عید الاضحی اپنے دامن میں بے پناہ خوشیاں اور شادمانیاں لے کر ایک بار پھر ملّت کی زبوں حالی کے اِ س دور میں اُمیدوں اورامکا نات کی وسیع کائنات لے کر جلوہ گر ہورہی ہے۔ عیدالاضحی کا متبرک موقع اُس عظیم و برگزیدہ پیغمبر خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد دلاتا ہے جنہیں اعلائے کلمۃ اللہ یعنی اللہ کی کبریائی کا سکہ انسانی اذہان وقلوب میں بٹھا نے اور جمانے کے لئے اپنی حیات طیبہ کا ایک ایک پل گزارنا پڑا ، آپ ؑ کے لئے یہ مشکل ترین کام دیگر انبیائے کرام علیہ السلام کی مانند پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کا نٹوں بھری راہ تھی۔ آپ ؑ کو ردوشرک اور دعوت توحید کے بین بین سماجی ظلم و زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے ’’جرم ‘‘ میں دہکتے ہوئے شعلوں میں ڈال دیا گیالیکن اللہ کے اس عظیم پیغمبر کے راسخ ایمان اور اللہ کی محبت اور استقامت ومصابرت نے نہ صرف اس ہولناک آگ کو ٹھنڈا کردیا بلکہ اِن شعلوں کو گل و گلزار بنا کے رکھ دیا جو وقت کے نمرودی نظام نہ بھڑکائی اور دہکائی تھی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ابتلاء و ازمائش اور قربانیوں سے معمور رہی۔ آزر کی بت تراشی، قوم کی اصنام پر ستی اور نمرودی طاقت کی سرکشی کے خلاف آواز بلند کرنا اور اُس کے صلے میں اپنے خانوادے سے علحیدگی ، نار نمرود کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کا تن تنہا مقابلہ کر نا، اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے وقت عزیز کو چھوڑ کر ہجرت کرنا اور آزمائشوں کے دشت وبیا ان کی آبلہ پائی کر تے ہو ئے اپنے لخت جگر راج دلارے اورآنکھوں کے تارے ذبیح اللہ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کی قربانی اسوۂ ابراہیمی ؑ کے وہ عظیم کارنامے اور آپ کی سیرت پاک کے وہ سنگ ہا ئے میل ہیں جو ہر سال عید الاضحی کی اس مقدس تقریب پر بندگان خدا کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ اللہ والوں کی متاع ِ دین دنیا کس چیز کا نام ہے ۔ نیز یہ عید ہمیں اور باتوں کے علاوہ یہ نکتہ بھی سمجھا تی ہے کہ اس دورِ پُرا ٓشوب میںبھی اسوۂ ابراہیمی ؑ پر عمل پیرا ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ جو سخص شعور کی گہرائیوں سے اسو ہ ٔ براہیمی ؑ کی اتباع کر نے کا عزم کر ے اس کے لئے گھر کی دہلیز سے ہی اُن کی آزمائشوں کا دور شروع ہوجاتا ہے جس طرح آپ ؑ کو اپنے والدکے باطل وفاسد مشرکانہ عقائد کو چلینج کرنے کی پاداش میں گھر سے نکال دیا گیا، حتیٰ کہ ایک موقع پراپنی اہلیہ محتر مہ کو بے آب و گیاہ بیابان میں اکیلا چھوڑنا پڑا۔ یہ ایسی قربانی ہے جو جان کی قربانی سے بھی بڑھ کر ہے۔ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ جس پیغمبرانہ مشن اور مقصد کے لئے مبعوث کیے گئے تھے اُس کے لیے انہیں بے انتہا قربا نیاں دینی پڑیں۔
ہر نمرودی دور میں حالات کایہ شدید تقاضا رہا ہے کہ مسلمان اسوۂ ابراہیمی ؑ کو مکمل طور سمجھ کراِس کے پس پشت مقصد یت کو پالیں۔ یہ ایک حققیت ہے کہ دین کو آج اس گئے گزرے زمانے میں بھی ابراہیمی ؑ کردار کی اشدضرورت ہے، اسلام اور مسلمان آج بھی فرعونی طاقتوں کا تختہ ٔ مشق بنے ہو ئے ہیں،آج بھی یمین ویسار اور شرق وغرب میںخدائی کا دعویٰ کرنے والے مسلم امت کا جینا حرام کئے ہو ئے ہیں ۔ اس وقت ان شیطانی قوتوں کا راستہ روکنے کی بڑی ضرورت ہے، آج کے ناگفتہ بہ حالات ملّت اسلامی کے روشن مستقبل کے لیے ا یثارو قربانی کا تقاضا کر رہے ہیں۔