عید
السلامُ علیکم چاچا، عید مبارک
و علیکم السلام آپ کو بھی عید مبارک ہو۔ نسیم ، اتنی صبح کہاں جا رہے ہو؟، چلو گھر۔۔ تھوڑی دیر بیٹھ کے میرے ساتھ گاڑی میں عیدگاہ چلنا۔
بات ایسی ہے چاچا وہ ہمارے پڑوس میں جو بیوہ عورت رہتی ہے وہ کل سے کچھ زیادہ بیمار ہے، اس کے لئے آپ سے صدقہ ٔ فطر لینے آیا تھا۔۔
ارے اس ٹائم میں صدقہ کہاں سے دوں؟ بچوں کو لے کر عید گاہ جانا ہے۔ وہاں بچوں کو ڈھیر ساری عیدی دینی پڑتی ہے اور آج کل تو مٹھائی خریدنے اور کھلونے خریدنے کا رواج بھی ہے نا۔۔
چاچا کم از کم اپنا صدقہ فطر تو دے دو۔
چاچا۔۔۔۔۔وہ تو میں نے چار روز پہلے ہی جامع مسجد میں جمع کرا لیا ہے۔۔
نسیم۔۔۔تو آپ کو پہلے اپنے پڑوسی کو دینا تھا یہ آپ پر اسکا حق ہے ۔۔
چاچا۔۔۔۔ارے بھائی حق و ناحق کیا ہے،وہ میں اچھی طرح جانتا ہوں ۔تم مت سکھاو ۔
نسیم۔۔۔ ارے چاچا آپ یوں ہی گرم ہوگئے، میں تو بس آپ کو یاد دلا رہا تھا۔
چاچا۔۔۔۔۔ تم عجیب ہو یار۔ یہاں کا سسٹم بھی نہیں دیکھتے ہو۔ مسجد میں جمع نہیں کرائیں تو وہ لوگ ناراض اور اس طرح سے یہ معاملہ کیا کریں۔ ؟
نسیم۔۔۔ چلئے میں چلتا ہوں۔
چاچا۔۔۔۔۔۔ ارے نسیم ویسے اس بیوہ کا تعلق اپنی مسجد سے تو نہیں ہے۔ تم کا ہے کو اس کے لیے پریشان ہورہے ہو؟
نسیم۔۔۔۔۔۔۔ ارے چاچا اب آپ نے بہت اچھی بات کہی، ٹھیک ہے اس عورت کا پتی ہماری مسجد میں نماز نہیں پڑھتا تھا، دوسری مسجد میں جاتا تھا، لیکن وہ ہماری پڑوسی ہے اور آج مشکل میں ہے تو از راہ انسانیت ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس کی کچھ مدد کریں۔ آپ یاد رکھیں چاچا اگر آج ہم اس کی مدد نہ کریں تو ہمیں جائز نہیں کہ عید گاہ جاکر نماز پڑھیں، ہمارا پڑوسی بیمار ہو اور اس کے بچے پریشانی میں عید کریں۔ چاہے اس کا مسلک کچھ بھی ہو، اس کا مذہب کچھ بھی ہو۔
اچھا میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم
بھائی
کسی لڑکی کے ساتھ دھوکہ کرنے والا کسی کا بھائی نہیں ہوسکتا ہے، اسے اس دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں حاصل ہوتا ہے یہ سوچ کر اس نے اپنے دھوکے باز بوائے فرینڈ کو آج زہر کھلا ہی دیا۔۔۔ جیسے ہی زہر کھا کر وہ تڑپنے لگا وہ وہاں سے گھرسیدھے آئی۔۔۔۔۔۔۔ گھر میں اپنے بھائی کے کمرے سے آرہی ہنسی کو سن کر وہ تھوڑا رک کر یہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس قدر خوشی کس بات پر ظاہر کی جا رہی ہے بس کان کمرے کی کھڑکی سے لگا بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا بھائی اپنے دوست کو مزے لے لے کر سنا رہا تھا کہ اس نے کس طرح کالج میں ایک لڑکی کے ساتھ دھوکے سے کیا کیا حرکتیںکی ۔اور دھوکے سے کیسے اُسے دوائی بھی دے دیا۔ لیکن وہ بے وقوف آج بھی اس پر بھروسہ کرتی ہے۔ بس یہ سنتے ہی اس کے ہوش و حواس گویا سن ہوگئے۔۔۔۔۔۔ پھر اُسے اپنی وہ بات یاد آ گئی کہ ایسے لوگوں کو اس دنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لیکن یہ کیا دوہراپن تھا اپنے بھائی کو زہر دیتے وقت تو اس کے پیر لڑکھڑا رہے تھے اور اس کے دل اور دماغ دونوں اس کو منع کر رہے تھے۔۔اسے ہمت نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اپنے بھائی کو زہر نہ دے سکی ۔ ایک ہی جرم تو پھر سزا کے وقت اپنے پرائے میں فرق کیوں؟؟اس پہلی کو حل نہ کرسکی۔
دراس کرگل جموں وکشمیر ،موبائل نمبر؛8082713692