Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

نئی دنیا…سہانے خواب

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: August 12, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
21 Min Read
SHARE
کوئیل کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ اپنا شہر چھوڑ کر سات سمندر پار انگلستان پہنچ جائے گی۔ اُس کی کئی پشتوں میں شائد ہی کوئی اپنے شہر سے باہر نکلا تھا۔ لیکن قدرت نے اُس کی زندگی کے آب و دانے دُور دُور تک پھیلا رکھے تھے۔ اُسے یاد آرہا تھا کہ اگر ماں نے اُس دن بہت مجبور نہ کیا ہوتا اور میرے بچپن کے خیالات کی پرواہ کی ہوتی تو شائد میں آج یہاں نہ ہوتی۔ کلثوم آنٹی کے اصرار کے آگے ماں کی ایک نہ چلی اور وہ مجھے یہاں بھیجنے کیلئے مجبور ہوگئی۔ اب کئی سال بیت جانے کے بعد میں جوان ہوچکی ہوں اور سوچ رہی ہوں کہ اچھا ہوا ماں نے زبردستی مجھے یہاں بھیج دیا۔
کوئیل مہرن موسی کی اکلوتی اولاد تھی۔ جب وہ سات سال کی تھی تو باپ ایک موزی مرض کا شکار ہوکے اللہ کو پیارا ہوگیا۔
مہرن جسے سب مہرن موسی کہہ کے پکارتے تھے سردار سکندر خان کے گھرمیں آیا تھی۔ وہ چھوٹی عمر سے ہی سکندر خانصاحب کے گھرمیں بطور ملازمہ آئی تھی۔ چونکہ اُس کا کوئی والی وارث نہیں تھا اس لئے خانصاحب نے اُسے مستقل طور گھر میں رکھ لیا تھا اور جب ذرا جوان ہوئی تو اُس کی شادی علی لوہار سے کردی گئی اور رہنے کیلئے حویلی سے ذرا دُور اپنے ہی باغ میں دو کمروں، کچن اور باتھ روم، پر مشتمل ایک چھوٹی سی انیکسی دیدی۔
سردار سکندر خان کا شمار شہر کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ اُن کی بھی اکلوتی اولاد تھی۔ ایک لڑکا تھا سریر محمد خان، جسے انہوں نے اچھے سکول اور کالجوں میں پڑھا کے ایک اچھا ڈاکٹر بنوایا تھا اور جو اب شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں ڈاکٹر کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ 
سکندر خانصاحب اور اُن کی اہلیہ نے مہرن اور اُس کی بچی کو نہ صرف رہنے کیلئے گھر دے رکھا تھا بلکہ اِن دونوں ماں بیٹی کے لئے کھانے پینے، کپڑے پوشاک اور زندگی کی دوسری ضروریات کی ذمہ داری بھی لے رکھی تھی۔ بس یوں سمجھئے کہ مہرن اور اُس کی بیٹی بھی خانصاحب کے گھرانے کے افراد سمجھے جاتے تھے۔ 
کوئیل کو اچھے سکول میں داخل کرایا گیا اور اُس کی پڑھائی کا خرچہ بھی اب خانصاحب ہی برداشت کرتے تھے۔ چونکہ مہرن اور اُس کی بچی کے سب اخراجات خانصاحب ادا کرتے تھے اس لئے وہ بھی اپنے کام کا کوئی معاوضہ اُن سے نہیں لیتی تھی۔
