جوں ہی اس نے پٹرول پمپ کے قریب اپنی کار کھڑی کر دی تو اس سے ایک آواز سنائی دی۔
’’صاحب !یہ کپڑا لے لیجئے نا۔خالص کارٹن کا ہے۔‘‘
خیامؔصاحب نے دائیں کی جانب مڑ کر دیکھا۔ایک معصوم سا دس بارہ برس کا لڑکاالتجائی نظروں سے دیکھے جا رہا تھا۔گول گول چہرہ ‘رنگ سانولا تھا۔ اس لڑکے کو دیکھ کر کسی بھی کٹھور انسان کے دل میںپیار اُمڈ آتا۔ اس کے ہاتھ میںکپڑا دیکھ کر خیام صاحب سوچنے لگے۔
’’اس معصوم کے ہاتھ میںکتابیں ہونی چاہئے تھیں۔‘‘
اتنے میںپٹرول پمپ پرتعینات ملازم آکر بولا۔
’’صاحب کتنے کا پٹرول ڈالنا ہے۔‘‘
’’ایک ہزار کا ڈال دیجئے۔‘‘خیام ؔصاحب نے روپے دیتے ہوئے کہا۔
یہ دیکھ کر اس لڑکے نے پھر آواز دی۔
’’صاحب یہ کپڑا صرف بیس روپے کا ہے لے لیجئے نا۔‘‘وہ اصرار کرنے لگا۔
خیام صاحب کے دل میں اس لڑکے کے لئے ہمدردی جاگ اُٹھی۔اس سے پوچھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے اور کہاں رہتے ہو۔‘‘
لڑکے نے فو راََ جواب دیا۔’’صاحب نام کریم ہے رہی بات ٹھکانے کی تو ہمارا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔‘‘اس نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ہم وہاں خیموں میں رہتے ہیں۔‘‘
اسی بیچ پٹرول پمپ کے ملازم نے پھرآواز دی۔
’’چلئے صاحب آپ کا کام ہوگیا۔‘‘
خیام صاحب کار اسٹارٹ کرنے لگے تو کریم نے دھیمی آواز میں کہا۔’’صاحب کچھ کپڑا تو لیجئے صبح سے بھوکا ہوں۔‘‘
یہ سن کرخیام صاحب کو لڑکے پر ترس آیا۔اس نے بیس روپے کانوٹ لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’جائوروٹی کھا لو۔‘‘
کریم کا چہرہ چمک اُٹھااس نے کپڑاخیام صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔’’یہ لیجئے صاحب کپڑا۔‘‘
’’کپڑا تم اپنے پاس رکھ لو۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
یہ کہتے ہوئے خیام صاحب وہاں سے نکلنے لگے تو کریم نے آواز دی۔
’’صاحب یہ نوٹ رکھ لیجئے۔ میں کوئی بھکاری نہیں ہوں،مالک نے ہاتھ پیر دئیے ہیں۔‘‘اور وہ نوٹ لوٹا کردوسری طرف چل دیا۔خیام صاحب کار اسٹارٹ کرکے گھر کی طرف جاتے ہوئے سوچنے لگے
’’میں نے یہ کپڑا نہ لے کر اس کا دل دکھا یا ہے، کم سے کم اس بے چارے کوبیس روپے تو مل جاتے۔وہ اپنی پیٹ کی آگ تو بجھالیتا۔نہ جانے کب کا بھوکا ہوگا۔‘‘اس بات پر وہ بہت پچھتا رہے تھے۔
گھر پہنچتے ہی خیا م صاحب نے اپنی بیوی سے اس ماجرے کا ذکر کیاتو وہ ما یوسانہ انداز میں بولی۔
’’کاش تم نے اپنے ماضی کو یاد کیا ہوتاتو تم ضرور اس لڑکے سے کپڑا خرید لیتے۔‘‘
’’مگر میں نے اس سے روٹی کھانے کے لئے پیسے تو دئیے تھے۔‘‘
’’اس کا کپڑا تو نہیں خریدا۔اس کا حوصلہ نہیں بڑھایا۔تم نے فقط اس کی خودداری کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‘‘
’’ میں نے تو اس سے ہمدردی جتائی تھی۔‘‘
’’یاد کرو تم سے بھی کبھی کسی نے ایسے ہی ہمدردی جتائی تھی تم نے بھی اس کے پیسے ایسے ہی لوٹائے تھے۔پھر تم نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔تم ترقی کرتے گئے۔‘‘
خیام ؔصاحب رات دیر تک اس لڑکے کے بارے میں سوچتے رہے۔
’’نہ جانے وہ کس حالت میںہوگا ۔کھانا کھایا ہوگا یا نہیں۔وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہوگا۔اتنی بڑی کار کا مالک کار کی صفائی کے لئے کپڑا خرید نہیں سکا۔‘‘
کچھ دن بعدخیام صاحب نے پھراس پٹرول پنپ پر کار کھڑی کر دی تو کریم دوڑتا ہوا آیا۔’’صاحب یہ کپڑا۔۔۔۔۔‘‘وہ اتنا ہی کہہ پایاکہ اس کی نظریں خیام ؔ صاحب پر پڑیں۔
’’کار میںبیٹھ جاو۔‘‘خیام صاحب بولے
’’صاحب میرا وقت بہت قیمتی ہے کپڑا لینا ہو تو بولئے نا۔‘‘
ٖٖ’’ہاں ہاں مجھے کپڑا لینا ہے تم بیٹھو تو سہی۔‘‘
’’صاحب میں بیٹھوگا تو اپنی ہی کار میں۔‘‘یہ کہہ کر وہ دوسری جانب چلا گیا۔خیام صاحب نے کار سا ئڈمیں کردی اور جا کرکریم سے کہا۔
’’ مجھے سچ میں کپڑا خریدنا ہے چلو وہاں بیٹھ کر سودا کرتے ہیں۔اُس نے کریم کو نزدیک کے ایک ریسٹورنٹ میںلے جا کر کہا ۔
’’تم آج بھی بھوکے ہوگے۔تم کھانا کھا لو۔‘‘خیام صاحب نے بیرے کو آواز دے کر کہا۔
’’یہ لو سو روپے اور اس کے لئے کھانا لے آو۔‘‘
’’صاحب مجھے کھا نا نہیں کھانا ہے کپڑا لینا ہے تو لیجئے نا ۔نہیں تو میرا وقت ضائع مت کیجئے۔‘‘خیام صاحب کریم کا ارادہ دیکھ کرسوچنے لگے۔
’’یہ لڑکا ایک دن ضرور ترقی کرے گا۔ مجھے اس کا حوصلہ بڑھانا چاہئے‘‘پھر بولے
’’ٹھیک ہے سارا کپڑا رکھ دو۔‘‘اس نے سارا کپڑا ٹیبل پر رکھ کر کہا
’’کل دو سو بنتے ہیں صاحب۔‘‘
خیام صاحب نے روپے اس کو دے دیئے۔ اس کے چہر ے پررونق آگئی ایسا لگتا تھا کہ خوشیوں نے اس کی زند گی کی دہلیز پر دستک دی ہو۔ وہ ہشاش بشاش ہوکر خیمے کی طرف دوڑ پڑا ۔جاتے ہوئے کریم کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھ کر خیام صاحب من ہی من میںسوچنے لگے۔
’’کاش !ہر انسان ایک دوسرے انسان سے ذرا سی ہمدردی جتاتاتو شاید ہر چہرے پر ایسے ہی مسکراہٹ آجاتی ۔۔‘‘
٭٭٭
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر:-9906484847