اسلام نے مسلمانوں کو دو ( عیدین ) کااہتما م اسلامی آداب ووقار کے ساتھ منانے کی اجازت دے دی ہے اور ان دو دنوں پر اچھا کھانا ،اچھا پہننا ،خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ،نماز عید کے لئے عید گاہ جانا،غریب غربا ء کی مدد کرنا ،قربانی کرنا ،حتی المقدور صدقات سے مستحقین کی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بال بچوں ،اپنے اہل و عیال پر اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے کی ترغیب دلائی ہے مگر اس اجازت کی دوسرے مسلمان عموماً اور مسلمانانِ کشمیر نے خصوصاً غلط تعبیر کرکے مقدس تہواروں کا تقدس ہی پامال کردیتے ہیں ۔ قرآنی آیت’’کھاؤ پیو ‘‘اگرچہ مذہبی حکم یا اجازت ہے مگر ساتھ میں ہی ’’اسراف نہ کرو‘‘کی قدغن بھی لگی ہے جس کو روبہ عمل لانا بہر حال ہم پر لازمی ہے ۔
عید سے دوروز قبل مجھے کسی کام سے شہر کی جانب جانا پڑا تو یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ مرکزی شہر میں کم سے کم اَسی جگہ پر بیکری کی دوکانیں لگی ہوئی ہیں اور ان دوکانوں سے سامان بھی وافر مقدار میں فروخت ہورہا ہے ۔لال چوک کے دائیں بائیں علاقوں اور اندرون ِ شہر خاص کر پرانے شہر میں کتنی بیکری دوکانیں مصروف کار رہی ہوں گی، اُس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔یہ بیکری کا سلسلہ اس قدر دراز تر ہوتا جارہا ہے کہ میرے ایک واقف کارنے اپنا آبائی پیشہ ترک کرکے بیکری کی دوکان شروع کردی اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے محلے کے ایک شیر فروش نے اپنی ذات یعنی سب کاسٹ (Sub -cast)گوجری سے تبدیل کرکے قریشی کر کے بیکری کی دوکان کھول ڈالی ہے ۔اُسے گوجری کیکس کے بجائے قریشی کیکس شاید زیادہ میٹھے لگے ۔ایسی دوکانیں جتنی بھی کھلی ہیں، خوب چلتی ہیں ۔لوگ کیک،بسکٹ،پیسٹری وغیرہ کا کتنا سیون کرتے ہیں ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مقامی طور ہزاروں کوئنٹل بیکری بننے کے ساتھ ساتھ دہلی،کلکتہ ،حیدر آباد اور دوسرے شہروں سے درآمد کی ہوئی پیکڈ بیکری بلکہ جنوبی ایشیاء سے درآمد شدہ خوردنی سوغات بھی لوگ بڑے شوق سے خریدتے اور کھا جاتے ہیں،حالانکہ اُس کی قیمت قدرے زیادہ ہوتی ہے مگر خریدار یا صارف اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔بڑی بڑی اور مشہور دوکانوں میں عید سے دو روز قبل ہی ٹین و کنستر بجتے ہیں اور ایک کھیل بھی باقی نہیں بچتی ۔ایسی مشہور دوکانوں کے باہر لگی خریدنے والوں کی لمبی قطاریں قابل ِ دید ہوتی ہیں ۔کاش! ایسی ہی قطاریں کبھی مسجد کے اندر جانے والے نمازیوں کی نظر آجاتیں،تو ہماری زندگیاں باغ و بہار ہوتیں۔
اس بات کا کوئی راوی نہیں ہے بلکہ یہ بات میرے سکول کے ایام میں میرے سامنے وقوع پذیر ہوئی تھی ،جب ڈاکٹر دُرانی صاحب نے کہا تھا کہ اب پیٹ یعنی معدے کے حوالے سے کشمیریوں کی خیر نہیں۔معدے کی تکلیف یا مرض عام ہوجائے گا کیونکہ اب یہاں بیکری کی دوکانیں کھلنے لگی ہیں ۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ان دنوں سارے سول لائنز (سرینگر) میں بیکری کی چار پانچ دوکانیں ہی ہوا کرتی تھیںجن میں اُس وقت اعلیٰ پائے کا بیکری مال بنتا تھا ۔