کچھ سال بعد ڈاکٹر سریر کی منگنی لولاب کے ایک زمیندار گھرانے میں ڈاکٹر کلثوم سے کردی گئی۔ ڈاکٹر کلثوم بھی اپنے علاقے کے ایک سرکاری ہسپتال میں بحیثیت ڈاکٹر کام کررہی تھی۔ منگنی کی رسم بڑے دھوم دھام سے انجام دی گئی۔ شہر کے بڑے بڑے رُوساء، سرکار افسر اور حکومت وقت کے کئی وزراء صاحبان نے شرکت کی۔ چونکہ یہ سکندر خانصاحب کے گھرانے میں پہلی خوشی تھی اس لئے انہوں نے اس رسم کو نہایت تزک و احتشام سے ادا کیا اور مہمانوں کی آئو بھگت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
کوئی ڈیڑھ سال بعد طوفانی بارشوں کے باعث جب سارا شہر ایک خوفناک سیلاب کی زد میں آگیا اور شہر کی بیشتر بستیاں اور علاقے پوری طرح زیر آب ہوگئے تو سکندر خانصاحب کا گھر بھی اس قہر سے بچ نہیں پایا۔ سیلاب اس قدر اچانک اور بھیانک تھا کہ تقریباً سارا مال و زر اس طوفان میں بہہ گیا۔ بیٹے کی شادی کے لئے جو بھی سامان وغیرہ منگوایا تھاوہ سب پانی کی نذر ہوگیا اور کچھ بھی بچ نہیں پایا۔ مالی نقصان تو خیر برداشت کرلیا تھا مگر جانی نقصان نے خانصاحب کی کمر توڑ دی۔ اُن کی اہلیہ سامان بچانے کی فکر میں ایک ریلے کی زد میں آکر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ تین دن بعد اُس کی لاش گھر سے کوئی ایک کلومیڑر دوری پر ملی اور وہ بھی تب جبکہ سیلاب کا دبائو تھم چکا تھا اور پانی کی سطح کم ہوچکی تھی۔
اب گھر میں صرف سکندر خان، اُنکا بیٹا ڈاکٹر سریر خان، مہرن اور اُس کی بیٹی کوئیل رہ گئے تھے۔ خانصاماں، ڈرائیور، مالی اور دوسرے سبھی ملازمین بھی سیلاب کے دوران گھر چھوڑ کے چلے گئے تھے۔ وہی حویلی جسے دیکھ دیکھ کے لوگ رشک کرتے تھے اور جہان سے کوئی بھی حاجتمند یا ضرورتمند خالی ہاتھ نہیں لوٹتا تھا آج ویران پڑی تھی۔ خانصاحب کی فراخدلی اور اُن کی بیگم کی دریادلی کے سبب کئی گھرانے آباد ہوگئے تھے اور کئی اب بھی برابر پل رہے تھے مگر اب بیگم کی جدائی نے خانصاحب کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی اُسے بھلا نہیں پایا تھا۔ دراصل سکندر خان اب عمر کی اُس حد میں پہنچ چکا تھا جب شریکِ حیات کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ بوڑھی عورت تو جوں توں کرکے جی لیتی ہے مگر بیوی کے چلے جانے کے بعد بوڑھا مرد بے بس ہوجاتا ہے۔ کچھ بھی ضرورت ہو تو کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتا اور اگر خدانخواستہ جسمانی طور سے کمزور یا دستِ نگر ہوجائے تو اُس کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے۔ سکندر خان کی حالت قدرے بہتر تھی اسلئے ابھی وہ محتاج نہیں تھا۔ ہاں البتہ بیگم کی جدائی کی وجہ سے اب اُس کی صحت دن بہ دن بگڑتی جارہی تھی۔ 
ڈاکٹر سریر نے دن رات محنت کرکے حویلی کو ٹھیک کروا کے اپنی پرانی صورت میں پھر سے تیار کروا دیا تھا اور اسی دوران خانصاماں، ڈرائیور ار مالی پھر سے واپس آگئے تھے۔
