ایک طویل عرصہ سے پریشانیوں اور مصیبتوں سے دوچار کرناہؔ کے عوام رواں ماہ( 14اگست )کا وہ قیامت خیز دن بھی نہیں بھلا سکتے ،جب کرناہ کے شمس بھری پہاڑی پر یکے بعد دیگرے بادل پھٹ جانے سے علاقے کو سیلاب نے گھیر لیااور 5دیہاتوں میں بڑے پیمانے تباہی مچاکرسب کچھ تلپٹ کرگیا۔اگرچہ ابھی سیلاب کی تباہ کاریاں بالکل نمایاں ہیں تاہم یہاں کے لوگوں نے پھر ایک بار نئی اُمید اور عزم کے ساتھ زندگی کو اپنے ڈگر پر لانے کیلئے اپنی حتی المقدور کوششیں شروع کر دی ہیں۔کرناہ میں سیلاب اور زلزلوں کی بھی اپنی ایک تاریخ رہی ہے۔ محض پچھلے تین عشروں پر ہی نظر ڈالیں توسال1992میں بھی اسی شمس بھری پہاڑی پر بادل پھٹ جانے کے باعث سیلابی صورت حال نے ٹنگڈار میں نہ صرف 100سے زاید دکانوں کا نام ونشان مٹا دیاتھا بلکہ سینکڑوں رہائشی مکانات کواپنی زد میں لاکربُری طرح متاثر کر نے کے ساتھ ساتھ زرعی اراضی کو بنجر میں تبدیل کردیا تھا۔ کرناہ کے لوگوں نے اپنے اجڑے ہوئے آشیانوں اور بگڑی ہوئی کام کاج کی صورت حال میں بھی ہمت نہیں ہاری اور زندگی کو نئے سرے سے پٹری پر لا نے ، سنوارنے و سجانے کے لئے کمرباندھ کر نئے عزم اور ولولے کے ساتھ اپنا کام کاج اور کاروباری سرگرمیاں شروع کردیں،ہمتِ مرداں مددخداکے آفاقی اصول کے تحت نئے مکان بننے لگے ، تعمیر وترقی کی راہیں ہموار ہوئیںاور زندگی اعتدال کے ساتھ چلنے لگی مگر بدقسمتی پھر آڑے آگئی اور یہ صور ت حال چند برس بعد ہی مانند پڑھ گئی کیونکہ 8اکتوبر 2005کے تباہ کن زلزلے میںجہاں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میںقریباً 80ہزار انسانی جانیں تلف ہوئیںاور بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا،وہیں اس زلزلے نے یہاں بھی بڑے پیمانے پر تباہی کاریاں کیں،جن کے زخم ابھی تک ترو تازہ ہیں۔اس زلزلے نے یہاںنہ صرف 311؍لوگوں کی زندگیاںچھین لیں بلکہ سینکڑوں رہائشی مکانات اور دکانات کو مٹی میںملاکر رکھ دیا ۔اسکول اور دوسرے نجی و سرکاری تعمیرات، ہسپتال کے ساتھ ساتھ پانی کی سکیمیں ،بجلی کانظام اور سڑک رابطے مکمل طورپر تباہ برباد ہوئے ۔اس زلزلے کی تباہ کاریوں میںیہاں کے 1800 لوگ بُری طرح زخمی ہوئے جن میں سے کئی لوگ اپاہچ ہوکر اپنے گھر والوں کے رحم وکرم پر زندہ ہیں اور بیشتر اپاہچ لوگ آج بھی کسمپرسی کی حالت میں بے یار ومدد گار ہیں ۔اُس وقت اگرچہ حکومت کی جانب سے ایسے لوگوں کو قلیل رقم فراہم کی گئی تھی لیکن اُن کی اور دوسرے زلزلہ متاثرین کی مکمل باز آبادکاری اور بحالی کے لئے ریاستی سرکار نے ا مداد فراہم کرنے کے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے وہ زیادہ تر سراب ہی ثابت ہوئے ،جس کے باعث کرناہ کے بیشتر لوگ زندگی کوبرقرار رکھنے کے لئے دیگر مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے کیونکہ زلزلہ متاثرین کوباز آباد کاری کے لئے سرکار کی طرف سے فی کس ایک لاکھ روپے کی جو امدادی رقم فراہم کی گئی وہ رقم تو انہیںتباہ شدہ مکانوں کا ملبہ اٹھانے پر ہی صرف ہوئی ۔ پھربھی کرناہ کے محنت کش لوگوں نے جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کا عزم کیا اور آہستہ آہستہ زندگی کو بحال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔سرکار کی جانب سے بھی اگرچہ کچھ بڑے منصوبوں پر کا م جاری رہا تاہم 14 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی بیشتر تعمیراتی کام ابھی بھی تشنہ تکمیل ہیں۔ کئی سکول ابھی بھی تعمیر کے منتظر ہیں ،اُن سکولوں کے بیڈ اور لینٹر لیول اگرچہ مکمل کر لی گئی ہیں تاہم ان پر تعمیراتی کام نہ ہونے سے وہ اب گائو خانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں اور بیشتر لوگ اُن سکولی عمارات کو اب بیت الخلاء کے بطور بھی استعمال کر رہے ہیں۔ سرکارتواتر کے ساتھ یہی حیلے بہانے بنا رہی ہے کہ اُس کے پاس سکولوں کی تعمیر کو مکمل کرنے کیلئے فنڈس ہی دستیاب نہیں ۔زلزلے میں تباہ شدہ سازبانی کنال بھی عرضہ دراز سے تشنہ تکمیل ہے، اُس کی مرمت کیلئے اگرچہ ابھی تک لاکھوں روپے خرچ کئے جا چکے ہیں ، اس کے باوجود بھی اُس سکیم سے لوگوں کے کھیت سیراب نہیںہو پا سکے ہیں ۔ زلزلے کے فوراً بعد جن ٹھکیداروں کو تعمیر وترقی کے کام سونپے گئے تھے اُنہیں ابھی تک واجب الادا پیسہ واگزار نہیں ہوسکا ہے ،کرناہ کے مکینوں کی بد قسمتی کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کے لوگ برسوں سے کنٹرول لائین پر ہونے والی گولہ باری سے شدید جانی اور مالی نقصانات سے دوچار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ سال1996سے لیکر 2000تک یہاں گولہ باری کی وجہ سے 50کے قریب لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیںاور100کے قریب زخمی۔ 200کے قریب مکانات شیل لگنے سے تباہ ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ وقفہ وقفہ کے بعد چلتا رہتا ہے۔ لوگ ابھی انہی مصیبتوں سے دوچار تھے کہ اچانک اُن پر ایک اور آفت آئی۔ 14؍اگست 2018ء کی دوپہر کو کرناہ کی شمس بھرہ پہاڑی پر پھر بادل پھٹ گئے، جس کے نتیجے میں نالہ بت موجی میں طغیانی آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے 5گائوں جن میں ٹنگڈار ، نہچیاں گومل ، ہاجی ناڑ باغ بالا میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ۔ 100کے قریب دکانیں تباہ ہوئی اور 5مکان مکمل طور پر زمین بوس ہو گئے، جبکہ ایک سو کے قریب مکانوں میںسیلابی پانیوں کے دخول سے شدید نقصان پہنچا ،7کلو میٹر لمبی سڑک ڈھہ جانے سے پانچ گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔ سیلاب کی وجہ سے ایک غیر مقامی شہری سمیت دو افراد لقمہ اجل بن گئے ،ہزاروں کنال زرعی اراضی بنجر بن گئی، پانی کی سکیموں کو نقصان ہوا جبکہ 33کے وی بجلی سپلائی بھی متاثر ہوئی۔ ہر سو افرتفری مچ گئی۔ خوش قسمتی سے ہلاکتوں کی تعداد اس لئے کم رہی کیونکہ لوگوں کو بروقت مواصلاتی نظام کے ذریعے جانکاری مل گئی تھی اور وہ محفوط مقامات کی طرف کوچ کرچکے تھے ۔ دکانیں منٹوں میں بند ہوئیں ،ا سکولوں کے اساتذہ نے زیر تعلیم بچوںو بچیوں کو پہاڑوں کے محفوظ مقامات پر پہنچایا تھا ،ہر سُوخوف وہشت کا ماحول تھا، سیلاب کی وجہ سے مواصلاتی نظام درہم برہم ہو کررہ گیا تھا جبکہ بجلی سپلائی بھی متاثر تھی۔انتظامیہ مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی تھی،کئی دنوں تک بچے سکول تک نہیں جا سکے ، انتظامیہ کی جانب سے نالے بت موجی کے پانی کو صحیح سمت میں موڑنے کیلئے مشینوں کا استعمال کیا گیا،انتظامیہ کی جانب سے اگرچہ مکینوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں ، پانی کی سپلائی کو بحال کی گئی ہے مگر کرناہ میں تباہی کے جو مناظر ابھی دکھائی دے رہے ہیںاُس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرناہ پھر ایک بار کتنا پیچھے چلا گیا ہے۔ کرناہ انتظامیہ نے علاقے میں لوگوں کو ہوئے مالی نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے 40ملازمین پر مشتمل 4ٹیمیں تشکیل دی ہیں جو نقصانا ت کا مکمل جائزہ لے کر انتظامیہ کو اپنی رپورٹ پیش کریں گی ۔ سیلاب آنے کی بڑی وجہ نالوں پر غیر قانونی تعمیرات بتائی جا رہی ہیں اور حق بات تو یہی ہے کہ کرناہ کے بیچوںبیچ بہنے والے نالہ بت موجی یعنی ( کھانا دینے والی ماں)جو علاقے کے ہزاروں کنال زرعی اراضی کو سیرا ب کرتی ہے اور اس نالے کے پانیوں سے ہی لوگ دھان کی فصل اور سبزیوں کی کباڑیاں تیار کرتے ہیں،اس پر سال2002کے بعد خود غرض عناصر نے بڑے پیمانے پر ناجائز و غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کھڑے کر کے اُس کو تباہ وبرباد کر دیا ہے جبکہ نالے سے ریت اور باجری بھی کرید کرید کر نکالی جاتی ہے اور یہ سب کام انتظامیہ کے عین ناک کے نیچے ہوتاچلا آ رہا ہے، کئی سال قبل ہائی کورٹ کی ہدایت پر کرناہ کے بیچوں بیچ بہنے والے اس نالہ بت موجی اور کاجی ناگ پر غیر قانونی تجاوزات و تعمیرات کو ہٹایا گیا تھا، ساتھ ہی پیڑوں کی کٹائی بھی کی گئی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پھر نالہ کی عظمت رفتہ کو تباہ و برباد کیا گیا ، جس کے نتیجہ میں اب معمولی بارشوں سے یہ نالہ سیلابی شکل اختیار کر لیتا ہے اور بذات خود اب نالہ لوگوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ جتنی جگہ اُس کی ہے اُس پر وہ کسی کوناجائز قبضہ کرکے راج تاج کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا ہے، اسی لئے سالہا سال سے وہ لوگوں کو اپنی غصے کا شکار بناتا رہتا ہے۔الغرض حالیہ سیلاب کی تباہی کے بعدسرکاری انتظامیہ بھی حرکت میں آئی ہے اور نالوں پر غیر قانونی تعمیرات ہٹائے جارہے ہیں لیکن اب یہ دیکھنا ہے کہ یہ مہم بھی پچھلی مہموں کی طرح ثابت ہوگی یا پھر کرناہ کو بچانے کیلئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے گا ۔سیلاب کے بعد انتظامیہ نے ٹنگڈار مین بازار میں 10کے قریب غیر قانونی تعمیرات تباہ کردئے اور یہ کارروائی آگے بھی جاری رہنے کی وارننگ دی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ نالوں کی شان رفتہ کو بحال کرنے کے لئے ان کی ڈریجنگ کے ساتھ ساتھ ان پر لگے پیڑ وں کو مسمار کیا جائے تاکہ آنے والے دنوں میں کرناہ کو ایسے سیلابوں سے بچایا جاسکے اور ساتھ ہی کرناہ کے سیلاب متاثرہ لوگوں کو مالی پیکیج دیا جائے تاکہ وہ پھر سے اپنے آشیانے بنا کر جسم وجان اور زندگی کو بحال کر سکیں ۔ سیلاب سے متاثرہ زیادہ تر دکانیں اُن نوجوانوں کی تھیں جنہوں نے نوکریاں نہ ملنے کے کارن بنکوں سے قرض لیکر کاروبار شروع کیا تھا،اس لئے سرکار کا یہ فرض بنتا ہے کہ ایسے لوگوں کی مالی معاونت کی جائے تاکہ مستقبل میں یہ لوگ پھر سے اپنا روزگار کمانے کے اہل بن سکیں۔سیلاب سے تباہ شدہ سڑکوں ،سکول عمارتوں کی مرمت کا کام بھی ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے اور زلزلوں اور سیلابوں سے محفوظ رہنے کیلئے جانکاری پروگرام بھی شروع کئے جائیں تاکہ آفات سمادی میں لوگ جانی نقصانات سے بچ سکیں ۔
مضمون نگار کشمیر عظمیٰ سے وابستہ ہیں
فون نمبر 9419333695