اسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا!!! بستی کوچھوڑ کر جہاں بھی رہے سکھ شانتی سے رہے ۔بے چاری بہت نیک بخت تھی ،جس کسی کے ساتھ بھی چلتی تھی اس کے نقائص وعیوب کا پردہ چاک ہونے نہیں دیتی ۔ اب آج کل کہیں نظر ہی آتی ۔ کہتے ہیں اس نے جنگلوں کی راہ لی، بیابانوں کو مسکن بنایا، تنہائیوں کو اختیار کیا کیونکہ بستی والوں میں کوئی اسے جائے پناہ دینے کو تیار نہیں ۔ اب اسے کوئی کھوجتا بھی نہیں ۔اس کی عدم موجودگی کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی جاچکی ہیں، لاتعداد تقریریں بھی کی جارہی ہیں ، لوگ باگ اس کی تعریفیں بھی کرتے ہیں ،یہاں تک کہ بہت سارے والدین اپنے بچوں کو گرزے زمانے کی اس مہ جبین کے متعلق ضرور کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔ ماشااللہ اس کی جاذبِ نظر ادا ئیں، خوبصورتی ، دل کشی ،خیرخواہی غرض یہ کہ اس میں کیا کچھ اچھا نہیں تھا۔ وہ ہر فن مولا تھی، وہ خصوصیات کا پیکر تھی ،اس کا ساتھ جو کوئی بھی دیتا، یہ اس کی لاج رکھتی اور ان کی ایسی پرورش اور تزئین کاری کر تی کہ سماج میں اُن کی الگ پہچان بنتی ۔ کوئی بری نظر والا اس کی غیرت کو کچلنے کی کتنی بھی کوشش کرتا توناکامی اور ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتا ،غلط کاروں کے داؤ پیچ دھرے کے دھرے رہ جاتےکہ اوروہ اپنی بازی ہار کے ہی رہ جاتا۔ اس کا انداز واسلوب ہی کچھ نرالا اور پُر اثر تھا ۔آج نوجوانوںکی اکثریت کے پاس شاید ہی اس حسین و جمیل وجودکے بارے میں کچھ معلومات ہوں۔ ان کا تو اس پری وش کے ساتھ کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا ، اوپر سے غلط تربیت اور اخلاقی بے راہ روی نے نئی پود کو اس پیکر حُسن سے غافل ہی رکھ چھوڑا ۔اگرجدید سماج کو اس کی اچھائیوں اور فوائدکے ساتھ تھوڑاسا بھی واسطہ پڑا ہوتا تووہ دنیا کی ہر چیز پر بھاری اس انمول صفت کو اپنی زندگی سے بے دخل نہ کر تےاور سارا زمانہ بھی بلاسوچے سمجھے یوں ہی اس کا دشمن نہ بنا ہوتا ۔ جب زمانہ گناہ اور آلودگیوں میں لت پت تھا تو یہ اکیلی جان تھی جو ان کے ساتھ دودوہاتھ لڑی ۔ اس لڑائی میں ہر نخوست زدہ فرد اور گھر انہ اس کے خلاف مورچہ بنتا گیا ، شادی غمی کی ہر تقریب میں اسے دھتکاراجاتا رہا ، ہراخبار میں اس کے خلاف رائے عامہ صفحہ ٔ اول و اخیرپر دکھایا جاتا رہا،اس بچاری کو کہاں کہاں بدنام نہ کیا گیا ،صابن کے coverسے لے کرشمپو،ملبوسات ، کچن کے سامان تک غرض ہر چھوٹی سی چھوٹی چیز سے بڑی سی بڑی چیز تک اس کے خلاف برہمی و بیزاری کا پرچم بنتی رہی، حد تو یہ ہے کہ بڑے بڑے مالوں میں اس کو لتاڑنے کے لئے دن دھاڑے اس کی مخالفت میں قد آدم اشتہارات آویزان کئے گئے ، اس بے چاری کی توہین ملک کے کونے کونے گوشے گوشے میں کی گئی ،لیکن وہ بھی آہنی عزائم والی تھی، کسی سے ڈری نہ سہمی ۔ اپنے اچھے خاندانی پس منظر اور نیک تربیت کے بل پر وہ مردانہ وار تن تنہا مقابلہ کر تی رہی ۔اس بدترین جنگ میںعفت نے بھی اس کا ساتھ دیا اور حمیت نے بھی ۔ عفت اس کی ایک اور بہن کا نام ہے اور حمیت اس کا بہادر بھائی ہے۔ یہ نام انہیں اپنے اہل خانہ نے بڑے چاؤ سے دئے تاکہ یہ زمانے کو اپنے وجود سےمزین کر کے اپنی عظمت کا لوہا منوائیں ۔ لاج شرم کے ساتھ ساتھ عفت اورحمیت کو بھی لوگوں نے کافی دکھ دئے مگر وہ ڈٹ کر نامساعدحالات کا مقابلہ کر تے رہے ۔ بد عمل لوگوں نے اس اچھے خانوادے کا نام بھی بگاڑ کے رکھ دیا اور حلیہ بھی ۔اس کے انگ انگ پر کس کس نے ظلم کی داستان رقم نہیں کی ؟ کبھی یہ کسی نام نہادقانون کی بھینٹ چڑھی، کبھی کسی ایوان نے اسے رسوا کیا، کبھی کسی جرگے کے ہاتھوں پامال ہوئی ، کبھی بدلے کی آگ میں جلا دی گی ،کبھی کالج کے مخلوط نظام تعلیم کے ہتھے چڑھی، کبھی یونیورسٹیوں نے اس کے خلاف مہم چلائی ، کبھی کلچرل محفلوں میں اس کا سر شرم سے جھکادیا گیا، گاؤں گاؤں نگر نگر ، ہربازار ، ہر دربار،ہر جگہ، ہر وقت اس کے لئے مصیبت کی کوئی نہ کوئی مشکل کھڑ ی کی گئی مگر شکر ہے کہ اس نے بے جگری سے حالات کا مقابلہ جاری رکھا ۔ کچھ دن پہلے جب ہم سب عید قربان کی خوشیاں منانے میں مگن تھے ، ہر ایک زندہ ضمیر ،با غیرت اور دردمند دل روتا تھا کیونکہ ان سب کی آنکھیں تماشوں کی بھیڑمیں اس بیش قیمت چیز کی تلاش میں تھیں لیکن یہ دور دور بھی کہیں نظر نہیں آتی تھی ۔ ہرروشن ضمیر باپ، ماں، بیٹی، جوان سے شناساؤں سے پوچھتے تھے کہیں آپ نے لاج شرم کو دیکھا ؟لیکن کسی ایک بھی فردبشر سے اس کا اَتہ پتہ معلوم نہ ہوا ۔شاید یہ کم نصیب سب سے الگ تھلگ گوشہ نشینی اختیار کئے ہوئی ہماری اجتماعی بےغیرتی پر نم دیدہ تھی ۔ افسوس کہ پوری انسانی دنیا نے اس سے منہ موڑا ہے ، حالانکہ لاج شرم ہماری اکیلی غمخوار ہے کوئی اور نہیں ۔ کسی منچلے شاعر نے راہ چلتی بے پردہ لڑکیوں سے دنیا میں لاج شرم غائب ہونے کی وجہ جاننے کے لئےپوچھا:بیٹا! آپ کا پردہ کیا ہوا ؟ جواب ملا:جناب وہ ہماری والدین کی آنکھوں اور عقلوں پرپڑگیا !! شاعر نے ایک اورنوجوان سے پوچھا: بیٹا ! تمہیںلاج شرم کا پتہ ٹھکانہ معلوم ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ، وہ مولوی صاحب کی کتاب ِ وعظ میں رہتی ہے۔ ایک بزرگ سے یہی سوال کیا تواس نے بگڑ کر کہا : کیا پتہ کہاں مر گئی وہ منحوس، اچھا ہو ا فناکے گھاٹ اُترگئی ۔ ہماری اولاد یںاس کے ساتھ چلیں تو دقیانوسی کہلائیں گی ، ترقی کے میدان میں پیچھے رہیںگی، نئی تہذیب کی ہواؤں سے ناآشنا رہیں گی ۔ اور ہاں،اگر لاج شرم نے پھر بستی کا رُخ کیا تو ہم لٹھ لے کر اسے مار بھگائیں گے ۔ ہم نے سوچ سمجھ کر فیشن پرستی اوربے حیائی کا ساتھ دینے کا حلف اُٹھا یا ہے، اب شرم و حیا سے کیا سرکار ، وہ جہاں چا ہے مرجائے ہماری بلا سے !!!
…………………
رابطہ متعلم جامعہ باب العلم اورینٹل کالج۔۔۔ میرگنڈ بڈگام
فون نمبر7889881890