ڈھلتی عمر اور گرتی صحت کے باعث سکندر خان بیٹے سے شادی کیلئے برابر اصرار کررہا تھا۔ شائد اس کے پس پردہ اُس کا اکیلا پن تھا۔ گو ڈاکٹر سریر ابھی ذہنی طور شادی کے لئے تیار نہیں تھا مگر حالات کے پیش نظر اور باپ کی خوشی کیلئے بالآخر اُس نے شادی کیلئے حامی بھر لی۔ اس لئے ڈاکٹر سریر خان نے اپنے ایک دور کے رشتے دار کے ذریعے اپنے والد سکندر خان کی طرف سے لڑکی والوں کو شادی کی تاریخ مقرر کرنے کے لئے کہلا بھیجا تاکہ جلد سے جلد شادی کی جائے۔ لڑکی والوں سے بھی کہا گیاکہ رخصتی نہایت سادہ طریقے سے انجام دی جائے کیونکہ بیگم صاحب کو گزرے ہوئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے اور بڑے خانصاحب کی صحت بھی ٹھیک نہیں۔
کوئی دو مہینے بعد ڈاکٹر سریر خان کی شادی ڈاکٹر کلثوم کے ساتھ نہایت سادگی سے انجام دی گئی۔ رشتے دار اور لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ جس لڑکے کی منگنی سکندر خان نے خوب دھوم دھام سے کی تھی اُس کی شادی اتنی سادگی سے ہوگی۔ گو لڑکی والے چاہتے تھے کہ شادی تزک و احتشام سے کی جائے مگر ڈاکٹر سریر شادی میں سادگی کیلئے بضد تھے۔
ڈاکٹر کلثوم نے آتے ہی بحیثیت بہو کے گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیا۔ ڈاکٹر سریر نے اپنی بیوی کو ہر نوکر اور ملازم کے بارے میں بتادیا اور یہ بھی بتادیا کہ مہرن موسی حالانکہ گھر کی ملازمہ ہیں لیکن اُسے ہمیشہ گھر کا فرد سمجھنا۔ ہم سب اُسے موسی کہہ کے پکارتے ہیں۔ اُس کے اور اس کی بیٹی کے تمام اخراجات والد صاحب ہی برداشت کرتے ہیں۔ مکان کے عقب میں باغ کے کنارے وہ چھوٹا سا دو کمروں والد گھر امّی اور ابا حضور نے مہرن موسی اور اُس کی بیٹی کوئیل کو رہنے کیلئے دیا ہے۔ ڈاکٹر سریر نے اپنی بیوی ڈاکٹر کلثوم کو مزید بتایا کہ مہرن موسی کا ہم لوگوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے اور اس لئے ہمیں نہ صرف ماں بیٹی کا پورا خرچہ برداشت کرنا ہوگا بلکہ کوئیل کی پڑھائی اور شادی کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہوگی۔
شادی کے کچھ مہینے بعد ڈاکٹر سریر اور ڈاکٹر کلثوم کے ذہن میں خیال آیا کہ انگلستان جانے کے لئے کوشش کی جائے تاکہ نہ صرف اور پیسہ کمایا جائے بلکہ طب کے میدان میں مزید ڈگریاں حاصل کی جائیں۔ اس سے اچھی زندگی گذارنے کا موقع ملے گا اور والد صاحب کا علاج بھی بہتر طریقے سے ہوجائے گا۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ یہاں واپس آکے اپنے کے لوگوں کی بھی خدمت کرسکیں گے۔ 
کافی کوشش کے بعد ڈاکٹر سریر کو شمالی انگلستان کے لنکا شائیر علاقے میں ایک ہسپتال میں نوکری مل گئی۔ حالانکہ اُسے دوسرے عرب ممالک وغیرہ میں بھی نوکری مل سکتی تھی مگر مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اُس نے انگلستان کی نوکری کو ترجیح دی۔ 
