نوی ممبئی ایک ایساشہر ہے جسے منصوبہ بند طریقے سے تعمیر کیا گیا ہے۔اسے اکیسویں صدی کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔اس مناسبت سے اِس کا جدید ہونا فطری ہے۔اسے ممبئی سے متصل بسایا گیا ہے،اسی لئے اسے سیٹلائٹ سِٹی کہتے ہیںیعنی ممبئی اور نوی ممبئی دونوں ٹوِین سِٹی (جڑوا شہر) بھی کہلاتے ہیں۔ یہاں کا انفرا اسٹرکچر غضب کا ہے۔اچھے اسکول اور بہترین کالجز کا جال بچھا ہوا ہے۔اگرچہ اِس شہر کو وجود میں آئے ابھی چالیس برس ہی ہوئے ہیں لیکن جس رفتار سے اس نے ترقی کی ہے وہ دیدنی ہے۔یہاں کے اکثر باسی پڑھے لکھے ہیںاور اِس شہر کے لوگوں کی مجموعی فطرت کاسموپولیٹن ہے۔ہر مذہب و ملت کے لوگ یہاں آباد ہیں۔سب کے اپنے اپنے مذہبی مراکز ہیں۔زیادہ تر لوگ باہر سے آکر ہی آباد ہوئے ہیں۔اِس شہر کا دوستانہ مزاج اس قدر عام ہے اور لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے احترام اور برداشت کا جذبہ اس قدر اعلیٰ ہے کہ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ۹۳۔۱۹۹۲ء کا جو فساد ممبئی میں پھوٹ پڑا تھا ،اس کا کوئی اثر نوی ممبئی میں نہیں ہوا۔نوی ممبئی پوری طرح محفوظ تھا، یہاں قتل و غارت گری کی ایک بھی واردات نہیںہوئی تھی۔اس کے علاوہ بھی کئی طرح کے بند اور ہڑتال یہاں منائے گئے لیکن ہمیشہ ہی ماحول پرسکون رہا۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے اکثر و بیشتر افراد نوکری پیشہ ہیں اور اپنی فیملی اور اپنے کام سے مطلب رکھتے ہیں۔
ایسے میں چند روز پہلے نوی ممبئی کے چند علاقوں میں بند کے نام پر جس طریقے سے ہڑبونگ مچایا گیا،وہ اکیسویں صدی کے شہر کے ماتھے پر ایک کلنک سے کم نہیں۔ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح فسادی موٹر سائیکلوں اور موٹر گاڑیوں کو پھونک (جلا)رہے تھے اور چند فاصلے پر کھڑی پولیس یہ نظارہ دیکھ رہی تھی کیونکہ بھیڑ کی تعداد پولیس کی تعداد سے کئی گنا زیادہ تھی۔فسادیوں نے سرکاری بسوں کا ناطقہ تو بند کر ہی دیا تھا،اسکول بسوں کونہیں بخشا تھا۔نتیجتاً اسکول انتظامیہ نے اپنے بسوں کو چلانے سے معذوری ظاہر کر لی۔صبح میں بچے اسکول بسوں سے اسکول گئے تھے۔اب والدین پر قہر ٹوٹ پڑا کہ وہ اپنے جگر گوشوں کو کیسے لائیں؟مائیں تو یہ کام نہیں کر سکتی تھیں کیونکہ وہ ٹی وی پر سارا ہڑبونگ دیکھ رہی تھیں،لامحالہ باپ اپنے اپنے کام سے واپس آکر اپنے بچوں کو گھر لے آئے اور کام سے واپس آنا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ ہر جگہ راستہ روکو،ٹرین روکو ،بس روکو،آٹو روکو اور کاروں کو بھی روکا گیا۔جو نہیں مانے،انہیں توڑ پھوڑ کا سامنا کرنا پڑا۔یہ ننگا ناچ دن بھر کھیلا گیاحتیٰ کہ جب بند ختم کرنے کا اعلان ہو گیاتب بھی کچھ علاقوں میں رات تک زور زبردستی کی گئی۔ یہ سب کچھ ہوا مراٹھا ریزرویشن کے نام پر۔کہتے ہیں کہ یہاں مہاراشٹر میں مراٹھا کی آبادی تقریباً ۳۵؍ فیصد ہے اور وہ تعلیم اور نوکری میںریزرویشن چاہتے ہیں۔یہ مانگ اگرچہ پرانی ہے لیکن ۲۰؍برسوں سے اس نے کچھ زیادہ ہی زور پکڑ لیا ہے۔