حق و صداقت اور توحیدو اقامت دین کی صدا بلند کرنا آج بھی بدستور مسلمانوں کے فرائض ِ حیات میں شامل ہے،باطل و طاغوت کی تمام یلغاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے آج بھی ابراہیم علیہ السلام کے دکھائے ہوئے راستے پر کامل ایمان ہونا اولین ضرورت ہے۔ اسلام کو ہر دور میں اسوۂ حسنہؐ اور اسلوب ابراہیمی ؑکے ہر پہلو کو عملانے کی ضرورت ہے اور اِس بات کا حکم قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ سورہ الحج کی آیت (۷۸)میں یوں دیتا ہے کہ:’’ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑ کی ملت پر‘‘۔
قرآن وحدیث کا مطالعہ بین السطور دکھا تا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی قربانیوں سے عبارت تھی، آپؑ کی زندگی کے ہر پہلو میں ہمارے لیے نصیحت ورہنمائی ہے، آپ کا ہر عمل ملّت کی بقاء اور اللہ کے دین کا کلمہ سربلندکرنے کے لیے تھا۔ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور اُن کے اسوۂ میں ہمارے لیے بحیثیت مجموعی کیا ہے ؟یہ جاننا اور سمجھنا عید الاضحی کا اصل پیغام ہے۔ موجودہ حالات میں اسوۂ ابراہیمی ؑ سے کیسے استفادہ کیا جاسکے گا ؟اس نکتے پر سنجیدہ غور و فکر ہونا چاہیے ۔ جانور قربان کرنے سے اصل مقصود ان اعلی ٰ وارفع مقاصد کا عرفان ہے جن سے غافل ہوکر آج مصائب وابتلاء میں مبتلا ہو کر ملّت اسلامیہ میں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ ہمیں سمجھنا چا ہے کہ عید الاضحی کے اس مبارک موقعے پر کام و دہن کی لذتوں میں کھو جا نے یا بے روح رسمیں نبھانے سے کوئی انقلاب برپا نہ ہوگا، بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کے مختلف گوشوں کا فہم وادراک کر کے ملّت اسلامیہ کو اپنی بگڑی بنا نے کے لئے وہ صالح اورکار کشاقیادت ڈھونڈ نکالنی چا ہیے جو ابراہیمی ؑ کردار کی حامل ہو، جو ملّت کی بقا ء واستحکام کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے نہ صرف اُمت کو تیار کرے بلکہ پہلے خود ابتلاؤ ازمائش کی بھٹی سے گزر کرکندن بننے کو تیار ہو، جو دیگر را نصیحت خود را فصیحت جیسے تضادمیں گرفتار نہ ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے تاقیام قیامت اپنی والہانہ اور غیر مشروط اطاعت و فرمانبرداری کے سبب تمام اقوام و ملت کے لیے مشعل راہ بنالیا۔یہ منصب حضرت ابراہیم ؑ کو گھر بیٹھے حاصل نہیں ہوا بلکہ پیغمبر ہونے کے ناطے اِس مقام رفیع الشان تک پہنچنے کے لیے اُنہیں مختلف ناقابل یقین آزمائشوںاور کٹھن ادوار سے بخوشی گزرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام لوگوں کا امام بنانے سے قبل ہر نوع کے کٹھن مراحل اور مشکل امتحانات سے گزارا۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں خود فرماتے ہیں:
’’ یاد کرو کہ جب ابراہیم ؑ کو اس کے ربّ نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ اُن سب میں پورا اُتر گیا، تو اُس نے کہا:’’ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘ ابراہیم ؑ نے عرض کیا:’’ اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’ میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔‘‘(البقرہ ۱۲۴)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تمام لوگوں کا امام بنانے سے پیشتر اللہ تعالیٰ نے کڑی سے کڑی آزمائشوں میں ڈال دیا۔ نار نمرود ایک آزمائش تھی، اپنے وطن سے ہجرت اور سب سے بڑھ کر بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی قربانی آپ ؑ کی قربانیوں کی لمبی فہرست میں سب سے بڑی قربانیاں تھیں۔ اِ ن تما م آزمائشوں میں پورا اُترکر جب ابراہیم علیہ السلام گویاقربانیوں کا مجسم بن گئے تو اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُنہیں کہا کہ ’’ میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ گویا امامت او ر قیادت کے منصب پر فائز ہونے کے لیے دین اسلام سب سے پہلے چنیدہ ہستیوںاور پسندیدہ شخصیتوں کوقربانیوں اور آزمائشوں کے ذریعے زر خالص بناتا ہے۔ اصولی طورملّت کی امامت کا منصب کانٹوں کا تاج ہوتا ہے، یہاں عیش و عشرت، جاہ و حشمت اور دولت کی ریل پیل کا کوئی تصور یا گمان ہی نہیں گزرتا بلکہ یہ منصب عالیہ بے لوث خد مت ، بے ریا محبت ، کریم النفسی ، بلند نگا ہی اور خلوص ومروت جیسی صفات کا مرہون ِ منت ہو تا ہے ۔ یہاں قائد ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صاحبِ منصب شخص لوگوں سے قربانیاں مانگے، لوگوں کو سختیاں برداشت کرنے کے وعظ کرے، لوگوں کو ہی میدان جنگ میں گھسیٹ کرلے جائے ، خود محل خانوں میں بیٹھ کر رقص و سروراور عیش و عشرت کے جام لنڈ ھا کر عمل کی دنیا سے نابلد اپنا کام تقریروں اور زبانی جمع خرچ سے چلاتا ہو، خود غرضی کے صنم کدے میں مفادات کے بت پوجتا ہو، بلکہ یہاں قائد و سردارہونے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ہر ابتلاؤ وآزمائش کو خندہ پیشانی کے ساتھ گلے لگانے والا ہو، حق و صداقت کی آواز بلند کرنے کے لیے نارِ نمرود میں کودجانے والاہو، محل خانوں سے زیادہ زندان خانوں سے محبت کرنے والا ہو، حق کی خاطر صدا بلند کرنے کے لیے اگر تختہ دار پر بھی چو منا پڑے تو خوشی خوشی وصال ِ یار کے لئے سُوئے دار چلنے کو تیار ہو۔اِن تمام مراحل سے شعوراًگزر جانے یا اُن سے گزر نے کے لیے ہر دم تیار رہنے والا اور اپنی تمام سرگرمیوں کو خالص اللہ کی رضا کے خاطر وقف کرنے والا شخص ہی قوموں کی امامت و قیادت کا حقدار اور اہل ہوتاہے۔ یہ بات اسوۂ ابراہیمیؑ سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ظالم وجابر اور فاسق حکومت کے سامنے حق گوئی کرنا، اُن کی جابرانہ حکومت کی جگہ اللہ کے دین کی حکومت قائم کرنا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے بلکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت بھی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حرام چیزوں کو حلال کرنے والے نمرود کو دیکھا، گناہ اور اُسے خدا کے بندوں پر ظلم وزیادتی کرتے دیکھاتو انہوں اس حالت کو بدلنے کے لیے باذن اللہ کمرہمت کس لی۔ اس کے لیے انہیں بے پناہ مصائب و مشکلات ، تعذیب و تشدد کا شکار ہونا پڑا لیکن اآں جناب نے قول اور عمل دونوں سے حق کی ترجمانی اور بول بالاکیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :’’ جو شخص اللہ کی حرام چیزوں کو حلال گرداننے والے، خدا کے عہد کو توڑنے والے، رسول اللہ کی سنت کی مخالفت کرنے والے، گناہ اور زیادتی کے ساتھ خدا کے بندوں پر حکومت کرنے والے ظالم سلطان کو پائے پھر اپنے عمل اور قول کی طاقت سے اس کو نہ بدلے تو اللہ کو حق ہے کہ اُسے بھی وہیں بھیجے، جہاں اس ظالم حکمران کو بھیجے گا۔‘‘
جہاں ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کی بات کرتے ہیں، اُن کی عظیم قربانی کے یاد میں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، بیت اللہ کی زیارت کرکے حج کا فریضہ انجام دیتے ہیں، وہاں ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہماری زندگی میں، معاشرے میں مقامی و عالمی سطح پر اپنے لیے اُن لوگوں کو تلاش کرنا ہے جو قیادت کے منصب پر فائز ہوجانے کے قابل اور اہل ہیں، جن کی قیادت ابراہیم علیہ السلام کی طرح قربانیوں والی ہو، جن کی شخصیت میں صرف ایک رنگ ہواور وہ ہے اللہ کا رنگ یاصبغتہ اللہ، ملّت کی آزادی ، بھلائی ،خوشحالی اور سود مندی پر مرکوزجن کی تمام تر سرگرمیاں خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوں۔جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ:’’ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یک سُو ہوکر اُس نے اختیار کیا تھا‘‘۔یعنی جس میں ابراہیم علیہ السلام کا ہر عمل خالص اور خالص اللہ کی رضا اور دین کی سربلندی کے لیے تھا۔