بڑے خانصاحب کو دونوں میاں بیوی نے پہلے ہی اپنے ساتھ باہر جانے کیلئے ذہنی طور تیار کرلیا تھا کیونکہ سکندر خان صاحب کی بھی یہ خواہش تھی کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آئیں اوریہاں اپنا ہسپتال کھولیں۔ ڈاکٹر کلثوم کا پیر بھاری تھا اور اگلے چار پانچ مہینے میں اولاد کی آمد متوقع تھی اس لئے جانے سے پہلے دونوں میاں بیوی نے مشورہ کیا کہ مہرن موسی کی چودہ سالہ بیٹی کوئیل کو بھی ساتھ لیا جائے کیونکہ انگلستان میں گھر کے کام کاج اور آنے والے بچے کی دیکھ بھال کیلئے آیا کی ضرورت ہوگی، جو وہاں ملنا نہایت مشکل ہے۔ وہاں اُجرت بہت مہنگی ہے اور گھنٹوں کے حساب سے ہے۔ انہوں نے سوچا کوئیل کو اپنا قریبی رشتہ دار جتا کے ساتھ لے جائیں گے کیونکہ نابالغ لڑکی کو نوکرانی بنا کے ساتھ لے جانا قانوناً جرم ہے۔
دونوںمیاں بیوی نے خانصاحب اور مہرن کو سمجھا بُھجا کے ذہنی طور تیار کرلیا کہ وہ باہر لے جا کے کوئیل کو کسی اچھے سکول میں داخل کروائیں گے اور اُسے اچھی تعلیم دیں گے۔ مزید وہ اس بچی کے دوسری ضروریات کو بھی پورا کریں گے اور مہرن موسی کو ہر مہینے دس ہزار روپے بھیجا کریںگے۔ انہوں نے مہرن موسی سے کہا کہ دو تین سال وہاںرہنے کے بعد کوئیل اچھا خاصہ پیسہ کمالے گی تاکہ بعد میں اُس کی شادی اچھے طریقے سے ہو۔ اگرچہ کوئیل ماں کو چھوڑنے کیلئے بالکل تیار نہیں تھی مگر بچی کے مستقبل اور مراعات کے لالچ میں آکر مہرن موسی نے زبردستی کوئیل کو ڈاکٹر کلثوم کے ساتھ بھیج دیا۔ اُسے پورا یقین ہوچلا تھا کہ اُس کی بیٹی ان دونوں کے پاس اچھی طرح پلے گی اور بڑھ بھی جائے گی۔
ویسے لاکھ بتانے اور سمجھانے کے باوجود ڈاکٹر کلثوم کا رویہ مہرن اور کوئیل کے ساتھ وہی تھا جو ایک مالک کا نوکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ کوئیل کو صرف نوکرانی بنا کے لے جانا چاہتی تھی۔ مگر بڑے خانصاحب نے بیٹے اور بہو کو سمجھایا کہ کوئیل کو اچھی طرح پالنا پوسنا اور اُس کا خیال رکھنا۔ یہ بے چاری یتیم ہے اور غریب ماں کی بیٹی ہے ایسا نہ ہو کہ کل کو کوئی شکایت آئے۔ بیٹے اور بہو نے بڑے خانصاحب کو پورا یقین دلایا کہ وہ کوئیل کی دیکھ بھال میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیںہونے دیں گے۔
کچھ دنوں بعد ڈاکٹر سریر خان اور کلثوم انگلستان پہنچ گئے اور کوئیل ہمراہ تھی۔ ڈاکٹر سریر انگلستان کے شمال میں اونرکرک ہسپتال میں بحیثیت لوکم تعینات ہوگئے اور ڈاکٹر کلثوم چونکہ حاملہ تھی اس لئے گھر پر ہی رہی اور کوئیل گھر کے کام کاج اور دیکھ بھال کیلئے ساتھ تھی۔
کوئی پانچ مہینے بعد ڈاکٹر کلثوم نے ایک لڑکے کو جنم دیا اور زچگی کے دوران کوئیل نے جی بھر کے اُس کی خدمت کی۔
اب بچہ پورے ایک سال کا ہوگیا تھا اور اس دوران ڈاکٹر سریر امتحان پاس کرنے کے بعد لیورپول میں G.P(جنرل پریکٹیشنر) بن گیا تھا اور ڈاکٹر کلثوم بھی ساتھ ہی ایک ہسپتال میں ملازم ہوگئی تھی۔ 
