گرمیوں کی گرم دھوپ میں جہاں انسان تو انسان جانور اور حشرات الارض بھی چھاؤں کی تلاش میں سرگرداں تھے، پھٹے کپڑوں میں میلے کچلے بدن کے ساتھ ہاتھوں میں ایک بڑی کلہاڑی لیے گاؤں کا وہ لڑکا لکڑیوں کی چیرپھاڑ میں مشغول تھا۔۔ مجھے آتے دیکھ وہ مجھے نظرانداز کرنے کی ہمت جٹا رہا تھا۔۔۔ لیکن میں آج اسے نظر انداز کرنے کا حوصلہ نہیں جٹا پایا۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا ''بیٹا کیاکررہے ہو۔؟'' بڑے اطمینان سے اس نے جواب دیا
'' کچھ خاص نہیں ماسٹر جی انکل جی کی لکڑیاں پھاڑ رہا ہوں''
''آپ کی عمر کافی چھوٹی لگ رہی ہے، پڑھائی کیوں نہیں کرتے ہیں.؟ ''
''تعلیم حاصل کرکے کیا کروں گا؟ تعلیم سے مجھے نفرت ہے'' اس لڑکے سے مجھے اس قسم کے جواب کی توقع نہیں تھی پھر بھی مجھے اس میں دلچسپی لگی میں نے اس سے اس کے گھر پریوار کے متعلق پوچھ لیا۔
''والدین انتقال کرچکے ہیں، میں اکیلا ہوں اس لیے اپنے انکل کے گھر میں رہتا ہوں‘‘۔ یہ سنتے ہی میرے ذہن میں اس کے تعلق سے ایک منفی نظریئے نے جنم لے لیا۔ میں نے اس کو تسلی دی ''بیٹا اب مجھے آپ کی ساری کہانی سمجھ میں آگئی کہ آپ تعلیم سے کیوں نفرت کررہے ہیں؟ آپ اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔ ہم آپ کا پورا خرچہ برداشت کر سکتے ہیں۔ آپ کے آنکل کو بھی ہم سمجھا دیں گے ان کو آپ کے اخراجات برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ''
میری باتوں سے وہ کافی حیرت زدہ ہوا اور اس نے مسکراتے ہوئے کہا ''ماسٹر صاحب یہی تو ہم انسانوں میں کمی ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی کہانی اپنے ذہن میں ترتیب دے دیتے ہیں۔ میری کہانی وہ نہیں ہے جو آپ سمجھے ہیں۔ میرے انکل اور آنٹی جی بہت نیک صفت انسان ہیں ان کے جیسے لوگ دنیا میں کم ہی ہیں''
اب حیران ہونے کی باری میری تھی ''پھر آپ کی کہانی کیا ہے بیٹے.؟ ''
تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ گویا ہوا '' دراصل ماسٹر جی میرے انکل نے مجھے زیور تعلیم سے آراستہ کرانے کی بہت کوشش کی لیکن میں خود ہی نکمہ نکلا، گیارہویں تک تو میں نے جوں توں کرکے نکال لیے لیکن اس کے بعد مجھ سے نہ ہوسکا''
''پھر کیا ہوا؟'' اس کی خاموشی مجھ سے برداشت نہیں ہوئی تو مجھے بولنا پڑا۔
''پھر ایک دن کیا ہوا ہمارے اسکول میں ایک نئے استاد آئے۔ وہ بہت قابل تھے۔ وہ، ان اسکولوں میں ایک مضمون ہوتا ہے نا ’’ اردو‘‘وہ اسی سبجیکٹ میں بہت قابل تھے اور میری بدقسمتی کہ میں اسی میں بہت کمزور تھا۔ مجھے اردو نہیں آتی تھی۔ میں سبق یاد نہیں کرپاتا تھا ایک دن مجھ سے تنگ آکر انہوں نے مجھے اتنا مارا کہ جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھا۔ بس وہ دن اور آج کا دن مجھے لفظ تعلیم سے ہی نفرت ہوگئی ہے۔ میں نے سوچا کیوں ان قابل لوگوں کے سامنے روز روز اپنی بے عزتی کرائیں، اورمیری وجہ سے ان قابل اساتذہ اور بچوں کا وقت خراب ہو۔ میں نے تعلیم کو ہمیشہ کے لیے خیرآباد کہہ دیا،میرے! آنکل اور آنٹی نے مجھے بہت حوصلہ دیا مگر اب مجھ میں ہمت نہیں تھی۔ ''
''میرے بیٹے اب یہ مار پٹائی ہمارے اسکولوں میں گزری بات ہوگئی ہے، ہماری سرکار کے پاس کمزور بچوں کے لیے بہت اسکمیں ہیں، آپ اپنی مرضی سے سبجیکٹ چن سکتے ہیں۔'' میں نے اسے قائل کرنے کی ایک اور کوشش کی۔
''نہیں ماسٹر جی، آپ نہیں سمجھ سکتے میرے درد کو'' وہ روہانسی آواز میں بس اتنا ہی کہہ سکا۔
''آپ آؤ میرے اسکول میں، اب چیزیں کافی بدل چکی ہیں، ہم وعدہ کرتے ہیں سب ٹھیک ہو جائے گا''
''ماسٹر جی معاف کرنا، آپ اس بار بھی غلط فہمی میں مبتلا ہیں''
''وہ کیسے.؟ '' حیرانگی سے میں اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
'' وہ اس طرح سے ماسٹر جی کہ میں اور میرے جیسے لاکھوں بچوں کی ضرورت سرکاری اسکمیں نہیں ہیں، اگر ہمیں ضرورت ہے تو صرف ایک مشفق استاد کی اور وہ آپ کہاں سے لائیں گے.؟ ''
میں لاجواب ہوکر صرف ''اچھا جی '' کہہ کر ان گنت خیالات میں ڈوب کر وہاں سے نکلنے کے لیے مجبور تھا لیکن راہ چلتے اس معصوم بچے کے یہ الفاظ میرے دل ودماغ اور کانوں میں گونج رہے تھے ''ہمیں ضرورت ہے تو صرف ایک مشفق استاد کی اور وہ آپ لائیں گے کہاں سے۔؟؟ ''
دراس کرگل جموں وکشمیر ،موبائل نمبر؛8082713692