سرینگر//وادی میں منشیات کے بڑھتے استعمال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے 2 برسوں کے دوران شہر کے صدر ہسپتال اور جواہر لال نہرو میموریل ہسپتال رعناواری میں 15ہزار افرادنے او پی ڈی میں اپنا طبی معائینہ کرایا جس میں سے 12ہزار سے زیادہ افراد کو ہسپتالوں میں بھرتی کر کے ان کا علاج ومعالجہ کیا گیا ۔معلوم رہے کہ پولیس نے رواں سال جولائی تک منشیات کاکاروبار کرنے والے 100سے زیادہ افراد کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ہے ۔ جواہر لال نہرو میموریل ہسپتال رعناواری کے تازہ اعدادو شمار کے مطابق 7ہزار افرادپچھلے 2 برسوں کے دوران ہسپتال میںآئے جن میں سے 613 کو داخل کر کے اُن کاعلاج ومعالجہ کیا گیا ۔ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہسپتال میں ہر ماہ میں 4سو سے ساڑھے 4سو ایسے افراد کو طبی معائنہ کیلئے لایا جاتا ہے جو منشیات کا استعمال کرتے ہیں ۔ذرائع نے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہسپتال انتظامیہ نے 2017میں 408مریضوں کو داخل کیا اور2018میں جون تک 205مریض ہسپتال میں داخل کئے گئے ۔ سرینگر کے صدر ہسپتال میں اس سال جولائی تک قریب 4ہزار افراد کا طبی معائنہ کیا گیا ہے ۔ہسپتال میں موجود ذرائع نے بتایا کہ سرینگر کے صدر ہسپتال میں سال 2014.15میں 3405افراد ہسپتال کی اوپی ڈی میں طبی معائنے کیلئے لائے گے تھے جن میں سے346کو ہسپتال میں علاج ومعالجہ کیلئے بھرتی کیا گیا 2015/16میں 3885افراد ہسپتال آئے اور اس دوران 471کو بھرتی کیا گیا۔2016-17میں 3220افراد اوپی ڈی میں آئے جس میں سے 408کو بھرتی کیا گیا 2018میں قریب 4ہزار ایسے افراد کا طبی معائنہ کیا جاچکا ہے ۔ذرائع نے کہا کہ پولیس کنٹرول روم سرینگر میں بھی ہر سال سینکڑوں ایسے افراد کا علاج ومعالجہ اور کونسلنگ کی جاتی ہے جو اس لت میں مبتلا ہوتے ہیں ۔وادی کے نفسیاتی معالج کہتے ہیں کہ اس کی روکتھام کیلئے بنیادی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہسپتالوں تک پہنچنے سے قبل اس پر روک لگائی جا سکے ۔اُن کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں منشیات کا استعمال تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور وادی کے ڈرگ ایڈکشن سنٹروں میں روزانہ ایسے نوجوانوں کو لایا جارہا ہے جو مختلف اقسام کی نشیلی ادویات کا استعمال کرتے ہیں ۔وادی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر ارشد حسین نے کشمیر عظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ منشیات کا استعمال کرنے والے یا تو جوانی میں مر جاتے ہیں یا پھر حادثات کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں اور اگر کوئی ان حادثات کی وجہ سے زندہ رہ بھی جاتا ہے تو اس کا ذہنی توازن کھو جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس گھر میں نشیلی ادویات کا استعمال ہوتا ہے اُس گھر میں لڑائیاں، جھگڑے اور فسادہوتے ہیں۔ رعناواری ہسپتال کے ایسوسییٹ پروفیسر وماہر نفسیات ڈاکٹر زید کہتے ہیں کہ وہ پچھلے 20برسوں سے ذہنی مریضوں کا علاج کرتے آرہے ہیں اور آج سے 10 برس قبل کی اگر بات کی جائے تو اُن کے پاس مہینے میں صرف ایک ہی ایسا مریض آتا تھا اور یہ مریض بھی وادی میں نہیں بلکہ کشمیر سے باہر سیاحتی شعوبہ کے ساتھ منسلک ہوتا تھا،لیکن اب حالت ایسی ہے کہ روزانہ 3سے5 مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ منشیات کے استعمال میں کتنا اضافہ ہو رہا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر وادی میں شراب سے زیادہ چرس کا استعمال ہو رہا ہے اور چرس سے انسان کے دماغ کے سیل فوت ہو جاتے ہیں ۔انہوں نے مزید بتایا کہ اس سے ہپٹاٹس سی اور ایڈس لگنے کا خطرہ رہتا ہے ۔