قصابوں کی دوکانوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے جیسے ماہ ذیقعد ہ کا پورا مہینہ گوشت کا روزہ رکھا تھا ۔ہنس،بطخ ،مرغے ،انڈے لینے کے علاوہ بھی قصابوں کی دوکانوں پر لمبی قطاریں دیکھ کر حیرانگی ہوجاتی تھی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں ہر ماہ تقریباً 70؍کروڑ روپے کا گوشت دساور سے آتا ہے اور عیدین و شادی بیاہ کے مواقع پر اڑھائی سو کروڑ روپے کے گوشت کا سیون الگ سے کیا جاتا ہے ۔شکم پرست قومیں آزادی کے جھلملاتے سورج اور رنگین روشن صبحیں کہاں دیکھتی ہیں؟؟؟اُن کے مقدر میں غلامی کی کالی بدلیاں اور مظالم کے خون آشام باب ہی رقم ہوتے ہیں ۔ڈبلیو ۔آر ۔لارنس اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’دی ویلی آف کشمیر‘‘ میں سن 1877ء میں پڑے قحط کے بارے میں تفصیل سے بات کرنے کے بعد لکھتے ہیں:’’عام دنوں میں ایک آدمی کے لئے ایک سیر چاول ایک دن کی خوراک کے لئے کافی پڑتا ہے لیکن قحط کے دنوں میں لوگ اس مقدار سے دوگنا تِگنا کھاتے تھے اور پھر بھی بھوک محسوس کرتے تھے ۔لگتا تھا کہ ہر ایک فرد کے اندر ایک جِن بیٹھاتھا جس کا پیٹ بھرنا ضروری تھا ۔‘‘
آج کل اللہ کے فضل وکرم سے قحط نہیں ہے مگر جِن بدستور ہمارے ابدان میں موجود ہے ۔کھانے پینے کی مختلف چیزیں جیسے چاول ،دودھ ،دہی ،مکھن ،گھی،جیم ،آچار ،ساس ،پھل ، سبزی ،مٹھائی،چاٹ ،پیزا،بریانی ،جنک فوڈ اور ہندوستان کے مختلف شہروں سے آکر یہاں کاروبار جمانے والے سوداگروں کا ناقص اور منافی ٔ حفظان ِ صحت حلوہ،پراٹھا ،پکوڑے ، چھولے،پوری ،مٹر ،دال مونگرا اور صرف چوبیس گھنٹوں میں تیار تازہ بہ تازہ لوکل اچار کے بڑے بڑے پرات اور کونڈے وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں اور لوگوں کے پاس قوتِ خرید بھی ہے کہ منٹوں میں اس کو صفا چِٹ کر جاتے ہیں ۔کھانا پینا یا زندہ رہنے کے لئے پیٹ بھرنا گناہ نہیں ہے مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے ،جہاں سری کے گوشت کے تکے ہی شام کے وقت ہزاروں روپے کے کھائے جاتے ہوں، وہاں حد نہیں بلکہ حد سے تجاوز مانا جائے گا ۔چرند اور دیگر حیوانات کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اُس نے کتنا کھایا اور مزید کتنا کھانے کی گنجائش ہے مگر پھر بھی گھاس چر کر حیوان پر ایک ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ وہ کھڑے کھڑے ہی یا بیٹھ کر جُگائی کرلیتا ہے اور کھایاہوا چباکر پچانے کی کوشش کرتا ہے مگر ہمارے بھائی بہن اہالیان ِ وادی دنیا بھر کی چیزیں چٹ صاف کرجاتے ہیں لیکن ڈکار تک نہیں لیتے ۔کیا زمانہ آگیا ہے ؟انسان پیٹ اور پیسے کا غلام بنتا جارہا ہے اور مذہبی ، سماجی و اخلاقی حد بندیوں اور اقدار سے دور ہوتا جارہا ہے ،جس کی وجہ سے وہ خارجی اور داخلی دونوں اطراف سے تصادم (Conflict)کا شکار ہے ،صحیح سوچ نہ رکھنے کی باعث وہ انتشار میں مبتلا ہے۔یہی عید۔۔۔۔۔یہی مقدس گھڑیاں۔۔۔یہی پیارا دن۔۔۔عظیم ساعتیں۔۔۔اُنس و الفت ۔۔۔اُخوت و مُروت ۔۔۔ہمدردی و ہم آہنگی۔۔۔اسلامی سرشاری اور سادگی کے ولولے۔۔۔گلے مل کر سب گلے شکوے دور بھگانے کے موقعے ۔۔۔دل کے اندھیرے روشن کرنے کے اوقات ۔۔۔رب العزت کی شفقت اور عنایات کے شکر بجا لانے کے یہ سارے مواقع ہم فقط پیٹ بھرنے کی نذر کردیتے ہیں۔بہر حال واقف ؔ رائے بریلوی کے انتباہ کی روشنی میں بہت دُکھ ہوتا ہے اور بہت بُرا لگتا ہے مگر کیا کریں،یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ؎
بہار لوٹ لیں کہ پھولوں کا قتل عام کریں
وہ جیسے چاہیں گلستان کا انتظام کریں
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995