ریاست کی سڑکوں پر حادثات ایک معمول بن چکاہے جس کے نتیجہ میں سالانہ ایک ہزار کے قریب افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں ۔اگر چہ ان حادثات پر قابو پانے کیلئے کئی مرتبہ کوششیں ہوئیں اور سفارشات پیش کرنے کیلئے کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئیں تاہم بدقسمتی سے روزانہ ہی ایسی دلدوز خبریں سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیںجن میں قیمتی جانوں کےاتلاف کا ذکر ہو تاہے اور کئی لوگوں کے زخمی ہوکر زندگی بھر کیلئے دوسروں کے محتاج بننے کی دلدوذ تفصیلات ہوتی ہیں ۔ریاست میں ہر سال اوسطاًپانچ ہزار سڑک حادثات رونماہوتے ہیں جن میں ایک ہزار کے قریب لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں جبکہ پانچ ہزار سے چھ ہزار افراد زخمی ہوجاتے ہیں جن میں سے اچھی خاصی تعداد معذور ی کی زندگی بسر کرنے پر مجبورہو جاتی ہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2015سے جون 2018تک چار برسوں میں 19ہزار 844سڑک حادثات رونما ہوئے جن میں3ہزار347افراد لقمۂ اجل بنے جبکہ 21ہزار104لوگ زخمی ہوئے ۔ان حادثات کے نتیجہ میں آج تک کئی گھرانے اجڑ چکے ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک دلدوز واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔بلاشبہ سڑک حادثات کیلئے کچھ حد تک خراب سڑک روابط بھی ذمہ دار ہیں لیکن اس سے زیادہ ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے جوتیزرفتار ڈرائیونگ ،ایک دوسرے پر سبقت لیجانے، ائورلوڈنگ ، اور ڈرائیونگ کے دوران موبائیل فون کے استعمالجیسے بنیادی مسائل پر قابو نہیں پاسکے ہیں ۔اس حوالے سے ٹریفک پولیس اور دیگر حکام کی طرف سے بیداری پروگراموں کی تشہیر توکی جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر ہزاروں چالان کرنے کادعویٰ کیاجاتاہے لیکن زمینی سطح پر کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا اور ٹریفک کا نظام دن بدن خراب سے خراب تر ہوتاجارہاہے ۔اگر حادثات کی وجوہات کا پتہ لگایاجائے تو یہ معلوم ہوجاتاہے کہ کس قدر ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور ٹریفک و پولیس عملہ خاموشی سے تماشائی کا کردار ادار کررہاہے ۔ بلکہ خلاف ورزیوں کا یہ سلسلہ کئی لوگوں کیلئے آمدنی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔چند روز قبل پونچھ ضلع کی مینڈھر تحصیل سے سرنکوٹ جارہی ایک ٹاٹا سومو حادثے کاشکار ہوئی جس کے باعث چار افراد لقمۂ اجل بن گئے جبکہ سات دیگرشدید زخمی ہوئے ۔اس حادثے کے زخمیوں کی بات سنی جائے تو ا ن کاکہناہے کہ سومو ڈرائیور پہلے تو شام کے وقت مینڈھر سے سرنکوٹ جانے کیلئے تیار ہی نہ تھا اور جب اس کیلئے اسے راضی کیاگیاتو اس نے کہاکہ اسے ساٹھ روپے نہیں بلکہ فی سواری ایک سو روپے کرایہ دیاجائے ،چونکہ لوگ مجبور تھے اس لئے انہوں نے یہ بات مان لی اورڈرائیور نے پھر نو کے بجائے تیرہ سواریاں گاڑی میں بٹھا دیںجن میں سے ایک لڑکے کو اس نے اپنے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا اور جگہ کم ہونے کی وجہ سے گاڑی کا گیئر بھی اسی کو تھمادیا جبکہ اپنے ہاتھوں میں سٹیئرنگ رکھی ہوئی تھی۔زخمیوں کے مطابق ڈرائیور کو یہ سمجھایابھی گیاکہ وہ خود گاڑی کا کنٹرول سنبھالے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اور نتیجہ کے طور پر گیئربدلنے میں غلطی سرزد ہونے سے یہ حادثہ رونماہوا اور چار افراد کی جانیں چلی گئیں ۔ریاست خاص کر صوبہ جموں کے پہاڑی علاقوں میں ڈرائیوروں کی من مانیاں عام سی بات ہے اور وہ جہاں اضافی سواریاں بھردیتے ہیں وہیں ٹیپ ریکارڈر اور دیگر ان چیزوں کابھی خوب استعمال کرتے ہیں جو قانوناًجرم ہے ۔ان علاقوں میں ڈرائیوروں کی حکام کی طرف سے باز پرس نہیں ہوتی اور نہ ہی انہیں قوانین پر عمل درآمد کا پابند بنایاجاتاہے ۔حکام کی خاموشی اور ڈرائیوروں کی من مانی کے باعث کئی گھر برباد ہورہے ہیں جو تشویشناک بات ہے ۔ مینڈھر حادثہ حکام کیلئے چشم کشا ہے جس پر خاموشی اختیار نہیں کی جانی چاہئے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیاجائے اور چالان کا دعویٰ کرنے کے بجائے سنجیدگی سے ان اسباب کا جواب تلاش کیاجائے جو ان حادثات کا مؤجب بنتے ہیں ۔