نیشنل کانفرنس کے صدر، ممبر پارلیمنٹ اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف عیدالاضحیٰ کے موقع پر عین نماز عید کے دوران حضرت بل سری نگر میں عوام الناس کا برمحل اپنا غم وغصہ ظاہر کر نا اور موصوف کی زبردست ہوٹنگ کرنا کیا کوئی بلا وجہ ہنگامہ ہے ؟ نہیں قطعی نہیں ۔ یہ جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق ایک ٹھوس حقیقت کا برملا اظہار ہے ۔ اس کے سیاسی سیاق وسباق سے سبق لینا تمام موقع پرست اور ابن الوقت سیاست دانوں کا فرض بنتا ہے ۔ حضرت بل میں پیش آیا واقعہ کوئی الل ٹپ معاملہ نہیں بلکہ یہ عوام کا تیکھاردعمل ہے اُس شخص کی موقع پرستانہ سیاست کے خلاف جس نے دلی میں واجپائی کے آخری رسومات میں حصہ لے کر محض ناگپور کو خوش کر نے کے لئے بھارت ماتا کی جے اور جے ہند کے نعرے بلند کئے اور اس نعرہ بازی میں 81؍ برس عمر ہونے کے باوجود پچیس سالہ نوجوان جیسی گرم جوشی دکھائی۔ بے شک یہ ان کا انفرادی جمہوری حق بنتا ہے کہ وہ کس کی جے جے کار کر یں، کہاں کہاںاپنا ماتھا رگڑیں، کدھرکدھر اپنے گھٹنے ٹیک دیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ اگران کی یہ تازہ نعرہ بازی سچ ہے تو کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنے والد بزرگوار کی برسی مناتے ہوئے اُن کے مقبرے واقع حضرت بل پر اعلانیہ طور کس منہ سے یہ کہا کہ وہ حریت کا ساتھ دیتے ہیں ؟ حریت کی حمایت بھی ا ور بھارت ماتا کی جے بھی، یہ ایک واضح تضاد نہیںتواور کیا ہے ؟ عقل سلیم یہی کہتی ہے کہ اُ س وقت حریت کی تائیدو حمایت کر نا پی ڈی پی کو نیچا دکھانے کے لئے ضروری تھا ،اس لئے گرگٹ کی طرح رنگ بدل کر نئی راگ بھیروی چھیڑ دی۔ا ب چونکہ کرسیٔ وزارتِ عالیہ خالی ہے ،اوپر سے کرکٹ گھوٹالہ بھی سر پر ہے ، اس لئے ناگپور سے اپنی سندوفا پانے کی نیت سے دلی میں یہ مطلبی نعرہ بازی کی گئی ۔ سوال یہ بھی ہے کہ جس واجپائی کو ڈاکٹر صاحب اپنا آئیڈیل جتاتے ہیں اور اُن کے نقش قدم پر چلنے کی تمنا کر تے ہیں ، کیا انہوں نے اس اٹونومی رپورٹ کو دومنٹ کھولنے کی زحمت گوارا کی جسے قانون ساز اسمبلی کی اکثریت نے ایک قراراداد کے ذریعے منظور کر کے ریاست کے تینوں خطوںکیgeneral will کا مشترکہ اظہار کیا تھا۔ اور پھر واجپائی جی نے کشمیر کے لئے سخن سازی کے علاوہ اور کیا کیا جس کی قصیدہ خوانی میںفاروق جی زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں ؟نیز حضرت بل کا تیکھا ردعمل اُسی کہانی کا اعادہ ہے جو کچھ ماہ قبل عمر عبداللہ کے خلاف امریکہ میں کشمیر سے متعلق ایک تقریب میں کشمیری نژاد امریکیوں نے اپنی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے تاریخ کے سینے میں رقم کی کہ شیخ کے پوتے کی بولتی ہی بندہوئی ۔ درگاہ کی یہ کہانی اسی سر گزشت میں ایک اور نئے باب کا اضافہ ہے جو کانگریس کے صدر غلام رسول کار کی چرارشریف کے آستان عالیہ میں حاضری کے موقع پر ناراض کشمیریوں نے پتھر اؤ کر کے قلم بندکی جس کے نتیجے میں کار صاحب لہو لہاں ہوئے تھے۔ حق یہ ہے کہ ہمارے بکاؤ سیاست دان ابھی تک’’ حقیقت ِکشمیر ‘‘ سے شتر مرغ کی مانند ناواقف رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں ، وہ ابھی تک خیالی’’ احساسِ کشمیر‘‘ کو سچ مان کر زوبین مہتہ کے شالیماری شو میں مست ومگن رہنا ہی پسند کرتے ہیں لیکن جب جب وقت آنے پر ’’حقیقت ِکشمیر ‘‘ اپنی تلخیوں اور تندیوں سمیت منظرنامے پر اُجاگر ہوتی ہے تو اقتدار پرست لیڈروں کی وہی دُرگت ہوتی ہے جس کی ایک جھلک نیشنل کے گڑھ مانے جانے والے حضرت بل میں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے دیکھی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔بہر حال اگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے بال دُھوپ میں سفید نہیں کئے ہیںتو اُن کو سمجھنا چاہیے کہ آج کل کے لوگ گزرے زمانے کی طرح شخص پرست یا اَندھ وشواسی نہیں کہ لیڈر اور سیاست دان اُن کو اونے پونے داموں بیچ کھائیں اور یہ لوگ سادگی کے عالم میں چپ سادھ لیں ۔ مزیدبرآں وہ زمانہ اب قصہ ٔ ماضی ہے جب شیخ عبداللہ سادہ لوح لوگوں کو رائے شماری فوراً کرو کے نعرے سے لے کر سورہ الرحمن کی تلاوت ، پاکستانی نمک اور سبز رومالوں سے صرف اپنی کرسی کے واسطے بہلایا کر تے تھے۔اب سوشل میڈیا کازمانہ ہے ، اس کے توسط سے یہ جو جنتا ہے سب جانتی ہے کہاں کیا ہورہاہے ، کس نیلامی منڈی میں ان کے کیا دا م لگائے جارہے ہیں۔ عام خام ا ب اس رازِ دروں سے واقف ہیں کہ کشمیر کے نیتا لوگ اپنے سیاسی محلات بنانے کے لئے کیا کیا گل کھلاتے ہیں ، کن قوم فروشانہ خاکوں میں رنگ بھرتے ہیں ،کون کونسی جفاکاریوں کے عوض کیا کیا مفاد اورمراعات پاتے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق اگر یہ حقائق سمجھنے سے قاصر ہیں تو انہیں چاہیے کہ کسی ناگپوری سیاسی گرو کی پاٹھ شالہ میں راج نیتی کی شکھشا پائیں۔ انہیں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اُڑایا کر تا تھا۔ دلی میں ایک بات ، جموں میں دوسری بات اور سری نگر میں تیسری بات آج سے دہائیاں قبل چلتی تھی ، کیونکہ کوئی پوچھنے والا بھی نہ تھا ۔آج کسی چیز کی بھنک جونہی سوشل میڈیا کے کان میں پڑتی ہے تو آناً فاناً تہلکہ مچ جاتا ہے اور لوگ وہ بھی اس جنگ زدہ خطے کے مظلوم لوگ اپنا ردعمل ظاہر کر نے میں کوئی تاخیر نہیں کر تے ۔