ان حالات میں چیچنیا سے تعلق رکھنے والے افراد کی موت سے روس میں کسی ردعمل کا امکان انتہائی کم ہے،اس دوران پوٹن کی جانب سے کچھ غیر متوقع بیانات بھی دیے گئے، مارچ۲۰۱۶ اور دسمبر۲۰۱۷ میں پوٹن نے جزوی طور پرشام سے فوجی انخلا کااعلان کیا۔ یہ بیانات روس اور اسد حکومت کے تعلقات کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں، اس سے امریکا کے ساتھ معاہدے کی صورت میں روس کی جانب سے اسد کوتنہاچھوڑنے کے لیے آمادگی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ا س طرح کے بیانات کامقصداسد حکومت پر اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالنا بھی تھاتاکہ کسی صلح سمجھوتے پر پہنچا جاسکے۔پال سلیم کے مطابق ایران کی مدد سے میدان جنگ میں پیش قدمی کے بعد رو س اسد حکومت کی بقا کی ضمانت بن گیا ہے، اسد حکومت پرشامی اپوزیشن کو کوئی بڑی رعایت دینے کا دباؤ ختم ہوچکا ہے، اس کے لیے وہ اب روس کی ناراضی اور غصے کو بھی برداشت کرسکتی ہے۔ ان حالات میں روس سے اسد حکومت کو نظراندازکرکے اپنے مفادات کے مطابق کام کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔روسی بیرون ملک طویل جنگ لڑنے سے خوفزدہ ہیں، اس خوف کو کم کرنے کے لیے پوٹن نے فوجی انخلا کااعلان کیا،اس اعلان کے حوالے سے کئی مبصرین کاکہنا ہے کہ’’بغیر کسی واضح فتح کے شام سے فوجیں نکالنا ظاہر کرتاہے کہ کریملین شام کی خانہ جنگی میں روس کے لیے موجود خطرات کو سمجھتا ہے،یہ صرف اپنی ساکھ بچانے کی ایک کوشش ہے، ویسے بھی روس کا شام سے کوئی بڑا مفاد وابستہ نہیں ہے‘‘۔
تیسرا مرحلہ ۲۰۱۸:ء
روس اور ترکی تعلقات کی بحالی بظاہر پوٹن کی بڑی کامیابی نظر آتی ہے۔نومبر۲۰۱۵ء میں ترک فضائیہ کی جانب سے روسی طیارہ مار گرائے جانے کے بعد روس اورترکی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔روس نے تیزی کے ساتھ ترکی سے مضبوط تعلقات قائم کرکے نیٹو ممبران کو تقسیم کرنے کی اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا،ترک صدر کے آمرانہ رویے کے خلاف تشویش کے اظہار پرطیب ایردوان نے مغرب کے خلاف سخت زبان استعمال کی۔مبصرین نے پوٹن اور ایردوان کی دوستی کی ظاہری چمک کے ساتھ ان کے شام میں ٹیکٹکل نوعیت کے اتحاد کی جانب اشارہ کیا ہے۔سال۲۰۱۸ء کا آغازبدقسمتی سے ترکی اور روس اتحاد کے ساتھ ہوا،جنوری میں انقرانے شام کے شہر آفرین میں کردملیشیا کے خلاف جارحانہ آپریشن کیا،جس کے نتیجے میں امریکا نے علاقے میں کردوں کی امداد بند کردی۔ ایران اور روس یقینی طور پر کردعلاقے میں ترک فوج کی کارروائی سے پریشان ہوں گے،خاص طور پر جب انقرا واضح کرچکا ہے کہ اسے آفرین شامی حکومت کے حوالے کرنے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔اس حوالے سے ایردوان نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے بیان کا سخت جواب دیا، ان کا کہنا تھا کہ’’جب وقت آئے گا تو ہم آفرین کو آفرین کے عوام کے حوالے کردیں گے،مگر وہ وقت کب آئے گا،اس کا تعین ہم کریں گے، سرگئی لاروف نہیں‘‘۔ اپریل میں جب اسد حکومت نے دوما شہر میں باغیوں کے خلاف مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے اور اس کے جواب میں امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شام میں حملے کیے،تو ترکی نے مغرب یا روس کا ساتھ دینے کے بجائے فریقین سے تحمل سے کام لینے کا مطالبہ کیا۔ حملے کے حوالے سے انقرا کا ردعمل ماسکو سے بالکل مختلف تھا،پوٹن نے امریکا اوراتحادیوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے جارحیت قرار دے دیا۔ ایک ایسے ملک پر حملے کی روس نے انتہائی سخت مذمت کی،جہاں روسی فوجی قانونی طور پر قائم حکومت کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں مدد کررہے ہوں۔