آج تک جموں کشمیر کے آئینی پوزیشن کو کھوکھلا کر نے کی بد نیتی سے اس میں اتنی ترامیم کی گئی ہیںکہ آج کی تاریخ میں آئین ہند کا آرٹیکل 370 ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے ۔ سب سے پہلے صادق حکومت میں یہاں وزیر اعظم اور صدر ریاست کے عہدے چھین لئے گئے،اس کے بعد جموں کشمیر کے آئین کو بے پال وپر بنانے کے لئے کم و پیش 350؍ مرکزی ایکٹ ریاست پر لاگو کئے گئے ہیں۔ اس سے بھی جب پیٹ نہ بھرا تو اب آرٹیکل35 A ؍کو کالعدم قرار دئے جانے کی عدالتی کارروائی کا راستہ اختیار کیا گیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست جموں کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے لئے گزشتہ 70 سال سے مسلسل کو ششوں اور سازشوں کو کامیاب بنانے میںبیشترمقامی اقتدارنواز سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ مہروں کا کردار نبھایا ۔ اب وہ بعض شدت پسندوں کی جانب سے مذکورہ دفعہ کو معاملہ سپریم کورٹ تک لینے پر دکھاوے کا واویلا کر یں تو اس پر کوئی اعتبار کر نے کو تیار نہیں لیکن اُمید کی صرف ایک کرن ہے کہ سپریم کورٹ کا عظیم ادارہ اپنی روایات کے عین مطابق عدل وانصاف سے کام لے کر ریاستی عوام کی خصوصی پوزیشن کی نگہداری کر ے گی ۔ عدالت عظمی میں آئین ہند کی دفعہ 35Aکو چلنج کر کے پریوار والے چاہتے ہیں کہ جموں کشمیر کی بچی کچھی خصوصی پوزیشن جو اب لفظوں کی حدتک محفوظ ہے ، کو تحلیل کیا جائے۔ اس آرٹیکل کو 14 مئی 1954ء کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ 370 کی بنیاد پر آئین ہند میں شامل کیا گیا ۔ در اصل 1953ء میں حکومت ہند کی جانب سے ریاست کے اُس وقت کے ریاستی وزیر اعظم شیخ عبداﷲ کو غیرآئینی طور پر معزول اور گرفتار کر نے کے نتیجہ میں کشمیری عوام اور مرکز کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج حائل ہو چکی تھی جس کے نتیجے میں ریاست میں محاذ رائے شماری کا وجود عمل میں لایا گیا تھا۔ محاذ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر حل کے لئے سیاسی جدو جہد کا موقف رکھتاتھا۔ اس لئے وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو نے ریاستی عوام اور عالمی برادری کو یہ تاثردینے کے لئے کہ جموں کشمیر کو حاصل خصوصی پوزیشن نہیں چھینی جا رہی ہے، دفعہ 35A کے تحت جموں کشمیر کی ریاست کے پشتینی باشندوں کو خصوصی مراعات اور حقوق فراہم کرنے کا آئینی و قانونی سہارا دیا ۔ آئین ہند کے اس آرٹیکل کی وجہ سے کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ ریاست میں جائیداد خرید نہیں سکتا، ریاستی حکومت کے تحت چلنے والے پروفیشنل کا لجوں میں داخلہ نہیں پاسکتا ، سکالر شپ حاصل کرنے کے حق دار نہیں ہوسکتا ، سرکاری ملازمت نہیں پاسکتا ، اسمبلی اور پنچایتی انتخابات میں ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ یہ محض اس قانون کی دین ہے کہ تھیوری کی حد تک جموں و کشمیر کی اسپیشل پوزیشن آئین و قانو ن کا ناقابل تبدل حصہ بناہواہے۔اب61؍ سال گزرنے بعد عدالت عظمی میں دفعہ 35A کو آر ایس ایس کے حمایت یافتہ لوگ استد لال کرتے ہیں کہ بقول ان کے یہ دفعہ آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے سے میل نہیں کھاتا ، ا س لئے اسے غیر قانونی قرار دیا جائے ۔ اگر بالفرض عدالت عظمیٰ نے اس دفعہ کے خلاف فیصلہ سنایا تو ریاست میں غیر ریاستی باشندوں کو بسانے کی قانونی راہیں کھل جائیں گی جس سے ریاستی عوام کے تمام قانونی حقوق پامال ہو کر رہ جائیں گے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ بی جے پی آئین ہند کی دفعہ 370 کو ہمیشہ کے لئے ختم کر نے کا کھل کر مطالبہ کر تی رہی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اب 35A کے دروازے کو استعمال کیا جارہاہے ۔ عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی رٹ پٹیشن سے ریاست کی مزاحمتی قیادت میں سراسیمگی پھیلی ہوئی ہے ، تمام سنجیدہ فکر طبقات مضطرب ہیں ، تاجر ا ور وکلاء چیخ و پکار کر رہے ہیں،سول سو سائٹی آہ وزاری کر رہی ہے اورسب مل کر خد شہ ظاہر کر ر ہے ہیں کہ یہ آئین ہند کی دفعہ 370 کو بے دست وپا کر کے جموں کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑ نے کا اوچھے حربہ ہے جس کا مقصد جموں کشمیر کی انفرادیت ہمیشہ کیلئے ختم کر نا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے بھاجپا نے2014ء میں پار لیمانی انتخابات کا میدان رام مندر کی تعمیر، یکساں سول کوڈ کے نفاذ، آئین ہند سے370 دفعہ حذف کئے جانے جیسے وعدوں پر مارا تھا لیکن یہ چیزیں تشنہ ٔتکمیل ر ہیں، اس لئے اب گئو رکھشا کے نام پر ہجومی ہلاکتوں ، این سی آر کی آڑ میں ۴۰ لاکھ آسامی مسلمانوں کی شہریت کا قضیہ کھڑا کرنے اور جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کر نے جیسے اقدمات سے یہ اگلے پارلیمانی الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ بھارت اپنی گنگا جمنی تہذیب کے حوالے سے اپنی اچھی شبیہ رکھتا ہے ،اسی لئے 2010 میں جب اوباما ہندو ستان آئے تو انہوں نے جاتے جاتے وزیر اعظم ہند مودی جی کو فہمائش کی تھی کہ مذہبی انتہا پسندی سے اوُپر اُٹھ کر سوچنا ہوگا۔ آج دفعہ35A کے خلاف لنگر لنگوٹے کسنے سے باور ہوتا ہے کہ اوبامہ کی اَن سنی کی دی گئی ہے ۔