فر مایا ’’جناب !تنخواہ کی فکرنہ کیجئے۔پڑھالکھاآدمی ہوں۔کم تنخواہ میں بھی خوش رہوں گا‘‘۔
’’پھربھی؟‘‘
کہنے لگے’’پچھترروپے ماہوارہوگی۔لیکن اگرسودابھی مجھی کولاناپڑاتوچالیس روپے ہوگی‘‘!
ان کے بعدایک ڈھنگ کاخانساماں آیامگربے حددماغ دارمعلوم ہوتاتھا۔ہم نے اس کاپانی اُتارنے کی غرض سے پوچھا’’مغلئی اورانگریزی کھانے آتے ہیں؟‘‘
’’ہرقسم کاکھاناپکاسکتاہوں۔حضورکاکس علاقے سے تعلق تھا؟‘‘
ہم نے صحیح صحیح بتادیا۔جھوم ہی توگئے،کہنے لگے’’میں بھی ایک سال ادھرکاٹ چکاہوں۔وہاں کے باجرے کی کھچڑی کی تودوردوردھوم ہے‘‘۔
مزیدجرح کی ہم میں تاب نہ تھی۔لہٰذاانھوں نے اپنے آپ کوہمارے ہاں ملازم رکھ لیا۔دوسرے دن پڈنگ بناتے ہوئے انھوں نے یہ انکشاف کیاکہ میں نے بارہ سال انگریزوںکی جوتیاں سیدھی کی ہیں،اس لیے بیٹھ کرچولہانہیں جھونکوں گا۔مجبوراًکھڑے ہوکرپکانے کاچولہابنوایا۔ان کے بعدجوخانساماں آیا،اس نے کہاکہ میں چپاتیاں بیٹھ کرپکاوں گامگربرادے کی انگیٹھی پر۔چنانچہ لوہے کی انگیٹھی بنوائی۔تیسرے کے لیے چکنی مٹی کاچولھابنواناپڑا۔چوتھے کے مطالبے پرمٹی کے تیل سے جلنے والاچولہاخریدا۔اورپانچواںخانساماں اتنے سارے چولہے دیکھ کرہی بھاگ گیا۔
اس ظالم کانام یادنہیں آرہا۔البتہ صورت اورخدوخال اب تک یادہیں۔ابتدائے ملازمت سے ہم دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ کاپکاہواکھانانہیں کھاتا،بلکہ پابندی سے ملہاری ہوٹل میں اکڑوں بیٹھ کردوپیسے کی چٹ پٹی دال اورایک آنے کی تنوری روٹی کھاتاہے۔آخرایک دن ہم سے نہ رہاگیااورہم نے ذراسختی سے ٹوکاکہ ’’گھرکاکھاناکیوں نہیں کھاتے‘‘؟
تنک کربولا’’صاحب!ہاتھ بیچاہے،زبان نہیں بیچی!‘‘
ان نے نہایت مختصرمگرغیرمبہم الفاظ میں یہ واضح کردیاکراگراسے اپنے ہاتھ کاپکاکھاناکھانے پرمجبورکیاگیاتووہ فوراًاستفعیٰ دے دے گا۔اس کے رویے سے ہمیں بھی شبہ ہونے لگاکہ وہ واقعی خراب کھاناپکاتاہے۔نیزہم اس منطقی نتیجے پرپہنچے کہ دوزخ میں گناہ گار رعورتوں کوان کے اپنے پکائے ہوئے سالن زبردستی کھلائے جائیں گے۔اسی طرح ریڈیووالوں کوفرشتے آتشین گرزمارماران ہی کے نشرکیے ہوئے پروگراموں کے ریکارڈسنائیں گے۔ہم کھانے کے شوقین ہیں ،خوشامدکے بھوکے نہیں(گوکہ اس سے انکارنہیں کہ اپنی تعریف سن کرہم کواپنابنیان تنگ معلوم ہونے لگتاہے)۔ہم نے کبھی یہ توقع نہیں کی کہ باورچی کھاناپکانے کے بجائے ہمارے گن گاتاہےلیکن اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے مرحوم اورسابق آقاؤں کاکلمہ پڑھتارہے۔جب کہ اس توصیف کااصل مقصدہمیںجلانااورخوبیوںکی طرف توجہ دلاناہوتاہے جوہم میں نہیںہیں۔اکثراوقات بے تحاشاجی چاہتاہے کہ کاش ہم بھی مرحوم ہوتے تاکہ ہماراذکربھی اتنے ہی پیارسے ہوتا۔