کوئیل نہ صرف گھر کے سب کام کاج سنبھالتی تھی بلکہ بچے کو بھی پال پوس رہی تھی۔ ایسے حالات میں اُس کا کسی سکول میں داخلہ لینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا۔ اس لئے اُس نے ڈاکٹر سریر سے کہہ کے کتابیں منگوا کر گھر پہ ہی پڑھنا شروع کردیا اور فرصت کے اوقات میں محنت کرنا شروع کردی۔ کوئیل کی خوش قسمتی تھی کہ پاس ہی ایک حیدرآبادی فیملی رہتی تھی، جہاں اُس کی ایک ہم عمر لڑکی سے دوستی ہوگئی، جو فرصت کے لمحات میں کوئیل کو پڑھایا کرتی تھی۔
دونوں ڈاکٹر میاں بیوی ویک اینڈپر اکثر گھومنے نکل جایا کرتے اور کوئیل کو بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ پچھلے دو سال میں کوئیل نے تقریباً پورا انگلستان دیکھ لیا تھا اور وہ یہاں کے رہن سہن اور طور طریق سے بھی بہت حد تک واقف ہوچکی تھی۔ اب ٹوٹی پھوٹی انگریزی زبان بھی بول لیتی تھی اور کچھ کچھ سمجھ لیتی تھی۔ گو پڑھائی میں بہت پیچھے تھی لیکن بہت کچھ سیکھ چکی تھی، جو اپنے ملک میں شائد بہت کچھ پڑھنے کے بعد بھی نہ سیکھ پاتی۔ اب وہ چھری کانٹے سے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کے کھانا کھاتی تھی۔ انگلش ٹائیپIWCاستعمال کرتی تھی اور باتھ ٹب میں نہاتی تھی۔ وہ اب نہ صرف یہاں کے ماحول میں رچ بس گئی تھی بلکہ بہت حد تک اس سے مانوس بھی ہوچکی تھی۔
ڈاکٹر سریر ہرمہینے باقاعدگی کیساتھ اپنے والد کو پچاس ہزار اور مہرن موسی کو الگ سے دس ہزار بھیجا کرتے تھے۔ موسی اپنی کوئیل کی شادی کیلئے پیسے جمع کررہی تھی۔
ایک دن اچانک سکندر خان کی طبیعت بگڑ گئی اور اُسے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا۔ اپنے والد کی بیماری کی خبر سنتے ہی ڈاکٹر سریر نے فیصلہ کرلیا کہ کچھ دیر کے لئے گھر جائے، اس لئے دونوں میاں بیوی نے ایک مہینے کی چُھٹی لے لی اور وہ چھوٹے بچے داوٗد اور کوئیل کو ساتھ لے کے واپس چلے آئے۔
اُن کے آنے کے کچھ دن بعد خان صاحب کی طبیعت سنبھل گئی اور ڈاکٹروں نے اُنہیں گھر جانے کی اجازت دے دی۔ ڈاکٹر سریر اور ڈاکٹر کلثوم نے خانصاحب کو ساتھ لے جانے کیلئے بہت اصرار کیا مگر وہ ہرگز تیار نہیں ہوئے بلکہ انہیں مشورہ دیا کہ جلد از جلد واپس جائیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی اور گھر کی دیکھ بال کیلئے بہت سے نوکر چاکر موجودہیں۔
دوسری جانب مہرن موسی اپنی بیٹی کو دیکھ کر پھولے نہیں سما رہی تھی۔ کوئیل نے اب نوجوانی کے حصار میں قدم رکھ لیا تھا۔ اُس کا سراپا نکھر آیا تھا۔ لمبا قد، گھنیری کالی زُلفیں، سانولا خوبصورت شہرہ اور پھر سرزمین انگلستان کی ماڈرن ہوا۔ غرضیکہ کوئیل اب ماڈرن خوبصورت جوان لڑکی تھی۔ بیٹی کو دیکھتے ہی مہرن نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اب کوئیل کو واپس جانے نہیں دے گی بلکہ موزوں گھرانہ اور لڑکا دیکھ کر اُس کے ہاتھ پیلے کردے گی۔