’’کہو! میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا ، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میںہوں‘‘(انعام )
یہ گویا اعلیٰ درجہ صفات ہیں اُس خوش خصال و نیک خیال انسان ِ کامل کے جو ملّت اسلامیہ میں قائدانہ کردار نبھا نے کا اہل قرار پائے گا۔ یہاں یہ واضح ہو کہ ملّت کا ہر فرد ذمہ دار ہوتاہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اختیار میں قائدانہ رول ادا کرے۔ ایک مسلمان قائد کی تمام تر سرگرمیاں، اُس کی نماز، اُس کے مراسم عبودیت، اُس کا جینا، اُس کا مرنا ، اُس کا اُٹھنا ، بیٹھا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہونا چاہیے۔ذرا موجود حالات میں اپنے اردگرد دیکھیں۔ ملّت کی زبوں حالی خون کے آنسو رُلاتی ہے۔ مشرق و مغرب میں اُمت مسلمہ سے تعلق رکھنے والے لوگ گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں، ہماری زمینوں پر غیر قابض ہو رہے ہیں، ہمارے معاملات ہم سے یا ہمارے گھر میں نہیں بلکہ کئی اور طے کیے جاتے ہیں، ہماری جمہوریت ناپسندیدہ ( مرسی کی مثال ملاحظہ ہو )قرار پاتی ہے اور اُن کی دہشت گردی میں جمہوریت اور حقوق البشرکی بانسری بن جا تی ہے۔ہماری عزتوں اور عصمتوں کا کوئی مول ہی نہیں ہے، ہمارے نونہالوں اور نوجوانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، ہمارے وسائل پر غیر قابض ہورہے ہیں ، فرعونیت اور نمرودیت بام عروج پر ہے۔ آج ابراہیم علیہ السلام کے کردار کا متبع لیڈر اور حاکم ملّت کو دستیاب ہونا چاہیے، آج ابراہیمی ؑ ایمان اور یقین ، صبر و استقامت ہی ملّت کو اس ابتر صورت حال سے نکال سکتا ہے۔مگر وائے حسرتا! ہمارے یہاں جو کندہ ٔ ناتراش قیادت کے منصبوں پر براجمان ہیں ،اُن پر دنیا داری غالب آچکی ہے، اُنہیں دنیا کے عیش و آرام نے اتنا محو کیا ہوا ہے کہ اب وہ اپنی کرسی اور اقتدار کے خاطر اپنوں پر ہی شب خون مارنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ مصر او ر شام وغیرہ کی ہمارے سامنے بطور مثالیں موجود ہیں۔مسلم قیادت اپنی حقیر خاندانی مقاصد کے خاطر اغیار اور طاغوت کے آلہ کار بننے میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہ اپنی ملّت کی ماؤں اور بہنوں کی عزت کا سودا کرنے میںکوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ، اُنہیں اقتدار کے نشے نے اتنا مست کررکھا ہے کہ نہ ہی اُنہیں اللہ یاد رہا ہے اور نہ ہی اُن کے غضب کا اُنہیں احساس ہے۔
دور جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔مقامی سطح پر ہماری ریاست میں طویل عرصے سے عوامی جدوجہد کا سلسلہ چل رہی ہے۔ اس کے دوران اگر کچھ ہوا ہے تو وہ لیڈران کی مشروم گروتھ ہے۔ ہر گلی اور ہر نکڑ پر کسی نہ کسی تنظیم یا صاحب کا آفس پایا جاتا ہے۔ اچھی بات ہے اگر کچھ ہوتا لیکن جتنے زیادہ لیڈران ہیں اُتنی ہی قوم کنفیوژن کی شکار ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں، قول و فعل میں تضاد، جھوٹ پہ جھوٹ، سرینگر میں کچھ اور سرینگر سے باہر کچھ اور،ٹھاٹھ باٹھ ، کر وفر ، ہائے ہیلو اور کچھ بھی نہیں۔یہ سب کسی مداری کے کھیل کا تماشہ لگ رہا ہے۔