہوا تھا۔وہاں جا کر پتہ چلا کہ دس سال کا ویزاجاری کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ہوائی ٹکٹ وغیرہ کا انتظام کروایا جو درمیان میں کافی وقت ہونے کے سبب مقابلتاً سستے ملے۔
مئی مہینے کے پہلے ہفتے میں دلی ایر پورٹ سے رات کے دوران جہاز نکلنے والا تھا اوربورڈنگ پاس لینے کے لئے قطار میں کھڑا تھا۔میری باری پر پاسپورٹ ویزا تفصیل دیکھ کر میری رہایش کے بارے میں پوچھا گیا ۔چونکہ میں نے کوئی ہوٹل وغیرہ بک نہیں کیا تھا ،اس لئے کسی ایڈریس کے بغیر بورڈنگ ملنا محال تھا۔میں نے فون کرکے امریکہ مقیم بیٹے کو نیند سے جگا کر اس سے رہایش کی تفصیل پوچھی ، کاغذ پر تحریر کی اور کاونٹر پر بیٹھی محترمہ کے حوالے کی جس کے بعد ہی بورڈنگ پاس ملا۔تاہم اس کے بعد ایک اور صاحب سے ملنے کی ہدایت ملی جو سیکورٹی اہلکار تھا ۔ اس نے تفصیلات فون کے ذریعے آگے پہنچا دیںتب کہیں کلیرنس کے لئے جانے کی اجازت ملی۔یہ سیکورٹی چیک مخصوص لوگوں کے لئے ہوتا ہے جس میں بلا لحاظ رنگ و نسل مذہب یا عمر چند افراد کا چنائو کرکے کیا جاتا ہے۔کلیرنس کے لئے درجنوں افسران موجود تھے پھر بھی مسافروں کی کافی بھیڑ جمع تھی جو قطاروں میں چل نہیں بلکہ رینگ رہے تھے۔قریب ڈیڑھ گھنٹے کھڑا رہنے کے بعد ہی میری باری آئی۔اس قسم کی کلیرنس کے لئے مجھے کچھ برس پہلے دوبئی جانے کے لئے زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ لگے تھے۔کلیرنس افسر سے سرسری سوال جواب ہوامثلاً کیوں جارہے ہیں ، کتنے عرصے کے لئے جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب پوچھ کر پاسپورٹ پر اخراج کی مہر ثبت کی اور اب ہم مخصوص گیٹ پر اڑان کا انتظار کرتے رہے۔
بین الاقوامی پروازوں میں خورد و نوش کی سہولیات بدرجہ اتم موجود رہتی ہیں ۔رات میں دو بج کر بیس منٹ اڑنے والا ائر انڈیا کا جہاز صبح سات بجے مقامی وقت کے مطابق شکاگو امریکہ میں اترا۔یعنی دلی سے شکاگو کا سفر قریب ساڑھے پندرہ گھنٹے کا رہا۔مسلسل سفر تھکا دینے والا ہے لیکن اس میں پیسہ اور وقت مقابلتاً کم لگتا ہے جب کہ ایک دو اسٹاپ والے جہاز میں سفر پچیس تیس گھنٹے کا ہوتا ہے اور دوسرے ہوائی اڈوں پر اترنے کے سبب ائر پورٹ ٹیکس وغیرہ مسافروں کی جیبوں سے نکلتا ہے۔یہ میرا امریکہ کا پہلا سفرتھا اور میں اپنے زیر تعلیم بیٹے کے یونیورسٹی گریجویشن تقریب میں شرکت کی غرض سے وہاں جا رہا تھا۔اگرچہ میرا بیٹا اریزونا یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا لیکن میں نے شکاگو میں دو تین گزارنے کے سلسلے میں اپنا سفر یہاں توڑا۔شکاگو ائر پورٹ پر آمد کی راہداری سے گزرنا پڑا جہاں ہر ایک باقاعدہ لائن میں رہ کر آگے بڑھتا رہا۔امریکی اب مشینوں سے کافی کام لیتے ہیں۔ہمارے علاقوں میںمسافروں کی آمد کی تفصیلات انسان ہاتھوں سے کرتے ہیں لیکن وہاں نصب شدہ مشینوں پر یہ کام خود ہی کرنا پڑتا ہے ،تاہم کم تعلیم یافتہ افراد کے لئے اکا دکا عملے کی امداد میسر رہتی ہے۔برقی مشین پر پاسپورٹ کا عکس، انگلیوں کے پرنٹ وغیرہ ہونے کے بعد مشین کے یہاں سے ایک رسید نکلتی ہے جو اپنی باری پر سیکورٹی اہلکاروں کو حوالے کرنا ہوتی ہے۔سرسری سوال جواب کے بعد پاسپورٹ پر آمد کی مہر لگا کر آگے بڑھنے کا اشارہ ملا تو ائر پورٹ بلڈنگ سے نکلنے کے لئے قدم بڑھائے۔
شکاگو کا اوہیر ایئر پورٹ شہری علاقے سے دور ہی ہے اور میں نے اسی علاقے میں رہایش کا فیصلہ کیا کیونکہ شہری علاقے کے مقابلے میں یہاں ہوٹل کا کرایہ کم ہی تھا۔برقی بکنگ کے نتیجے میں مسافر کے پاس کافی چوائس رہتی ہے کہ وہ کس قسم کے ہوٹل میں رہایش پذیر رہے۔ائر پورٹ لائونج میں بیٹھ کر موبائل فون پر ہوٹل کی بکنگ کی ۔ہمارے یہاں کے مقابلے میں وہاں بارہ بجے کے بدلے تین بجے ہوٹل آمد متوقع ہوتی ہے تاہم میں نے ہوٹل سے فون پر رابط کرکے یہ دریافت کیا کہ کیا میں سویرے ہی داخلہ لے سکتا ہوں۔اجازت ملی تو میں نے اوبرUber کے ذریعے ٹیکسی بک کرنے کی کوشش کی لیکن کریڈٹ کارڈ میں کسی مسئلہ کے سبب ایسا نہ کر سکا۔امریکہ میں نقدی کا استعمال بہت کم ہوتا ہے اور اوبر کمپنی نے نقد وصول کرنے پر مکمل پابندی عائد رکھی ہے۔اوبر ٹیکسی کمپنی اب تقریباً دنیا کے ہر بڑے شہر میں کام کرتی ہے ۔اس کا کام نہایت دلچسپ ہے۔اس کے ساتھ لوگ اپنی گاڑیاں منسلک کرتے ہیں اور اپنے انیرایڈ Anroidفون پر اوبر ایپ کی مدد سے جہاں بھی آپ کھڑے ہوں اوبر سے رابط کرکے انہیں اپنی منزل کے بارے میں تحریر کرتے ہیں ۔چند لمحوں میں مکمل تفصیل سامنے ہوتی ہے۔گاڑی کا نمبر، ڈرائیور کا نام، کرایہ کی رقم اور منزل پرمتوقع آمد ۔یہ بھی اطلاع ملتی ہے کہ کتنی دیر میں ڈرائیور پہنچ جائے گا ۔نقدی کے بدلے کریڈٹ ڈبٹ کارڈ سے کرایہ ادا ہوتا ہے۔یہ سروس دلی چندی گڑھ ،دلی وغیرہ میں بھی دستیاب ہے، تاہم یہاں ابھی نقدی کا رواج بھی جاری ہے لیکن امریکہ میں نہیں۔یہ تمام سروس گوگل نقشہ جات کے ذریعے ممکن ہے جو ابتدائی منزل ، انتہائی منزل اور درمیان میں راستہ سمجھانے کا کام کرتا ہے ۔ اس بارے میں مزید تفصیل آگے درج ہے ۔میں چونکہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی نہ کرسکا ، اس لئے مجھے پرائیویٹ ٹیکسی پر انحصار کرنا پڑا۔اوبر کے بدلے پرائیویٹ ٹیکسی میں کوئی بیس فیصد زیادہ ادا کرنا پڑا جس بارے میں سیاہ فام ڈرائیور نے ایمانداری سے تمام تفصیل دی اور میٹر استعمال کرنے کی بات کی۔کچھ ہی دیر بعد میں ہوٹل پہنچا۔ہوٹل ریسیپشن پر ضروری لوازمات جیسے پاسپورٹ، کرایہ ادائیگی وغیرہ کے بعد میں کمرے میں پہنچا۔ہوٹلوں میں کام کرنے کا عملہ امریکہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہوتا۔ہمارے یہاں ہوٹل میںداخلے کے ساتھ ہی ایک دو ملازم سامان اٹھانے اور کمرے تک پہنچانے کے لئے پیش ہوتے ہیں لیکن امریکی ہوٹلوں میں یہ کام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ٹرالی بیگ کی وجہ سے یہ کام آسان ہوگیا۔ نہا دھو کر ذرا تازہ دم ہوا تو باہر بازار میں جانے کا موقع ملا۔وہاں سویرے ہی لنچ کرکے واپس کمرے میں پہنچا تو نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔چونکہ تھکا ہوا تھا اور دن میں پہنچنے کے سبب جو اپنے وطن میں رات تھی، اس لئے نیند کا آنا حق بجانب تھا۔
امریکہ میں اونچی عمارتوں میں رہنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ذاتی مکانوں میں بھی لوگ رہتے ہیں۔تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکی اپنے مکانوں کے گرد اونچی دیواریں تعمیر نہیں کرتے۔یاتو دیوار ہوتی نہیں یا بہت کم اونائی والی گرل وغیرہ سے اپنی پرپارٹی کی نشاندہی کرتے ہیں ۔شکاگو النیاس ریاست کا بڑا شہر ہے بلکہ امریکہ کے سب سے بڑے شہروں میں ایک ہے۔یہ شہر مشیگن جھیل کے کنارے پر آباد ہے اور اونچی عمارتوں کے لئے مشہور ہے۔ان عمارتوں میں جان ہینکاک سینٹر مشہور ہے جس کی اونچائی ساڑھے چودہ سو فٹ ہے یعنی ہمارے گھروں کے حساب سے ایک سو اکسٹھ منزل اونچی عمارت ہے ۔شکاگو شہر کا پرانا علاقہ جسے ڈائون شکاگو کہتے ہیں شہری علاقہ ہے اور آب رو اںکے کناروں پر آباد ہے ۔ شہر کی عمارتیں اورطرز تعمیر دکھانے کے لئے اس آب رواں میں درمیانی حجم کی کشتیاں چلتی ہیں جو سیاحوں کو لبھانے کے لئے دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیںلیکن اس بود و باش کے باوجود یہ دیکھنے پر حیرت ہوتی ہے کہ اس آب روکا پانی کس قدر شفاف ہے اور شکاگو نشینوں کا اپنے ماحول سے پیار پر انسان عش عش کرتا ہے۔سیاحوں کو سب سے پہلے یہ تاکید کی جاتی ہے کہ کسی قسم کا کوڑا کرکٹ یا پالیتھین ریپر پانی میں پھینکنے کی غلطی نہ کریں۔اس سفر کے دوران ٹرمپ ٹاور نام کی ایک عمارت دیکھ کر تجسس پیدا ہوا کہ کہیں یہ صدر ٹرمپ کی ملکیت تو نہیں ۔تاہم گائیڈ نے کہا کہ یہ سوال کئی سیاح پوچھتے ہیں۔اسی علاقے میں نیوی برج نام کی ایک جگہ ہے جو سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے بلکہ ڈائون ٹاون شکاگو میں سیاحت کی زیادہ تر سرگرمیاں یہیں سے شروع اور یہیں پر ختم ہوتی ہیں۔نیوی پائر Navy Pier مشیگن جھیل کی شور لائن پر واقع ہے اور اسے ۱۹۲۷ میں یہ نام دیا گیا اور ان نیوی افراد کے نام وقف کیا گیااور پہلی جنگ عظیم کے دوران یہاں رہایش پذیر و زیر تربیت بحری سرشتے کے افراد کے اعزاز میں ایسا کیا گیا۔نیوی پائر کے پاس دو بڑے کتبے نصب ہیں ،ایک پر ان امریکی فوجیوں کے نام پیغامِ تعزیت ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران یہاں پر مشقوں کے دوران فوت ہوئے۔دوسرا کتبہ اس لنگر کے نیچے رکھا ہوا ہے جو شکاگو کے نام سے جاناجاتا ہے۔یہ لنگر آٹھ ٹن وزنی ہے اور شکاگو نامی بحری جہاز سے لیا گیا ہے جو ۱۸۸۹ سے۱۹۲۸ تک کام پر لگا ہوا تھا۔دوسرا بحری بیڑہ ۱۹۳۱ میں کام پر لگایا گیا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران گوڈل ندی کے علاقے میںدشمن فوجوں کا نشانہ بن گیا۔شکاگو نامی تیسرا جہاز جہاں سے یہ لنگر حاصل کیا گیا ۱۹۴۵ میں کام پر لگایا گیا اور بعد میں میزائل بردار جہاز میں تبدیل کیا گیا ۔یہ ویت نام جنگ کے دوران سرگرم تھا۔اس کی لمبائی ۶۷۱ فٹ تھی۔اسے ۱۹۸۰ میں کام سے ہٹایا گیا۔
شہر کی سیر کرانے کے لئے سیاحت سے وابستہ لوگوں نے دو منزلہ بسیں رکھی ہیں جن کی دوسری منزل پر چھت نہیں ہوتی۔ان بسوں کی چھت پر کرسیاں موجود ہیں اور مائک لئے گائڈ تفصیلات بتاتے رہتے ہیں اور شہر کی خاص عمارات کے تاریخی پس منظر سے واقف کراتے ہیں۔شکاگو شہر سے وابستہ بعض واقعات اور چیزیں بہت دلچسپ اور مشہو رہیں۔ان میں ۱۸۷۱ کی وہ آگ ہے جو ۸ اکتوبر سے ۱۰ اکتوبر تک سلگتی رہی اور کوئی تین سو افراد لقمہ اجل بنے اور جس کے سبب ۳اعشاریہ۳ مربع میل یعنی تین چوتھائی علاقہ خاکستر ہوگیا اور ایک لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے جب ساڑھے سترہ ہزار مکانات نذر آتش ہوگئے ۔ایک اندازے کے مطابق ۲۲۲ ملین ڈالر کا مجموعی نقصان ہوگیا۔اس آگ کے پھیلنے میں شہر کے علاقوں میں وہ فیکٹریاں ذمہ دار ہیں جو کیمیائی اشیا کی پیداوار کرتی تھیں۔
(بقیہ اگلے سوموار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
(رابط[email protected]/9419009169 )