ادھر ڈاکٹر کلثوم بضد تھی کہ بچے دائود کی پرورش اور انگلستان میں گھر کی دیکھ بھال کیلئے کوئیل کو ساتھ لے جانا ضروری ہے ۔ ڈاکٹر سریر متفکر تھا کہ بھلا مہرن موسی کو کیسے سمجھایا جائے۔ 
مہرن موسی مطمئن تھی کہ اب کوئیل واپس جانے کے لئے انکار کردے گی کیونکہ ماں نے اپنی بیٹی کو سمجھا بُجھا کے واپس نہ جانے کیلئے ذہنی طور تیار کرلیا تھا۔
ڈاکٹر کلثوم نے مہرن موسی کو سمجھایا کہ ابھی کوئیل کے گھر بسانے کی عمر کے تین چار سال باقی ہیں۔ اُن کے ساتھ جاکے وہ نہ صرف مزید پیسے کماکے لائے گی بلکہ اپنے لئے اور دس چیزیں بھی لائے گی۔ اُس نے موسی سے کہا کہ لوگ ایسے موقعوں کے لئے ترستے ہیں لیکن تمہاری کوئیل خوش نصیب ہے کہ اُسے یہ موقع ملا ہے۔ دراصل ڈاکٹر کلثوم کی اس وضاحت اور مشورے کے پس پردہ اُس کی اپنی ضرورت اور مجبوری تھی۔
اِدھر مہرن نے اپنی بیٹی کو پوری طرح سمجھایا تھا کہ ’’تم نے جو کچھ دیکھنا تھا دیکھ لیا، جو کچھ سیکھنا ساتھ سیکھ لیا اور جو کچھ کمانا تھا کما لیا، ہمیں ضرورت سے زیادہ پائوں پھیلانے کی ضرورت نہیں، تمہیں آخر کار اس سرزمین پر رہنا ہے۔ ہم لوگ جاگیردار نہیں، ہمیں بس آرام سے دو وقت کی روٹی مل جائے، رہنے کو چھوٹا سا گھر اور پہننے کیلئے چند کپڑے مل جائیں تو بہت ہیں۔ زیادہ اُونچی اُڑان بھریں گے تو دھڑام سے زمین پر گر جائیں گے۔ اس لئے میری بچی تو اپنے لئے اور اپنی ماں کی خاطر پھر سے واپس جانے کیلئے انکار کردینا۔نئی دنیا کے سہانے خواب دیکھنا چھوڑ دے میری بچی‘‘۔
ڈاکٹر کلثوم اور مہرن کے دلائل اپنی اپنی جگہ صحیح تھے آخر یہ طے ہوا کہ فیصلہ کوئیل پر چھوڑا جائے، جو بدستور خاموش تھی۔
آخر ایک دن سب نے کوئیل کو بلا کے پوچھا کہ بھلا اُس کا کیا ارادہ ہے؟ سب کو یقین تھا کہ کوئیل ماں کا ساتھ دے گی۔
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد کوئیل نے اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ اُس نے کہا کہ وہ ابھی کچھ سال کے لئے واپس انگلستان جائے گی۔
 
���
اولڈ ایئر پورٹ روڑ، راولپورہ سرینگر،موبائل نمبر؛9419011881
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

کولگام میں امرناتھ یاترا قافلے کی تین گاڑیاں متصادم: 10 سے زائد یاتری زخمی
تازہ ترین
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 7 ہزار 49 یاتریوں کا بارہواں قافلہ روانہ
تازہ ترین
13 جولائی: پائین شہر کے نوہٹہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں پابندیاں عائد، لیڈران گھروں میں نظر بند
عمر عبداللہ کا الزام: شہداء کی قبروں پر جانے سے روک کر حکومت نے جمہوریت کا گلا گھونٹا
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ماسٹر جی کہانی

July 12, 2025
ادب نامافسانے

ضد کا سفر کہانی

July 12, 2025

وہ میں ہی ہوں…! افسانہ

July 12, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?