لاکھوں جانیں قربان کرنے ، سینکڑوں عصمتیں لٹ جانے، اَربوں اور کھربوں کی جائیداد تلف ہوجانے، بستیوں کی بستیاں ویران ہوجانے ، پانچ سو کے قریب قبرستان آباد ہوجانے ، نامعلوم قبروں کے انکشافات اور قوم کا سب کچھ داؤ پر لگ جانے کے بعد اگر کوئی لیڈری کا دعویٰ کرنے والا یہ کہے کہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے، یا ہم تھک چکے ہیں، یا ’’کچھ لو اور کچھ دو ‘‘ کی تجارت سے فائدہ اُٹھا نے کا بیڑ اٹھائے تو بھلاکیا ایسے فرد کی قیادت تسلیم کیے جانے کی قابل ہے؟؟یاد رکھئے یہ وی آئی پی کلچر، یہ شاہانہ اخراجات، یہ مراعات طلبی ، یہ دنیا داری اور یہ عیش پرستی دلوں کے اندر کہاںقربانی کا جذبہ پیدا ہونے یا پروان چڑھانے مین ممد ومعاون ثابت ہوگی؟ قربانیوں سے دامن بچاکر اپنے اصولی مؤقف سے کمپرومائز کرنا ابراہیمی ؑ سنت کا تقاضا نہیں ہے۔ابراہیمی سنت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ ملّت اپنی جدوجہد کو خالص اللہ کے لیے کرے۔ عید الاضحی کے اس موقعے پر تمام لیڈران کی جانب سے قوم کے نام پیغامات ارسال ہوئے ، مبارک بادیاں اپنی جگہ پر ٹھیک ہیں لیکن اسلامیان کشمیر کو مصائب و مشکلات کے بھنور سے نکال باہر کر نے کے لیے لازمی ہے کہ عوام سے لے کر قیادت تک ہر کوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوۂ سے وہ سبق حاصل کریں جس کی بنیاد پر اِس جلیل القدر پیغمبر سے نمرود جیسے جابر و ظالم بادشاہ سے نہ صرف ٹکر لی بلکہ اُس کے سامنے پوری اخلاقی قوت کے ساتھ بغیر کسی لکنت کے حق کی دعوت پیش کی اوربالآخر اپنی مسلسل جدوجہد کے ذریعے نمرود ی نظام اور اس کے آلۂ کاروںکو حق کے روبرو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کردیا۔اگر ابراہیمی ؑ سنت اور طریقے کو اختیار کیا جائے گا تو عوام کے پاس جاکر اُنہیں اپنے آپ کو لیڈر بنانے کی بنانے کی بھیگ نہیں مانگنی پڑے گی بلکہ تمہاری قربانی، تمہارا یقین اور تمہارے خالص رضائے الٰہی کے لیے جدوجہد دنیا کو تمہیں لیڈر تسلیم کرنے پر مجبور کر دے گی۔
ڈرنے والی ، عیش پسند، دنیا کی محبت میں گرفتار قوم کبھی بھی آگے نہیں بڑھتی ہیں۔صحیح معنوں میں راسخ العقیدہ مسلمان بننا وقت کا تقاضا ہے۔ اسلوب براہیمی ؑ کو دل سے تسلیم کر نے کا تقاجا یہی ہے کہ اللہ کی رسی کو تھاماجائے اور آپؑ کی دکھائی ہوئی راہ پر چلنا از بس ضروری ہے۔ موٹے طورقربانی کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو برمحل سمجھیں، ہر وقت اپنے آپ کو ہر طرح کی قربانی اور شہادت ِ حق کے لیے تیار رکھیں۔اپنی انا کی قربانی، دنیا پرستی کی قربانی، عیش و عشرت کی قربانی، جان و مال کی قربانی غرض ہر طرح کی قربانی کے بعد ہی کسی فرد اور قوم کو امامت یا قیادت وسیادت کا مقام ِ برتر حاصل ہوجاتا ہے۔ اسوۂ ابراہیمی ؑ میں اللہ تعالیٰ کا خالص اتنا ہی مقصد نہیں ہے کہ لوگ جانوروں کی قربانی کرکے دین کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کریں بلکہ مقصد یہ ہے کہ مسلمان ابراہیم جیسا ایمان پیدا کریں اور ملّت کو پھر سے امامت کے منصب پر فائر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے جانوروں کے خون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔:
’’نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اُس نے ان کو تمہارے لیے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو۔ اور اے نبیؐ بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو۔‘‘( الحج ۳۷) ۔
بقول علامہ اقبال ؒ ؎
آج بھی ہو جو ابراہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا