گزشتہ دِنوں وزیراعظم ہند نریندرمودی نے لکھنئو میں ایک منعقدہ تقریب کے دوران فخریہ طورپر کہاہے کہ سرمایہ دار صنعت کاروں کی صف میں کھڑا ہونے پر اُنہیں شرمندگی نہیں ہے کیونکہ سرمایہ دار صنعت کار بھی ملک کی ترقی میںبرابر کے حصہ دا رہیں، لیکن حکمرانوں کے صنعت کار سرمایہ داروں کی صف میں کھڑے ہونے کا اورفخریہ بھاگیدار بننے کا واضح مطلب ہے کہ اجارہ دار سرمایہ صنعت کاروں کی دولت میں بے پناہ اضافہ اور محنت کش لوگوں کی غربت میں لاانتہا بڑھوتری۔ حکمرانوں کا اجارہ داروں اور سرمایہ داروں کا بھاگیدار بننے کا ہی نتیجہ ہے کہ دُنیاکی آدھی سے زیادہ دولت کے مالک صرف80 لوگ ہیں۔ یہ بھاگیداری مودی تک ہی محدودنہیں۔ اُس سے پیشتر حکمران بھی لٹیرے سرمایہ دار طبقہ کے ہی ہم صف اور بھاگیدار رہے ہیں۔اِسی بھاگیداری کا نتیجہ ہے کہ امیر زیادہ امیر ہورہے ہیں اورغریب زیادہ غریب ۔
اے کہ تجھ کو کھاگیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخِ آہو پر آرہی صدیوں تلک تیری برات
وست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکوٰۃ
(اقبال)
بھارت میں کروڑپتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اسی کے ساتھ غریب اور امیر کے فرق میںبھی اضافہ ہورہاہے۔ ایک طبقہ دانے دانے کو محتاج ہے اور دوسرا طبقہ امیرسے امیر تر ہوتا جارہاہے۔ حالانکہ یہ حالت صرف بھارت میں نہیں بلکہ پوری دنیامیں ہے اور یہ سرمایہ دارانہ نظام کا فطری نتیجہ ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں غربت کے خاتمے کے خلاف سرگرم آکسفام نامی تنظیم نے اپنی ایک تحقیقی رپور ٹ میں انکشاف کیاہے کہ دنیا کے اسی امیر ترین افراد، دنیاکی آدھی سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔رپورٹ میںکہاگیاہے کہ یہ 80 افراد دنیا کے کھرب پتیوں کا وہ ایک فیصد حصہ کہلاتے ہیں جن کے اثاثوں کی مالیت کھربوں ڈالر ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان امیر افراد کے پاس موجوددولت میںاگلے سال چھ سوارب ڈالرز کا اضافہ ہوجائے گاجس کے بعد یہ امیرترین افراد دنیا کی آدھی دولت سے بھی زیادہ کے مالک ہوجائیں گے۔ آکسفام کی رپورٹ میں تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ دنیابھر میںدولت کی غیر مساوی تقسیم بڑھ رہی ہے جس سے غریب غریب تر اورامیر امیر تر ہورہاہے۔ اگریہ تقسیم اسی طرح جاری رہی تو سال 2020 تک دنیا کے صرف ایک فیصدی امیر ترین افراد دنیا کی بیشتر دولت کے مالک ہوجائیںگے۔ ایک غیرملکی خبر رساں ادارے ہفنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق آکسفام کا کہناہے کہ دنیابھر کے امیرترین 80 افرادمیںسے 35 افراد امریکی شہریت رکھتے ہیں۔ سال دو ہزار چودہ میں ان کی کل دولت کاتخمینہ نوسو اکتالیس بلین امریکی ڈالرز تھا۔ اس فہرست میں دوسرا نمبر جرمنی اور روس سے تعلق رکھنے والے سات امیر ترین افراد کاہے۔
دولت کی غیر مساوی تقسیم:۔
