ترکی کے باشعور عوام نے اردگان کو تاریخ ساز فتح دلا کر اپنے ملک پر ایک بڑا احسان کیا ہے ۔ ناقدین ترکی کے موجودہ صدر اردگان کو اسرائیل کا دوست اور امریکہ کا حلیف جتلاتے ہیں لیکن عالمی سطح پر ترکی کے صدر اردوان کی جو شبیہ اُبھری ہے ،اس میں وہ مسلمانوں کے مسیحا کے طور نظر آتے ہیں ۔ یہ ترکی ہی ہے جس نے چالیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرمسلمانوں کی دادرسی کرتے ہوئے انہیں اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے۔فلسطین کے معاملے میں اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہونے کے باوجود بھی ترک صدراسرائیل کو اپنی آنکھیں دکھاتے رہے ہیں۔پوری دنیا کشمیریوں کی حالت زار پر خاموشی اختیار کئے ہوئی ہے لیکن ترکی کے صدر نے ہمارے دکھ درد کا فسانہ بھی چھیڑا ۔ لٹے پٹے روہنگیائی مسلمانوں کے درد انگیز نالے سننے کے لئے ترکی کے صدر اپنی اہلیہ محترمہ کو وہاں بھیج کر ان کی دادرسی کی ۔ حکومت بنگلہ دیش کو سے کہا کہ وہ روہنگیا کوپناہ دے اور ترکی ان مہاجرین کے تمام اخراجات خود برداشت کرے گا۔اس کے برعکس دیگر مسلم حکمران یا تو غزہ کی ناکہ بندی میں تل ابیب کے ساتھ ہیں یا پھر پھر مصریوںکا ناطقہ بند کرانے میں امریکہ کے ا یماء پر سعودی شاہوں کی حمایت کر رہے ہیں ۔ترکی مسلم دنیا کا واحد ملک ہے جو ببانگ دہل شامی مسلمانوں، فلسطینی مجبوروں ، روہنگیائی لاچاروں وغیرہ کے حق میں آواز اُٹھا تارہا ہے ۔
جس وقت طیب اردوان کی فتح کی خوش خبری مسلم دنیا کو ملی ، عین اسی وقت یہ افسوس ناک خبر بھی موصول ہوئی کہ سعودی ولی عہد نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہیں خفیہ ملاقات کی ہے ۔ وہ لوگ جو سعودی شاہوں کی حمایت میں اور ترک جمہوریت کی مخالفت میں سچائی کو پامال کر نے کی کوششوں میں مصروف ہیں ،ان کے لیے مودبانہ عرض ہے کہ جس سعودی عرب میں کبھی اسلام کی ہمہ وقت آبیاری ہو رہی تھی، وہاں سے ا ب اسلام کو ماڈرن ازم کے نام پر اسلام کو وطن بدر کیا جارہاہے ، سنیما کھل رہے ہیں ، فیشن شو ہورہے ہیں ، میوزیکل کنسرٹ منعقد ہورہے ہیں اور پردے کے پیچھے نہ جانے کیا کیا ہورہا ہوگا ۔ یہ سب کچھ حکومتی سرپرستی مین ہورہاہے۔ اس کے برعکس ترکی میں نہ ابھی مکمل اسلامی قوانین کا نفاذ ہے اور نہ ہی مکمل اسلامی ماحول پایاجاتاہے لیکن سعودی عرب کے مقابلے میں یہ ملک عالم ا سلام کی نئی امید بن کر ابھر رہاہے ۔ اردوان نہ صرف ترکی کوتعلیم وصحت اور تعمیر وترقی کی شاہراہ پر ڈالتے جارہے ہیں بلکہ اپنے وطن عزیر کو مسلسل اسلامی تعلیمات کی طرف رجوع کر وانے کی کامیاب ترغیبیں دلا رہا ہے ۔اس لیے آج کی تاریخ میں ترکی کو عیش پرست سعودی شاہوں پر ہر لحاظ سے فوقیت ملتی ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ترکی کا صد ر مصطفیٰ کمال کے عطاکردہ ابلیسی نظام سے پیداہوئی تمام خامیوں اور خرابیوں وک ملک اور معاشرے سے کھر چ رہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب شراب کے اڈے قائم ہیں لیکن وہ الحمدللہ دھیرے دھیرے بند جا رہے ہیں ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں شراب ، جوئے خانے، سنیما گھر قصہ ٔ پارینہ ہوں گے اور تُرکستان ایک جدید ماڈل اسلامی ریاست ہوگا۔ کیا ہم یہ پیش گوئی سعودی عرب کے بارے میں کر سکتے ہیں۔
ترکی کے قومی الیکشن میں صدر اردوان نے اپنے بل بوتے پر فتح حاصل کی ۔انہوں نے واقعی ترکی کو مرد بیمار سے مرد مسیحا بننے میں نہایت اہم رول ادا کیا ۔مدارس و مساجد کا احیا ء کیا ، نئ نسل کو دین سے واقف کرایا، کارخانے لگائے ، بے روزگاری کا قلع قمع کر نے کی کاوشیں کیں ، تعلیم وتدریس کا اُجالا پھیلا یا۔ عوامی لیڈر ہونے کے ناطے اُن میں جا گھسا، اُن کی باتیں سنیں ،خواب سمجھے ، ارمان جانے اور ان محاذوں پر انتھک کام کرکے ان کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی تاریخ ساز ہمہ گیر تبدیلی سے ممکن بنایا کہ جس ترکی میں اسلام کا نام لینا یااللہ اکبر کہنا جرم عظیم تھا، اسی ترکی میں آج نعرہ تکبیر اللہ اکبر ، اسلام زندہ باد کی صدائیں گونج رہی ہیں ۔
ا ے شرف ملت ا ردوان! آپ نے دین اسلام کی خوشہ چینی کرکے دکھایا کہ اسلام کے سائے میں آخرت ہی نہیں بنتی بلکہ دنیا بھی بہترین قرارگاہ بنتی ہے ۔ آپ ترکی میں ایک ایسے وقت خلافت عثمانیہ کے احیاء کے لیے کمر بستہ ہیں جب باطل طاقتیں پورے ساز و سامان سے لیس ہوکر پوری دنیا میں لٹھ لئے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف رات دن سازشیں رچارہی ہیں ۔شکرہے کہ اللہ کے بھروسے پر اپنی تعمیری قوتوں کے بل پر تخریبی طاقتوں کو شکست فاش دینے پر آمادہ ٔ پیکار ہیں ۔ مسلم دنیا آپ کی کامیابی اور سرخروئی کے لئے دست بدعا ہے ۔ ہمیں اس بات کا بھی بھرپور احساس ہے کہ باطل اپنی سازشیں لئے آپ کے تعاقب میں لگا ہواہے مگر باطل پسپا ہونے والاہے، حق کا غلبہ ہونا ہے۔ ان شا ءاللہ۔ آپ کی حفاظت فرمائے۔ آمین