اسی کے پیش نظر اس سے پہلے کی حکومت جو کانگریس اور این سی پی کی تھی ۲۰۱۴ء میں جاتے جاتے مراٹھا اور مسلمانوں کیلئے بالترتیب ۱۶؍ اور ۵؍فیصدریزرویشن کیلئے اسمبلی میں آرڈیننس(قانون) لائی تھی۔کانگریس ؍این سی پی کی حکومت تو چلی گئی اور یہ آرڈیننس بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا۔فرنویس حکومت نے مراٹھا ریزرویشن کو تو ہری جھنڈی دے دی لیکن مسلمانوں کے ریزرویشن کو سرے سے خارج کر دیاکہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا۔اس کے بعد معاملہ ہائی کورٹ چلا گیا جہاں سوال کیا گیاکہ ۱۶؍فیصد ریزرویشن مراٹھا کو دے دیا گیا تو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا کیا ہوگا جس کی رو سے ۵۰؍فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہیں دیا جا سکتا؟اسی لئے یہ معاملہ فی الحال عدالت میں ہے ۔اس کے علاوہ حکومت نے بھی او بی سی کمیشن سے اپنی سفارشات پیش کرنے کو کہا ہے کہ کیا مراٹھا قوم کے حالات ایسے ہیں جن کی بنیاد پر انہیں ریزرویشن دیا جائے۔کمیشن کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنا کام کر رہا ہے اور تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ہی وہ اپنی سفارشات پیش کرے گا،اس میں وقت بھی لگ سکتا ہے اورایک سال کے اندر یہ کام ہونا مشکل ہے چونکہ اس سے پہلے کے ۳؍کمیشن مراٹھا ریزرویشن کیلئے منفی رپورٹ دے چکے ہیںیعنی مراٹھا کو ریزرویشن دینا ممکن نہیں ہے۔اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ان کے حالات دگرگوں نہیں ہیں۔
یہی سب دیکھتے ہوئے مراٹھا قوم حرکت میں آگئی ہے۔۲۰۱۷ء تک جو ۵۲؍ریلیاں مراٹھوں نے کی تھیں، وہ تمام کی تمام پرسکون اور منظم تھیں ۔کہیں سے بھی کسی ناخوشگوار واقعے کی خبر نہیں آئی تھی لیکن اِس بار کے بند نے سارا بھرم توڑ دیا اور مراٹھا تشدد پر اتر آئے۔جو مراٹھا لیڈر ہیں وہ اِس سے انکار کر رہے ہیں اور اپنے خلاف سازش کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ممکن ہے کہ کچھ ایسے عناصر در آئے ہوں جو مراٹھا کاز کو نقصان پہنچانا چاہتے ہوں اور بدنام بھی کرنا چاہتے ہوں۔فرنویس حکومت کیلئے یہ شورش ’زحمت میں رحمت‘‘ کے مترادف ہو سکتی ہے کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ مراٹھا کے ایک ہونے سے او بی سی اور دلت بی جے پی کی طرف مائل ہوں اور اس سے آئندہ کے انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ ہو۔چونکہ مراٹھا میں بھی تین ذیلی ذاتیں ہیں جن میں سے ایک کو اوبی سی مان لیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اوبی سی کے ساتھ ہی جائیں گے۔اس طرح او بی سی اور دلت کی ایک خاصی تعداد بی جے پی کی حمایت کرسکتی ہے کیونکہ جو رول پولیس نے نبھایا ہے وہ حکومت کے اشارے کے بغیر نہیں ہو سکتا۔شام میں حالات جب قابو سے باہر ہو گئے تب جاکر پولیس کی جمعیت دیکھی گئی لیکن اُس وقت تک حالات بہت بگڑ چکے تھے۔ایک ۲؍ اموات بھی ہو گئی تھیں اور پچاسوں گاڑیاں نذرِ آتش کی جا چکی تھیں جن میں پولیس کی بھی دو تین گاڑیاں تھیں۔