بعض نہایت قابل خانساماوں کومحض اس دوراندیشی کی بناپرعلیٰحدہ کرناپڑاکہ آئندہ وہ کسی اورکانمک کھاکرہمارے حق میں پروپیگنڈہ کرتے رہیں۔جوشخص بھی آتاہے یہی دعویٰ کرتاہے کہ اس کے سابق آقانے اسے سیاہ وسفیدکامالک بنارکھاتھا(یہاں یہ بتانابے محل نہ ہوگاکہ اصولی طورپرہم خود بھی ہمیشہ دوسروں پربھروسہ کرتے ہیںلیکن ریزگاری ضرورگن لیتے ہیں)۔ایک خانساماں نے ہمیں مطلع کیاکہ اس کاپچھلا’’صاب ‘‘اس قدرشریف آدمی تھاکہ ٹھیک سے گالی تک نہیں دے سکتاتھا۔ہم نے جل کرکہا’’پھرتم نے نوکری کیوں چھوڑی‘‘؟
تڑپ کربولے’’کون کہتاہے کہ خدابخش نے نوکری چھوڑی ؟قصہ دراصل یہ ہے کہ میری پانچ مہینے کی تنخواہ چڑھ گئی تھی اوراب آپ سے کیاپردہ؟سچ تویہ کہ ان کے گھرکاخرچ بھی میں ردی اخباراوربیئر کی خالی بوتلیں بیچ کرچلارہاتھا۔انھوں نے کبھی حساب نہیں مانگا۔پھرانھوں نے ایک دن میری صورت دیکھ کرکہاکہ خدابخش!تم بہت تھک گئے ہو۔دودن کی چھٹی کرواوراپنے صحت بناو‘‘۔دودن بعدجب میں صحت بناکرلوٹاتوگھرخالی پایا۔پڑوسیوں نے بتایاکہ تمہاراصاب توپرسوں ہی ساراسامان باندھ کرکہیں اورچلاگیا۔’’یہ قصہ سنانے کے بعداس نمک حلال نے ہم سے پیشگی تنخواہ مانگی تاکہ اپنے سابق آقاکے مکان کاکرایہ اداکرسکے۔
گزشتہ سال ہمارے حال پررحم کھاکرایک کرم فرمانے ایک تجربہ کارخانساماں بھیجا۔جوہرعلاقے کے کھانے پکاناجانتاتھا۔ہم نے کہا’’بھئی اورتوسب ٹھیک ہے مگرتم سات مہینے میں دس ملازمتیں چھوڑچکے ہو۔یہ کیابات ہے؟‘‘
کہنے لگے’’صاب!آج کل وفادارمالک کہاں ملتاہے‘‘؟اس ستم ایجادکی بدولت برصغیرکے ہرخطے بلکہ ہر تحصیل کے کھانے کی خوبیاںاس ہیچمداں پنبہ وہاں کے دسترخوان پرسمٹ کرآگئیں۔مثلاً دوپہرکے کھانے پردیکھاکہ شوربے میں مسلم کیری ہچکولے لے رہی ہے اورسالن اس قدرترش ہے کہ آنکھیں بندہوجائیں اوراگربندہوں توپٹ سے کھل جائیں۔پوچھاتوانھوں نے آگاہی بخشی کہ دکن میں روساکھٹاسالن کھاتے ہیںاورہم یہ سوچتے ہی رہ گئے کہ اللہ جانے بقیہ لوگ کیاکھاتے ہوں گے۔اسی دن شام کو ہم نے گھبراکرپوچھاکہ دال میں پرانے جوتوں کی بوکیوں آرہی ہے؟
جواب میں انھوں نے ایک دھوا ں دھارتقریرکی جس کالب لباب یہ تھاکہ مارداڑی سیٹھوں کے پھلنے پھولنے اورپھیلنے کارازہینگ میں مضمرہے۔اوردوسرے دن جب ہم نے دریافت کیاکہ بندہ خدایہ چپاتی ہے یادسترخوان؟توہنس کربولے کہ وطن مالوف میں روٹی کے حدوداربعہ یہی ہوتے ہیں۔
آخرکئی فاقوں کے بعدایک دن ہم نے بہ نظرحوصلہ افزائی کہا:’’آج تم نے چاولوں کااچاربہت اچھابنایاہے۔‘‘
دہکتے ہوئے توے سے بیڑی سلگاتے ہوئے بولے’’بندہ پروری ہے!کاٹھیاواڑی پلاومیں قورمے کے مسالے پڑتے ہیں‘‘!
