صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں۔۔۔ ۔ بدر و حنین بھی ہے عشق
لفظ قربانی اپنے مفہوم کے اعتبار سے اپنے اندر بے پناہ وسعت وجامعیت رکھتا ہے۔جان و مال ،اوقات و لمحات، آرزؤں اور خواہشات کی قربانی دے کر ہی جاہ و منصب اور خوشحالی وفارغ البالی کا مزہ حاصل ہو سکتا ہے لیکن اسلام میںقربانی کی روح اور اس کا مطالبہ کچھ اور ہے۔یہ در حقیقت ایثارِ نفس کے اظہار کا ایک محسوس طریقہ ہے جو عیدالاضحیٰ کی مناسبت سے گوشت کھانے کھلانے اور ذبیحہ جانور کا خون بہانے کا نام نہیں، بلکہ یہ اپنے اندر جذبۂ ایثار کی روح پیدا کرنے کا نام ہے اور اس مزاج کو پیدا کرنے کا عنوان ہے جس کی وجہ سے صحابہ کرام ؓ کی پذیرائی اور تعریف میں اللہ نے فرمایا رضی اللہ عنہ ورضو عنہم ( اللہ ان سے خوش یہ اللہ سے خوش ) فرمایا ۔ شریعت اسلامی میںقربانی کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے مفاد اور اغراض کو مفاد عامہ مفاد خاصہ پر خوشی خوشی قربان کر دے۔ دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھے اور اپنے پورے وجود کو رضائے الٰہی کی خاطر فنا کر دے۔ ع
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے
ہم سب اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ سنت ابراہیمی ؑکو زندہ رکھتے ہوئے ہم اور آپ نے جانوروں کی علامتی قربانی پیش کر دی، خدائے ذولجلال ہماری اس قربانی کو شرف قبولیت سے نواز کر اسے ہماری اُخروی سر خروئی کا ذریعہ بنائے۔ مبارک ہو آپ کو کہ قربانی کی سنت کے لئے ہزاروں روپے نکال کر آپ نے جانور کی خریداری کی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ رقم آپ کے بچوں کے اسکول اور کالجزکی فیس میں کام آجاتی ، یہ بھی ہو سکتا تھا کہ نوٹوں کے یہ بنڈل آپ اپنی بیگم کے زیورات خریدنے میں خرچ کر جاتے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس پیسے سے اپنے ذاتی تصرف میں اڑادیتے، یہ بھی بعید نہیں کہ آپ کی ناساز طبیعت کو شفا بخشنے میں اس رقم کی ضرورت پڑتی،اس رقم سے آپ گھر کے لئے ٹی وی یافریج بھی خرید سکتے تھے جس سے آپ سال ہا سال اپنا فائدہ اٹھا سکتے، یہی رقم آپ بینڈباجے اور رقص و سرور میں بھی ختم کر سکتے تھے،جی ہاں یہی رقم آپ مقدمہ بازی کی بھینٹ چڑھا دیتے لیکن ان تمام ممکنہ مصارف کے باوجود آپ نے سنت قربانی کی اہمیت کو دل وجان سے تسلیم کرتے ہوئے قربانی کا جانور خریدا اور تین روز اور بعض احباب نے چار روز تک اسے پال پوس کر بڑے شوق سے اپنی قربانی اللہ کے سامنے پیش کی ۔ کہیں آپ نے گائے اور بچھڑے کی قربانی کی ،کہیں آپ نے اونٹ، بیل ، بھینس اور بکرے کو قربان کیا ۔ٹھیک ہے آپ نے ریاکاری سے بالاتر ہو کر اپنے قربانی کے جانوروں کو خالص اللہ کی رضا جوئی میں ذبح کیا ، چلئے ہم مان لیتے ہیں کہ آپ نے گوشت کھانے کیلئے نہیں بلکہ خالص اللہ کی محبت میں جانوروں کے حلقوم پر چھری چلائی ۔ آپ نے خلیل اللہ ابراہیم ؑ اور اسماعیل ذبیح اللہ ؑ کی محبت میں وارفتگی کے ساتھ سنت رسول ؐ کی اتباع میں یہ عمل بہ حسن وخوبی انجام دیا۔ اس سب کے باوجود کیا ہم اور آپ نے قربانی کے ابدی پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی؟ کیا قربانی کا پیغام صرف یہ تھا کہ تین روز تک لاکھوں اور کروڑوں جانوروں کو تہ تیغ کر دیا جائے اور بس تین دن تک خون کے دریا گھر گھر گلی گلی بہادئے جائیں اور پھر ہماری پوری زندگی قربانی اور ایثار سے ہی نا آشنا نہ رہے بلکہ مسجدیں ہماری فرض نمازوں کی ادائیگی کے لئے چشم براہ رہیں اور ہم انہیں کہیں اپنی صف میں دکھائی ہی نہ دیں؟ کیا دوست و احباب، ہمسایوں اور سمدھیوں کو گوشت کی رانیں تحفہ میں پیش کر نے کا نام ہی اسلامی قربانی ہے ؟ اگر ہمارا یہی شیوہ اور شعار ہے تو معاف کیجئے خود ہمارا قلب و ذہن قربانی کے عظیم مقاصد کے فہم وشعورسے خالی ہیں ۔