ایک علاقے میں تو ایک پولیس چوکی کو جلا دیاگیا۔پتھر بازی ایسے ہو رہی تھی جیسے نئی ممبئی کا ایک علاقہ ’کوپر کھیرنے‘ جموں کشمیربنا ہو۔ایک شخص نے یہ کہا بھی کہ ایسا جے کے (جموں کشمیر) میں ہوتا تھا اور اب کے کے( یعنی کوپر کھیرنے) میں ہو رہا ہے۔اگرچہ بعد میں پولیس نے آنسو گیس چھوڑے اور ہوائی فائرنگ بھی کی اور کچھ پلاسٹک کی گولیاں بھی برسائیں لیکن بہت محدود پیمانے پر۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اوپر سے حکم ملا تھا کہ فسادیوں کے ساتھ نرمی برتی جائے۔
سب کچھ ووٹ اور اقتدار کی خاطر ہو رہا ہے۔ تشدد کرنے والے جو بھی ہوں،اس سے ملک کا نقصان ہی ہو رہا ہے اور دنیا میں ملک کی جو شبیہ بن رہی ہے وہ’ ’ہجومی جمہوریت ‘‘والی بن رہی ہے۔کچھ دنوں بعد ایسا ہو جائے گا کہ باہر کے لوگ ہندوستان آنے سے کترائیں گے کیونکہ ہجوم کی کوئی پہچان نہیں۔ہجومی تشدد پر سپریم کورٹ قانون بنانے کے لئے مودی حکومت سے کہتا ہے تو وہ مختلف جوازیت فراہم کرتی ہے کہ قانون پہلے سے موجود ہے۔خود وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ یہ ہجومی تشدد کوئی نیا تھوڑے ہی ہے،۱۹۸۴ء میں سکھوں کے ساتھ جو ہوا تھا وہ بھی ایک طرح سے ہجومی تشدد ہی تھا۔(۱۹۹۲ اور ۲۰۰۲ء کے فسادات ؍لنچنگ کو وہ سرے سے بھول جاتے ہیںکیونکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ہوئے تھے )۔ان کے اس جواز کو بی جے پی کے دوسرے لیڈر بھی لے اُڑتے ہیں اور جا بجا ان کے اِس بیان کا استعمال کرتے ہیں۔یوپی کے وزیر اعلیٰ نے بھی راجناتھ سنگھ کے بیان کا حوالہ دیا اور ہجومی تشدد کو ایک طرح سے جائز ٹھہرایا۔وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ اگرچہ انسان کی جان پیاری ہے لیکن گائے کا سمان بھی ضروری ہے کہ اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچے۔یہ بیان وہ الور میں گائے کی اسمگلنگ کے شبہ میںمارے گئے ایک اور مسلم شخص اکبر خان کے حوالے سے دے رہے تھے۔اسی درمیان وزیر اعظم مودی یوگانڈا کے دورے پر تو ہیں لیکن ساتھ ہی ۲؍سو گائے تحفے میں لے گئے ۔پتہ نہیں یہ گائے ڈپلومیسی کیا ہے اور اِس سے یہ ثابت کرنا کیا چاہتے ہیں؟ہمارا پڑوسی ملک چین ،یوگانڈا اور دوسرے افریقی ممالک کو ڈیم اور فلائی اووَراوربرِج دے رہا ہے اور ہم ہیں کہ انہیں گائے دے رہے ہیں۔بعد میں وہ لوگ ان گائیوں کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، یہ سوال کیا بھگت مودی جی سے کر سکتے ہیں؟ہندوستان میں صرف جموں کشمیر مسلم اکثریت والا صوبہ ہے اور وہاں گئوکشی پر پابندی ہے لیکن گوا اورشمال مشرقی ریاستوںمیں پابندی نہیں۔
خیر،مراٹھا ریزرویشن کے لئے جو تشدد رونما ہوئے اگراس کا ۱۰؍فیصدی بھی مسلمان انجام دیتے تو پولیس کیا ایسے ہی تماشائی بنی رہتی؟یہ سوال سو ٹکے کا ہے کیونکہ ریزرویشن تو مسلمانوں کو بھی عنایت کیا گیا ہے بھلے ہی آرڈیننس کے ذریعے۔کیا اس ملک میں مسلمان اسی طرح کا احتجاج کر سکتے ہیں؟اور اس کے بعد بچ بھی سکتے ہیں؟شاید نہیں۔
……………………..
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883