’’خوب !مگریہ قورمے کامزہ تونہیں!‘‘
’’وہاں قورمے میں اچارکامسالہ ڈالتے ہیں!‘‘
پھرایک دن شام کے کھانے پرمرزانے ناک سکیڑکرکہا’’میاں!کیاکھیرمیں کھٹملوں کابگھاردیاہے‘‘؟
سفیددیوارپرکوئلے سے سودے کاحساب لکھتے ہوئے حقارت سے بولے ’’آپ کومعلوم نہیں؟شاہان اودھ لگی ہوئی فیرنی کھاتے تھے‘‘؟
’’مگرتم نے دیکھاکیاانجام ہوا اودھ کا؟‘‘مختصریہ کہ ڈیڑھ مہینے تک وہ صبح وشام ہمارے ناپختہ ذوق وذائقہ کوسنوارتااورمشروبات وماکولات سے وسیع المشربی کادرس دیتارہا۔آخرمیں مرزاکوشبہ ہوچلاتھاکہ وہ غیرملکی ایجنٹ ہے جوسالن کے ذریعے صوبائی غلط فہمیاں پھیلارہاہے۔۔۔اگرآپ کوکوئی کھانابے مرغوب ہے جوچھڑائے نہیں چھوٹتاتوتازہ داردان بساط مطبخ اس مشکل کوفوراًآسان کردیں گے۔اشیائے خوردنی اورانسان معدے کے ساتھ بھرپورتجربے کرنے کی جوآزادی باورچیوں کو حاصل ہے وہ نت نئی کیمیاوی ایجادات کی ضامن ہے۔مثال کے طورپرہمیں بھنڈی بہت پسندہے لیکن دس گھنٹے قبل یہ منکشف ہواکہ اس نباتِ تازہ کوایک خاص درجہ حرارت پرپانی کی مقررہ مقدارمیں(جس کاعلم صرف ہمارے خانساماں کوہے)میٹھی آنچ پرپکایاجائے تواس مرکب سے دفتروں میں لفافے اوربدلگام افسروں کے منہ ہمیشہ کے لیے بندکیے جاسکتے ہیں۔انہی حضرت نے گزشتہ جمعرات کوساراگھرسرپراٹھارکھاتھا۔ہم نے بچی کوبھیجاکہ اس سے کہوکہ مہمان بیٹھے ہیں۔اس وقت سل کھوٹنے کی ضرورت نہیں۔اس نے کہلابھیجاکہ ہم ان ہی مہمانوں کی تواضع کے لیے سل پرکبابوں کاقیمہ پیس رہے ہیں۔تھوڑی دیربعدہم نے کباب منہ میں رکھاتومحسوس ہواگویاچٹ پٹاریگ مال کھارہے ہیں اورہمیں رہ رہ کرمیرصاحب پررشک آنے لگاکہ وہ مصنوعی بتیسی لگائے بے خبربیٹھے کھارہے تھے اورہماری طرح کرکرامحسوس کرکے لال پیلے نہیں ہوئے۔صبح تک سب کوپیچش ہوگئی۔صرف ہمیں نہیں ہوئی اورہمیں اس لیے نہیں ہوئی ہم پہلے ہی اس میں مبتلاتھے۔یہ بات نہیں کہ خدانخواستہ ہم بیماری اورموت سے ڈرتے ہیں۔ہم توپرانی چال کے آدمی ہیں۔اس لیے نئی زندگی سے زیادہ خوف کھاتے ہیں۔موت برحق ہے اورایک نہ ایک دن ضرورآئے گی۔بات صرف اتنی ہے کہ بلانے کے لیے ہم اپنی نیک کمائی میں سے پچاس ساٹھ روپے ماہوارخرچ نہیں کرناچاہتے۔ہمیں کسی مرض ناشناس حکیم کے ہاتھوں مرنے پربھی چنداں اعتراض نہ ہوگالیکن ہم کسی صورت خانساماں کوبالاقساط روح قبض کرنے کااختیارنہیں دینے چاہتے کہ یہ صرف حکیم ڈاکٹروں کاحق ہے۔
بیماری کاذکرچل نکلاتواس قوی ہیکل خانساماں کاقصہ بھی سن لیجئے جس کوہم سب آغاکہاکرتے تھے(آغااس لیے کہاکرتے تھے کہ وہ سچ مچ آغاتھے)۔ان کاخیال آتے ہی معدے میں مہتابیاں سی جل اٹھتی ہیں۔تادم ِوداع ان کے کھاناپکانے،اورکھلانے کااندازوہی رہاجوملازمت سے پہلے ہینگ بیچنے کاہوتاتھایعنی ڈرادھمکاکراس کی خوبیاں منوالیتے تھے۔بالعموم صبح ناشتے کے بعدسوکراٹھتے تھے۔کچھ دن ہم نے صبج تڑکے جگانے کی کوشش کی لیکن جب انھوں نے نیندکی آڑمیں ہاتھاپائی کرنے کی کوشش کی توہم نے بھی ان کی اصلاح کاخیال ترک کردیا۔اس سے قطع نظر،وہ کافی تابعدارتھے۔تابعدارسے ہماری مرادیہ ہے کہ کبھی وہ پوچھتے کہ’ ’چائے لاوں؟‘‘اورہم تکلفاًکہتے کہ ’’جی چاہے تولے آؤورنہ نہیں‘‘۔توکبھی واقعی لے آتے اورکبھی نہیں بھی لاتے تھے۔جس دن سے انھوں نے باورچی خانہ سنبھالاگھرمیں حکیم ڈاکٹروں کی ریل پیل ہونے لگی۔یوں بھی ان کاپکایاہواکھانادیکھ کرسر(اپنا)پیٹنے کوجی چاہتاتھا۔’’اپنا‘‘اس لیے کہ حالانکہ ہم سب ہی ان کے کھانوں سے عاجزتھے،لیکن کسی کی سمجھ میں نہیں آتاتھاکہ ان کوکیوں کرپرامن طریقے سے رخصت کیاجائے ۔ ان کونوکررکھناایسے ہی ثابت ہواجیسے کوئی شیرببرپرسوارہوتوجائے لیکن اُترنے کی ہمت نہ رکھتاہو۔ایک دن ہم اسی ادھیڑبن میں لیٹے ہوئے گرم پانی کی بوتل سے پیٹ سینک رہے تھے اوردواپی پی کران کوکوس رہے تھے کہ سر جھکائے آئے اورخلاف معمول ہاتھ جوڑکربولے’’خو!صاب!تم روزروزبیمارادتااے۔اس سے امارہ قبیلہ میں بڑارسوائی،خو،خانہ خراب اوتااے‘‘(صاحب!تم بارباربیمارہوتے ہو۔اس سے ہمارے قبیلے میںہماری رسوائی ہوتی ہے اورہماراخانہ خراب ہوتاہے)اس کے بعدانھوں نے کہاسنامعاف کرایااوربغیرتنخواہ لیے چل دیئے۔ایسی ہی ایک اوردعوت کاذکرہے جس میں چنداحباب اورافسرانِ بالادست مدعوتھے۔نئے خانساماں نے جوقورمہ پکایا،اس میں شوربے کایہ عالم تھاکہ ناک پکڑکے غوطے لگائیںتوشایدکوئی بوٹی ہاتھ آجائے۔اکادکاکہیں نظرآبھی جاتی تو کچھ اس طرح ع
صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں
اوربساغنیمت تھاکیوں کہ مہمان کے منہ میں پہنچنے کے بعد،غالب ؔکے الفاظ میںیہ کیفیت تھی ع
کھینچتاہے جس قدراتنی ہی کھنچتی جائے ہے!
