آدھی رات کا وقت تھا۔
جب چاند اپنے چہرے سے نقاب مکمل طور پر اُتار چکا تھا۔ چاند سے لاکھوں میل دور زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر ،ایک بڑی سی حویلی کے چھوٹے سے کمرے میں لیٹا ہوا ایک شخص۔ہر اُس چیز کو پانے میں کامیاب ہو چُکا تھا جس کی خواہش کبھی اُس کے دل کے کسی گوشے میں ابُھری تھی۔
لوگ اسے دنیا کا ایک کامیاب ترین شخص مانتے تھے۔
جب رات کے پہلے پہر اس کی آنکھ لگ جاتی تو صبح کی روشنی آنے سے پہلے اُس کی آنکھ کھُلنے کا تصوّر کرنا ایسا تھا جیسا رات کو سورج نکل آئے۔
مگر آج نہ جانے کیوں؟
نہ جانےکیوں اور کیسے رات کے دوسرے پہر میں اُس کی آنکھ اچانک کھل گئی ۔اسے یوں محسوس ہوا جیسے کہ وہ کسی دوسری ہی دنیا میں آ چکا تھاجیسے وہ خود کو بھی نہیں جانتا۔
اور پھر کامیابی !!
کامیابی کا لفظ تو جیسے اُس نے کبھی سُنا ہی نہیں تھا۔ یہ عالیشان حویلی اسے زندان سے کچھ کم محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ لوگوں کی نظر میں ایک کامیاب شخص ہونے کے باوجود وہ خود کو دنیا کا ناکام ترین شخص محسوس کر رہا تھا۔
وہ اُس وقت زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے پر کروڑوں روپے کی مالیت کی اُس حویلی کے اُس چھوٹے سے زندان نما کمرے میں بیٹھ کر اپنی حقیقی کامیابی کا راز تلاش کر رہا تھا ۔
اور اب دور آسمان میں بسنے والا وہ چاند بھی اپنا اُتارا ہوا نقاب دھیرے دھیرے پھر اپنے چہرے پر اوڑھنے لگ گیا تھا۔
دونوں اِسی کشمکش میں تھے کہ اچانک ایک آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ایک ایسی آواز جسے وہ پچھلے بیس سال سے مسلسل سنتے آ رہا تھا۔ پر آج نہ جانے اُس آواز میں ایسا کیا تھا کہ اسُکی سوئی ہوئی روح اور مردہ ضمیر کو ایک دم سے جگا گئی۔
اسکی بےچینی کا عالم ابھی ذرہ برابر بھی کم نہ ہوا تھا کہ پکارنے والے نے اپنی پکار میں ایسے الفاظ پکارے کہ اسے اپنے زندہ ہونے کا یقین بھی نہ ہو رہا تھا۔
پکارنے والے نے یہ الفاظ بہت ہی زور سے پکاریے تھے۔
حیّ علی الصلاۃ ۔۔۔ حیّ علی الصلاۃ
حیّ علی الفلاح۔۔۔۔۔۔ حیّ علی الفلاح
یہ آواز سن کر اُسے ایسا لگا کہ جیسے کوئی اُسے حقیقی کامیابی کا راز زور زور سے پُکار کر بتا رہا تھا۔اور گویا یہ راز صرف اُسی کو بتایا جا رہا ہے۔
وہ ابھی اِنہی خیالوں میں گُم تھا کہ اچانک اُس کے کمرے کا دروازہ کھُلا اور ایک خاتون نے مدہم سے لہجے میں آواز دی
"مالک آپ کی چائے"
���
مغلمیدان کشتواڑ،رابطہ: 8492956626