اگر اسی بے ہنگم دوڑ دھوپ اور ریاکاری سے ہماری قربانی مراد ہے تو اللہ نہ کرے ایسی قربانی کا عنداللہ کیا وزن ہو گا، وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ یہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اور قومیں کوئی چڑھاوا اپنے معبود کے نام پر چڑھاتے ہیں اور اور ہم گوشت کو شکم میں انڈیل کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اللہ کا حکم بجا لایا،اس گوشت میں اگر کچھ بچ جائے تو اسے فریج کے اندر محفوظ کر کے فرض کر لیتے ہیں کہ اللہ ہم سے راضی ہوا ۔ کیا ہم اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ کی نیت ا پنے لاڈلے اسماعیلؑ کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کی تھی یا مینڈھے کوذبح کر دینے کا ارادہ تھا ؟ اصل ذبیح اسماعیل ؑ تھے اور یہ باپ اور بیٹے کی اللہ کے حضور اطاعت و فرماں برداری اور قربانی ٔ نفس کا لاثانی امتحان تھا، جو انہوں نے اپنی زندگی کے تمام مراحل میں دعوؤں اور نعروں کے ذریعے نہیں بلکہ عملی طور ہر قدم پیش کی تھی۔ اس عظیم مقصدنحر کو سامنے رکھئے تو اللہ کی اطاعت اور قربانی کا جذبہ بقر عید کے ساتھ ختم نہیں ہوگئی بلکہ زندگی کے ہر گوشے میں پورے سال ہمارے اور آپ کے ساتھ باقی رہنی چاہیے۔ دن بھر میں پانچ مرتبہ مؤذن کی صدا ہم سے اور آپ سے لگ بھگ نصف گھنٹہ عبادت میں قربان کرنے کا مطابہ کرے ، یہ آواز آپ سے ہر روز کہے گی کہ آپ اگر تاجر ہیں تو تھوڑی دیر کیلئے اپنے کام دھندے کو قربان کر کے مسجد کے اندر چلے آیئے، سڑکوں پر گزرتے ہوئے ایمبولینس کی سیٹی آپ سے گذارش کرے گی کہ تھوڑی دیر سڑک کے کنارے رُک کر اپنے وقت کی قربانی دے دیجئے تاکہ ایمبولینس میں پڑے مریض کی زندگی بچائی جاسکے، دسترخوان پر انواع و اقسام کے کھانے کے ساتھ آپ بیٹھے ہوں، عین اسی وقت دروازے پر سائل کی دستک آپ سے مطالبہ کرے گی کہ اپنی زبان کی لطف اندوزی اور شکم کی آسودگی کا سامان قربان کر کے سائل کو شکم سیر کر دیں، آپ اگر افسر ہیں تو رشوت لیتے وقت آپ کا ضمیر آپ سے مطالبہ کرے گا کہ اپنی تعیشات کی زندگی کو قربان کر کے بغیر رشوت کے حق اور میرٹ کی بنیاد پر اپنے فرائض للہ وفی اللہ نبھائیں ، آپ اگر اسکول کالج کے اساتذہ ہیں تو آرام و راحت کو قربان کر کے جہاں تک ممکن ہو طلبہ وطالبات کوتعلیم وتربیت سے لیس کیجئے اور خدمت کے نام پر ان کے بے جا استحصال سے گریز کریں،آپ اہل قلم ہیں تو حق کی خاطر اُن تحفہ تحائف اور مادی مفادات کو قربان کر دیں جو آپ کو باطل کی حمایت میں لکھنے پر آمادہ کر دیں، آپ اگر اہل مسند ہیں تو اس تمام نذرونیاز کو دُھتکاریئے جو آپ کو تملق باز یا چاپلوس یا روحانیت کا ٹھیکیداربنا دے، اگر آپ اہل ِاقتدار ہیں تو اس فریب خوردہ خواہش کو قربان کر دیں جو آپ کو اپنے ہم وطنوں یا غیروں پر ظلم و ستم پر آمادہ کر دے،آپ اگر کسی ادارے کے ملازم ہیں تو ہر اس ناجائز ضرورت کو قربان کر دیں جو آپ کو اوقاتِ فرائض میں چوری پر ابھارے۔ قربانی کا تہوار ہمیں یہی پیغام دیتا ہے کہ ہم خدا اور بندگانِ خدا کیلئے اپنے تن،من،دھن کی قربانی پیش کرکے ہمہ وقت ان کے لئے ہمدرد وغم گساربنیںرہیں ۔ اگر ہمیں اللہ نے دولت سے نوازا ہے تو ہم خدا کی رضا اور خوشنودی کے لئے اپنی حلال دولت کا کچھ حصہ بندگان خدا کیلئے بخوشی قربان کردیں تاکہ ان کے مسائل حل ہوں۔اگر ہمیں علم کی دولت عطا کی گئی تو ہم اپنے علم سے دوسروں کو فیض یاب کریں۔ غرض یہ کہ بقر عید اگرچہ اپنی تمام خیر و برکت کے ساتھ گزر چکی ہے ،تاہم زندگی کے تمام مراحل میں قربانی کا شریںعمل باقی وجاری ہے جو پورے سال بلکہ زندگی بھر ہر شکل میں جاری و ساری رہے گا۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم قربانی کو محدود پیمانہ پر سوچتے ہیں یا اس کی وسعتوں اور پہنائیوں کا فہم وادراک اپنی زندگی می روح میں پیوست کر تے ہیں ۔ شاعر مشرق، دانائے راز ، حکیم لامت ڈاکٹر اقبال نے ہماری دُکھتی رگ پر انگلی پر رکھ خوب فرمایا ہے ؎
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل ، وہ آرزوباقی نہیں ہے
نماز و روزہ قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
رابطہ :سرہامہ، بجبہاڈہ، اسلام آباد
9797052494))