سگریٹ پہ سگریٹ پینے سے کیا کسی مسئلے کا حل نکلے گا شبنم نے امجد کے ہاتھ سے سگریٹ چھین کر باہر پھینک دیا۔شبنم یہ سگریٹ ہی تو ہے جو کچھ پل مجھے راحت کی سانسیں فراہم کرتے ہیں۔مجھے افسوس ہے اس بات پہ کہ اس نئی نئی شادی پہ میں تم کو وہ آرام ،وہ سکون نہ دے پارہا ہوں جس کا وعدہ شادی سے پہلے میں نے کیا تھا۔
شبنم نے امجد کا جھکا ہوا سر دھیرے دھیرے اوپر اُٹھایا اور نہایت پیار بھرے لہجے میں کہا مجھے نہ تمہاری دولت چا ہیئے نہ مجھے کچھ پل کا وہ سکون چاہئے جو دولت سے لوگ خریدتے ہیں۔ اگر میری کوئی چاہ ہے تو وہ یہ ہے کہ مجھے بس مرتے دم تک تمہاراساتھ اور پیار ملے۔میں عمر بھر روکھی سوکھی پہ گزارا کروں گی اور ہر سختی برداشت کروں گی ، مگر تم اگر ایسے ہی پریشان رہوگے اور رات کو آرام کرنے کے بجائے سگریٹ پہ سگریٹ پھونکوگے تو میں۔۔۔شبنم اب کیا بولنے والی تھی امجد نے اندازہ کر لیا تھا، اسلئے شبنم کے منہ پہ ہاتھ رکھ کے امجد نے کہا میں نا اُمید نہیں ہوا ہوں میں نے نوکری کے لئے کئی جگہوں پر درخواستیں دیں ہیں۔ اللہ نے چاہا تو جلد ہی کوئی اچھی نوکری مل جائے گی۔ شبنم نے انشاء ـاللہ بول بدآوازکہا ،چلو اب سو جائو رات بہت ہوئی۔
شبنم باورچی خانے میں کھانا پکا رہی تھی اور امجد اخبار پڑھ کر بار بار مسکرا رہا تھا ۔شبنم ذرا دیکھوتوکسی میاں نے مجھ پر مضمون لکھا ہے ۔شبنم نے سارا کام کاج چھوڑکر اخبار ہاتھ میں لیا اور زور زور سے تمہید باندھ کر پڑھنے لگی میرے شوہر یعنی ادبی دنیا کے انقلابی شاعر اور افسانہ نگار امجد رشید کا نام اُن شاعروں اور افسانہ نگاروں میں لیا جاتا ہے، جو ظلم کو ظلم لکھتے ہیں اوراپنی نظموں میں انھوں نے خاص کر مظالم کے خلاف جو آواز اُٹھائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ۔شبنم نے پورا مضمون پڑھ کر ادیبانہ لہجے میں کہا مجھے اس موقع پر اپنے پسندیدہ شاعر جون ایلیا کا ایک مصرعہ یاد آرہا ہے۔ امجد نے مسکراتے ہوئے کہا ارشاد ۔ تو سنئے یہ مصرعہ آپ کے نام
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں
امجد مسکراہٹ بھرے لہجے میں کچھ بولنے ہی والاتھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ جی کون اندر تشریف لائے۔
صاحب میں ڈاکیہ، آپ کے نام تار آیا ہے۔یہاں دستخط کر دیجے ۔
امجد نے دستخط کر کے جب خط کھولا تو اُس پہ انگریذی میں لکھا تھا
Dear Amjad with refrence to your application and subsequent interview you had with us we are pleased to offer you the position of Editor..
امجد نے ابھی پورا خط پڑھا ہی نہیں تھا کہ شبنم نے امجد کو گلے لگا کر مبارک باددی اور چہرے پر سے خوشی کے آنسوں پونچھ کر کہا کہ :دیکھا میں نہ کہتی تھی اللہ کے گھر میںدیر ہے اندھیر نہیں۔ اُٹھو اب کھانا کھا تے ہیں ،مجھے تمہارے لئے کوٹ اور پتلون تیار کرنا ہے کل سے آفس جو جانا ہے ۔
آج سویرے اٹھ کر امجد نے نہا دھوکر کوٹ پتلون پہنا اور وہ ٹائی باندھنے والا ہی تھا کہ شبنم نے سامنے آکر پیار بھرے لہجے میں کہا ۔کیا بیوی کو اتنا بھی حق نہیں کہ وہ شوہر کی ٹائی خود اپنے ہاتھوں سے باندھ لے ۔ ٹائی باندھ کر شبنم نے خوشی خوشی امجد کو گھر سے ودا ع کیا۔
ابھی امجد اندر داخل ہوا ہی نہیں تھا کہ کسی نے پیچھے سے آواز دی جی صاحب کدھر جانا ہے آپ کو۔ امجد نے نہایت ادب سے کہا جی یہاں پہ نوکری ملی ہے اس لئے ڈائریکٹرصاحب کے پاس جانا ہے ۔چوکی دار نے مبارک باد دے کر امجد سے کہا۔ وہاں سے سیدھے راستے جائے بڑے صاحب کا آفس وہی ہے۔
دروازے سے کوٹ پتلون میں ملبوس بڑی کرسی پہ بیٹھے آدمی کو دیکھ کر امجد کی زبان سے خود بہ خود نکلا ؟کیا میں اندر آسکتا ہوں سر؟
جی آئے تشریف رکھئے ،سنتے ہی امجد کرسی پہ بیٹھ گیا اور یہاں وہاں کی باتیں کئے بغیر امجد نے کہا جی میرا نام امجد فاروق ہے ۔ امجد نام سنتے ہی وہ مسکرا کر کہنے لگاتو آپ ہی وہ قابل اور ذہین آدمی ہے ۔آپ کے بارے میں پڑھا بھی ہے اور سنا بھی بہت کچھ ہے۔اسلئے تو ہم چاہتے تھے آپ ہمارے ساتھ کام کریں، لیکن ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کو یہ نوکری نہیں مل سکتی کیوں کہ آپ ایک باغی قلم کار ہیں۔ ہم نہیں چاہتے آپ کی وجہ سے ہماری نیوز چنل ہمیشہ کے لئے بند جائے۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہونگے کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔امجد کا چہرہ یہ سب باتیں سن کر نہ صرف لال ہوا بلکہ جوش میں وہ زور زور سے چیخ کر کہنے لگا ۔ہاں ہاں میں باغی ہوں اگر بندے کو خدا نہ لکھنا اور ظلم کو ظلم لکھنا بغاوت ہے تو ہاں میں باغی ہوں۔۔امجد کچھ اور بولنے والا ہی تھا کہ وہ دیوار پہ لگی تصویر کو دیکھ کر اک دم خاموش ہوگیا۔ دیوار پر اسکے دوست کی تصویر تھی، جو اپنے ہی باغیانہ خیالات کی وجہ سے کسی ایسی گولی کا شکار ہوا تھا، جسکے بارے میں یہ بھی پتہ نہ چلا کہ کہاں سے چلی تھی!!!
کشمیر یونیورسٹی سرینگر