دنیا بھرمیں جائیداد صرف چند ہاتھوں تک کس طرح محدود ہوتی جارہی ہے، اس کااندازہ اس رپورٹ سے بخوبی ہوجاتاہے کہ جس میںکہاگیا ہے کہ دنیا کی تمام دولت کے بقیہ آدھے حصے پر سات سو کروڑ سے زیادہ آبادی اپنی گزر بسر کررہی ہے۔ ورکنگ فار دی فیو نامی یہ رپورٹ مشہور بین الاقوامی تنظیم OXFAM نے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلتاہے کہ جائیداد کے معاملے میں عدم مساوات کی لعنت ترقی پذیر اور ترقی یافتہ دونوں ہی طرح کے ملکوں میںتیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آکسفام نے دعویٰ کیا ہے کہ سرمایہ داروں نے سیاسی طاقتوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے معیشت کے کھیل کے ضابطوں کو اپنے حق میںکرلیاہے اور جمہوریت کو در کنار کرتے ہوئے ایک ایسی دنیا بنادی ہے کہ جہاںصرف اسی لوگوں کے پاس دنیا کی پوری آبادی کی آدھی دولت سمٹ گئی ہے۔ آکسفام نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انیس سو سترکی دہائی کے بعد سے لے کر اب تک امیروں کی آبادی والے تیس میں سے انتیس ملکوں میں امیروں پر عائد ہونے والے ٹیکس کی شرحوںمیں گراوٹ د یکھی گئی ہے اور اس کاصاف مطلب یہ ہوا کہ امیر لوگ نہ صرف زیادہ کمار رہے ہیںبلکہ اس کمائی پر وہ ٹیکس بھی کم ہی دے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے پچیس سالوں کے دوران جائیداد کی مرکزیت اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ دنیا کے صرف ایک فیصدی خاندان کے پاس ہی دنیا کی تقریباً آدھی یعنی چھیالیس فیصدی جائیداد جمع ہوگئی ہے۔ آکسفام نے کہاہے کہ اس رحجان کو بدلنے کے لئے دنیابھرمیں حکومتوں کو فوراً اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں دائو س میں ہوئی ورلڈ اکنامک فورم کی میٹنگ میںشامل ہونے والے دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات اور دیگر شعبوں کی اہم شخصیات کے لئے آکسفام نے ایک چھ نکاتی اپیل بھی تیار کی تھی۔
کالادھن قارونوں کے پاس :
آکسفام کی ایگزیکٹو ز ڈائریکٹر ونی انما کے مطابق یہ انتہائی حیران کن ہے کہ دنیا کی آدھی دولت صرف اتنے ہی لوگوںکے پاس ہے جو کہ ٹرین کے صرف ایک کوچ میںآرام سے آسکتے ہیں۔ آکسفام کے مطابق دنیا کے امیروں نے بڑی تعدادمیں اپنا سرمایہ ٹیکس حکام کی نگاہ سے بچا کر رکھاہواہے۔ رپورٹ میںلگائے گئے اندازے کے مطابق تقریباً اکیس لاکھ کروڑ ڈالر کی رقم ایسی ہے جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور جس کا بڑ احصہ ٹیکس ہیونس کے نام سے مشہور ملکوں کے بنکوںمیں جمع کیا جاتاہے ،جہاں اس طرح کی جائیداد پر انہیںکوئی ٹیکس نہیں دیناپڑتاہے۔ ہندوستان کے بارے میں ا س رپورٹ میںکہاگیاہے کہ یہاں ارب پتیوں کی تعداد گزشتہ ایک دہائی میںدس گنا ہوگئی ہے اور امیر لوگ مخصوص ٹیکس ڈھانچہ اور سرکاری روابطہ کا استعمال کرکے مزید امیر ہورہے ہیں جب کہ غریبوں پرکیا جانے والا خرچ بہت معمولی ہے۔
امیروں کی دولت میںاضافہ ، غریبوں کی غربت میںاضافہ:۔
امریکن نیشنل بزنس میگزین ’’فوربس‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2013میں 2426ارب پتی دنیا میںموجود تھے جن کاکل اثاثہ تقریباً 5.4ٹریلین ((5400ارب ) امریکی ڈالرہے۔ جن میں سے صرف ریاستہائے متحدہ امریکہ میں 1342ارب پتی ہیں۔ ان میں سے سرفہرست سو میں سے تین ہندوستانی بھی ہیں۔ اس فہرست میں غریب ترین شخص بھی کم ا ز کم پانچ ارب ڈالر کا مالک ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق دوہزار میں پوری دنیا کی تمام دولت کا چالیس فیصدی حصہ صرف ایک فیصدی امیر ترین لوگوں کے قبضے میںتھا اور دنیا کے د س فیصدی امیر لوگ دنیا کی پچاسی فیصدی دولت پرقابض تھے۔ اس کاسبب یہ بتایاگیاہے کہ سرکاری نظام امیروں کی بے جا حمایت کرتاہے۔ آج ہم پورے یقین اور دکھ کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یہ حالات اب تیزی سے امیروں کو مزید امیر بنارہے ہیں۔ دوہزار ایک کے ایک جائزے میں امریکہ کے بارے میں کہاگیا ہے کہ امریکہ میں ایک فیصدی امیر ترین لوگوں کے پاس 38%دولت ہے اور دس فیصدی لوگوں کے پاس 71% دولت ہے جب کہ چالیس فیصدی غریب مل کر صرف اور صرف ایک فیصدی دولت کے مالک ہیں ۔ غریب ملکوں کا حال اس سے بھی کہیں بد ترہے۔ آسان الفاظ میں اسے یوں بیان کیا جاسکتاہے کہ ایک دعوت میں سومہمان ہیں اور سو روٹیاں ہیں۔ ایک امیر مہمان کو 38روٹیاں کھانے کو ملیں، جب کہ چالیس غریب مہمانوں کو مل کر صرف ایک روٹی میں ٹکڑا ٹکڑا کھانا پڑے۔ اب ہم اچھے سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب ترقی یافتہ امریکہ میں عام آدمی کا یہ حال ہے تودیگر ممالک میں ان کا کیا حال ہوگا؟ اللہ خیر کرے!
دنیا کے سب سے امیر افراد:۔
میکسکو کی میڈیا کے بے تاج بادشاہ ، کارلوس سلم دنیا کے امیرترین فرد ہیں جن کے پاس 74بلین ڈالر کی ملکیت ہے۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے ایک فلاحی ادارے کو اٹھائیس بلین ڈالر دے دئیے ہیں اور اب وہ 53بلین ڈالر کے مالک ہیں اور اس طرح دوسرے امیرترین شخص ہیں۔ تاہم روسی سماجی میڈیا کے ارب پتی پوری ملز اپنے ملک کے سب سے آگے ہیں۔ ان کے آبائی شہر ماسکومیں 79ارب پتی بستے ہیں۔ ایک ہی شہرمیں اتنے امیرترین لوگوں کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے لیکن اب بھی کسی ملک میں سب سے زیادہ ارب پتی اشخاص امریکہ میںرہتے ہیں ۔ تاہم دولت کافرق گھٹتا جارہاہے۔ چین میںنئے ارب پتیوں کی تعداد دوگنی ہوگئی ہے۔ روبن لی’’ سرچ انجن ‘‘ بیدوکے سربراہ ہیں۔ وہ چین کے امیرترین لوگوں میںسے ایک ہیں جن کی دولت کی مالیت نو بلین ڈالر ہے۔
ارب پتیوں کی فہرست رکھنے والے ملکوں میں ہندوستان بھی شامل ہے۔ اس کی کل آبادی دوہزار گیارہ میں مردم شماری کے مطابق تقریباً 121 کروڑہے۔ فوربس میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق دوہزار بارہ میں ہندوستان کے اندر اکسٹھ ارب پتی تھے۔ (یعنی جن کا اثاثہ ایک ارب امریکن ڈالر سے زیادہ کا ہو) فوربس ہر سال یہ رپورٹ شائع کرتی ہے ۔ریلائنس انڈسٹریز کے مالک مکیش امبانی بھارت کے سب سے امیر شخص ہیں اور نئی سرکار میں ان کے اثاثو میںزیادہ تیزی سے اضافے کی امید کی جارہی ہے۔ چین کی ایک ریسریچ فرم ’’ہورون‘‘ کے مطابق دوہزار تیرہ میں ارب پتیوں کے لحاظ سے ہندوستان دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے۔ ریلائنس کے چئیرمین مکیش امبانی لگاتار آٹھویں مرتبہ سب سے مال دار ہندوستانی کی حیثیت سے پھر سامنے آئے ہیں جن کا اثاثہ تقریبا اٹھارہ بلین امریکی ڈالر کا تھا، حالانکہ ادھر دو سالوں میں ا س میںاضافہ ہی ہوا ہوگا۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دلیپ سنگھوی مکیش امبانی سے بھی دولت میں بڑھ گئے ہیںاور دوہزار پندرہ میں وہ سب سے مال دار ہندوستانی بن گئے ہیں۔