دورانِ ضیافت احباب نے بکمال سنجیدگی مشورہ دیاکہ ’’ریفریجریڑخریدلو۔روزروزکی جھک جھک سے نجات مل جائی گی۔بس ایک دن لذیذکھاناپکوالواورہفتے بھرٹھاٹ سے کھاواورکھلاؤ۔‘‘
قسطوں پرریفریجریٹرخریدنے کے بعدہمیں واقعی بڑافرق محسوس ہوااوروہ فرق یہ ہے کہ پہلے جو بدمزہ کھاناصرف ایک ہی وقت کھاتے تھے،اب اسے ہفتے بھرکھاناپڑتاہے۔ہم نے اس عذابِ مسلسل کی شکایت کی تو وہی احباب تلقین فرمانے لگے :’’جب خرچ کیاہے صبربھی کر،اس میں تو یہی کچھ ہوتاہے‘‘۔کل پھرمرزا سے اپنی گوناگوں مشکلات کاذکرکیاتو کہنے لگے:’’یہ الجھنیں آپ نے اپنے چٹورپن سے خواہ مخواہ پیداکررکھی ہیں۔ورنہ سادہ غذااوراعلیٰ خیالات سے یہ مسئلہ کبھی کاخودبخودحل ہوگیاہوتا۔یہی آئین قدرت ہے اوریہی آزادتہذیب کی اساس بھی!آپ نے مولوی اسماعیل میرٹھیؔ کاوہ پاکیزہ شعرنہیں پڑھا؟
ملے خشک روٹی جوآزادرہ کر
تووہ خوف وذلت کے حلوے سے بہتر
عرض کیا:’’مجھے کسی کے آزادرہنے پر،خواہ شاعرہی کیوں نہ ہو،کوئی اعتراض نہیں لیکن اس شعرپرمجھے عرصہ سے یہ اعتراض ہے کہ اس میں آزادی سے زیادہ خشک روٹی کی تعریف کی گئی ہے ۔ممکن ہے عمدہ غذااعلیٰ تہذیب کوجنم نہ دے سکے،لیکن اعلیٰ تہذیب کبھی خراب غذابرداشت نہیں کرسکتی۔‘‘فرمایا:’’برداشت کی ایک ہی رہی!خراب کھاناکھاکربدمزہ نہ ہونا،یہی شرافت کی دلیل ہے‘‘۔
گزارش کی :’’مردانگی تویہ کہ آدمی عرصہ تک عمدہ غذاکھائے اورشرافت کے جامے سے باہرنہ ہو!‘‘مشتعل ہوگئے۔
’’بجا!لیکن یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی اٹھتے بیٹھتے کھانے کاذکرکرتارہے۔برانہ مانئے گا۔آپ کے بعض مضامین کسی بگڑے ہوئے شاہی رکابدارکی خاندانی بیاض معلوم ہوتے ہیں۔جبھی توکم پڑھی لکھی عورتیں بڑے شوق سے پڑھتی ہیں‘‘۔
ہم نے ٹوکا:’’آپ بھول رہے ہیں کہ فرانس میں کھاناکھانے اورپکانے کاشمارفنون لطیفہ میں ہوتاہے‘‘۔وہ بگڑگئے’’مگرآپ نے اس جنون لطیفہ کادرجہ دے رکھاہے۔اگرآپ واقعی اپنی بے قصورقوم کی اصلاح کے درپے ہیں توکوئی کام کی بات کیجئے اورترقی کی راہیں سجھائیے‘‘۔
مزہ لینے کی خاطرچھیڑا:ا’’یک دفعہ قوم کواچھاپہننے اورکھانے کاچسکالگ توترقی کی راہیں خودبخودسوجھ جائیں گی۔گاندھی جی کاقول ہے کہ جس دیس میں لاکھوں آدمیوں کودووقت کاکھانانصیب نہ ہوتاہو،وہاں بھگوان کی بھی ہمت نہیں ہوتی کہ ان داتاکے سواکسی اورروپ میں سامنے آسکے۔بھوکے کے لیے بھوجن ہی بھگوان کااوتارہے اور٠٠٠٠٠٠
قطع کلامی کی معافی مانگے بغیربولے:مگروہ تو بکری کادودھ اورکھجورکھاتے تھےاورآپ فن غذاشناسی کو فلسفہ خداشناسی سمجھ بیٹھے ہیں۔خودآپ کے محبوب یونانی فلسفی جوبھرپورزندگی کے قائل تھے،دماغ سے محسوس کرتے اوردل سے سوچتے تھےمگرآپ تومعدے سے سوچتے ہیں اوردیکھاجائے توآپ آج بھی وہی مشورہ دے رہے ہیں جوملکہ میری انطونیت نے دیاتھا۔ایک درباری نے جب اس کے گوش گزارکیاکہ روٹی نہ ملنے کے سبب ہزاروں انسان پیرس کی گلیوں میں دم توڑرہے ہیں تواس نے حیرت سے پوچھا:’’یہ احمق کیک کیوں نہیں کھاتے‘‘؟۔
(ختم شد)