یہ رپورٹ آگے کہتی ہے کہ پچھلے سال انڈین روپیہ ڈالر کے مقابلہ میں بارہ فیصدی کمزور ہواہے اور اس کا ہندوستانی معیشت پر بہت برا اثر بھی پڑاہے، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود ہندوستان میں ارب پتیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جہاں یہ تعداد دوہزار بارہ میں اکسٹھ تھی، صرف سال بھر کے اندر ستر ہوگئی۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ بھارت میںجرمنی ، سوئزر لینڈ ، فرانس اور جاپان کے مقابلے میں زیادہ ارب پتی ہیں اور ان ارب پتی ہندوستانیوں کے اثاثے کی کل قیمت اب 320بلین امریکی ڈالر سے بھی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ فوربس میگزین کے چیئرمین اسٹیو فوربس کہتے ہیں کہ اس سال جن دوسو نئے ارب پتیوں کا اضافہ ہواہے ،ان کاتعلق برازیل، روس،بھارت اور چین سے ہے۔
دولت مند انڈیا، غریب ہندوستانی:۔
بھارت میں جہاںایک طرف ارب پتیوں کی دولت میںاضافہ ہواہے وہیں غریبوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا مزید مشکل ہوگیاہے۔ یہ بات ہم نہیں بلکہ خود بھارت سرکار کے ادارے پلاننگ کمیشن کے تابع ایک خود مختار ادارے انسٹی چیوٹ آف اپلائڈ مین پاور ریسریچ (IAMR)نے ایک رپورٹ میں کہی ہے کہ جو دوہزارہ گیارہ میں تیار کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دکھائی دینے والی معاشی چمک دمک اور اقتصادی ترقی اس ملک کے صرف چند لوگوں کے لئے ہے ۔ ورنہ عام لوگ دردو کرب اور مشقت بھری زندگی گزارنے پرہی مجبور ہیں۔ آج ہندوستان میں سب سے اوپر کے صرف پانچ فیصدی گھر انے ملک کے لگ بھگ اڑتیس فیصدی اثاثے کے مالک بنے بیٹھے ہیں، جب کہ نچلے طبقے کے ساٹھ فیصدی عوام بمشکل ملک کے صرف تیرہ فیصدی اثاثے پر گزر بسر کررہے ہیں اور دیہی علاقوں میں یہ تصویر مزید بھیانک ہوجاتی ہے۔ یہاں ساٹھ فیصدی لوگوں کو محض دس فیصدی اثاثے پر گزارا کرناپڑتاہے۔ یہاں کھیتی باڑی پر گزارا کرنے والوں اور مزدوری کرنے والوں کے پاس تو زندگی گزارنے کے بنیادی ذرائع بھی نہیں اور اکثرانہیں فاقہ کشی کی نوبت آتی رہتی ہے۔ یو نیورسٹی آف ساسکس کی رپورٹ کے مطاب دنیا کے کل غریبوں کی آدمی تعداد صرف دوملکوں میںآباد ہے اور یہ دو ممالک ہیں: چین اور بھارت۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں غریبوں کی تعداد 45کروڑ سے زیادہ ہے۔ وہ زیادہ تر دیہی علاقوںمیں رہتے ہیں۔ انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں اور ان کی روزانہ آمدنی دو ڈالر سے بھی کم ہے۔ ماہر اقتصادیات الکا ئریکا کا کہناہے کہ دنیاکے تقریباً ایک چوتھائی غریب براعظم افریقہ میں رہتے ہیں۔ ان کہنا ہے کہ جب ہم افریقہ کے چھبیس غریب ترین ملکوں سے بھارت کا موازانہ کرتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیںکہ اس ملک میں بھی لوگ اتنے ہی زیادہ غریب اورمحرومی کا شکار ہیںجتنا کہ افریقہ کے، بلکہ بھارت میںغربت کی شدت افریقی ممالک سے کہیں زیادہ ہے اور یہ پہلو بہت چونکادینے والا ہے۔ اندریں حالات بخوبی سمجھا جاسکتاہے کہ امیر سرمایہ دار صنعت کاروں سے نریندرمودی کی بھاگیداری کا کیا مطلب ہے؟۔