کردوں کے معاملے پر ترکی اور روس کے دبے ہوئے اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ مغرب نے بھی غیر متوقع طور پر اسد حکومت کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی۔ روس کے لیے اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ بظاہر نظر نہیں آتا۔اگر اسد حکومت ختم ہوجائے توبھی روس کے لیے نکلنا آسان نہیں،بشارالاسد کا متبادل بھی ایران کے زیر اثر اورترکی کے لیے تھوڑا بہت قابل قبول ہوگا۔ روس کے زیرانتظام سوچی مذاکرات میں اب تک بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔شام میں امن یا روسی مفادات میں سے ایک کو چننا ہوگا، کردوں کے حوالے سے پالیسی نے انقرا اور ماسکوکو تقسیم کردیاہے۔ دیگر باتوں کے علاوہ کرد علیحدگی پسندترکی کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں اورماسکو کردوں کی حمایت بند کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ایسا کرنے سے روس سودے بازی کے اہم کارڈ سے محروم ہوجائے گا۔حالیہ دنوں میں اسرائیل اور روس کے تعلقات کافی اچھے ہیں،اگر روس شام میں مسلسل موجود رہتا ہے تو دونوں ممالک میں اختلافات کا امکان ہے،کیونکہ روس شام میں ایران کی زمینی فوج پر انحصار کرتا ہے، جب کہ اسرائیل اپنے پڑوس میں ایران کی موجودگی کا شدید ترین مخالف ہے۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح بھی ایران کو شام سے باہر نکالا جائے۔ روس ہمیشہ کے لیے اس لڑائی سے گریز نہیں کرسکتا، ایران کا ساتھ دینے سے اسرائیل تنہائی محسوس کرے گا جوروس کے طویل مدتی مفادات کے خلاف ہے۔اسرائیل روس کے لیے کئی مفید کردار ادا کرسکتا ہے، اسرائیل روس اور مغرب کے درمیان تعلقات بحال کرا سکتا ہے، جدید ٹیکنالوجی تک رسائی فراہم کر سکتاہے۔شام کے تنازعے کی غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر ماسکو عالمی تنہائی کا شکار ایران سے وابستہ مشکوک مفادات کے لیے اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے سے انکار کررہا ہے۔ شام میں موجود ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیل کے حملے، روس اور اسرائیل کے درمیان خاموش معاہدے کو نقصان پہنچا ر ہے ہیں۔ عام طور پر شام میں موجود ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیل کے حملوں پر روس آنکھیں بند کرلیا کرتا تھا، مگر اپریل میں خبروں کے مطابق روسی وزیر خارجہ نے اچانک ہی اسرائیلی حملوں کو انتہائی خطرناک عمل قراردے دیا۔اسرائیل کے نزدیک بھی روس نے ایران اور اس کی ملیشیا کو قابو کرنے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔
شام کے میدان جنگ نے امریکا کوموقع فراہم کیا ہے کہ وہ پوٹن کو عالمی اور علاقائی سطح پر ذلیل کرےاور اس میں کوئی خطرہ بھی نہیں ہے،مشرق وسطیٰ میں طاقت کا مظاہرہ کرکے روس نے خود کو امریکا کے لیے آسان ہدف بنالیا ہے۔ اس بات کا اظہاراپریل میں امریکا اور اتحادیوں کے میزائل اور فضائی حملوں کے دوران بہت واضح طور پر ہوا، جب روسی حکام نے امریکی میزائل مارگرانے کا اشارہ دیا مگرآخر میں بشارالاسد کی حکومت کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا۔کچھ روسی حکام نے تو بہت ہی آگے بڑھ کر دعویٰ کیا کہ’’روس امریکا کے خلاف جوابی فوجی کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گا،یہاں تک کے امریکی فوجیوں پر حملہ بھی کیا جاسکتا ہے‘‘۔ مگر امریکا اور اتحادیوں کے حملے کے وقت تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا،جس کے دو وجوہات ہیں، پہلی یہ کہ امریکا نے ماسکو کے خلاف سخت فوجی اور غیر فوجی کارروائی کرنے کا قابل اعتبار اشارہ دیاتھا اوردوسری وجہ یہ کہ شام کی جنگ میں روس کے حوصلے پست ہوچکے ہیں۔ فروری میں روس کی ویگنر آرمی کو امریکی حملے میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا،اس حملے کی تفصیلات تو سامنے نہیں آسکیں مگرمختلف خبروں کے مطابق سو روسی فوجی مارے گئے اور دوسو زخمی ہوئے۔۲۷اپریل کو صدر ٹرمپ کے نامزد کردہ وزیر خارجہ مائک پومپیو نے تصدیق کی کہ رواں سال کے آغاز میں امریکی فوجی کارروائی میں سو یا دوسو روسی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس حوالے سے مزید تفصیلات تودستیاب نہیں مگر اس بات کا کافی امکان ہے کہ پومپیو کا اشارہ فروری میں ہونے والے روسی اور امریکی فوجی تصادم کی طرف تھا۔ امریکی فوج بغیر کسی نقصان کے میدان جنگ سے لوٹی تھی، یہ تصادم روسی فوج کے لیے کوئی نیک شگون نہیں تھا۔ہوسکتا ہے کہ جب روسی جنرلز امریکا، برطانیہ اور فرانس کی فضائی کارروائی کا جواب دینے پر غور کررہے ہوں تو فروری کی شکست نے ان کے اندازوں کو بری طرح غلط ثابت کردیاہو۔ مغرب کی عسکری طاقت اس کی معاشی طاقت کے ساتھ مل کر مکمل ہوتی ہے۔ اپریل کے آغاز میں جب امریکا نے روسی حکام اور کمپنیوں پر پابندی کا اعلان کیا تو روسی اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی بری طرح نیچے آگئی۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ شام میں روس کا مغربی طاقتوں کے ساتھ دشمنی کا اظہار اس کی اسٹاک مارکیٹ اور معیشت کو بری طرح متاثر کرے گا۔
شام میں جنگ لڑنے کے لیے روس کے حوصلے کبھی بھی بلند نہیں تھے،روس نے فوج میں جبری بھرتی کیے گئے فوجیوں کو شام بھیجنے کے بجائے نجی ملیشیا اور کنٹریکٹ اہلکاروں کو بھیج دیا، تاکہ اندرون ملک تنقید سے بچا جاسکے۔ماسکو شام میں جانی نقصان کو چھپانے کے معاملے میں انتہائی حساس ہے، کیونکہ وہ اس کے ردعمل سے خوفزدہ ہے۔شام میں فوجی کارروائی کے حوالے سے کیے گئے لیواڈا سینٹر کے ایک سروے کے مطابق۴۹ فیصد روسی شام میں مہم جوئی کا خاتمہ چاہتے ہیں،جب کہ۳۲ فیصد یہ جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ سروے۲۰۱۷ء کی گرمیوں میں کیاگیاتھا۔ شام میں روس ایران اتحاد ایران کے لیے کافی فائدہ مند رہا ہے،ایک کمزور اتحادی کی حیثیت میں ایران شام میں فوجی کارروائی کرسکتا ہے مگر باقی سیاسی معاملات روس اور مغرب پر چھوڑ دیے ہیں۔روسی مہم جوئی کے خلاف مغرب کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے ماسکو کومغربی پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگا اورنقصان بھی برداشت کرنا ہوگا۔شام میں روسی آپریشن کے لیے ایرانی فوج زمینی مدد فراہم کرتی ہے،مگر وہ طویل عرصے تک ماسکو کو سہولت فراہم کرنے کے پابند نہیں۔روسی جنرلز ایرانی اہلکاروں کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کررہے ہیں توایرانی جنرلز کو بھی اندازہ ہے کہ روس کی فضائی مدد ایک ڈھال کا کام کرتی ہے،جس سے انہیں آپریشن میں آسانی ہوتی ہے، کیونکہ ایرانی جغرافیائی اور ثقافتی طور پرجنگ زدہ علاقے سے قریب ہیں اور ان کے حوصلے بلند ہیں،اس لیے ایران کو اس اتحاد سے روس کے مقابلے میں زیادہ فائدہ ملنے کا امکان ہے۔روس ایران کی مدد کرنے سے انکار نہیں کرسکتا، کیونکہ پھرروس کو شام میں اپنی زمینی افواج بڑے پیمانے پر تعینات کرنے کی ضرورت ہوگی،جس کے علاقائی اور عالمی اثرات غیر واضح ہیں۔ ویسے بھی شام میں روس کو ایران سے اتحاد کا ایک ہی فائدہ ہے اور وہ ہے ’’ایران کی افرادی قوت‘‘ کا استعمال کرنا،باقی توصرف نقصان ہے۔ایرانی نقطہ نظر سے بہتر نتائج کے لیے شام میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں ممکن ہوں لسانی اور مذہبی توازن کو اپنے حق میں تبدیل کرنا ہوگا۔ شام کے تنازعے کے بہتر حل کے لیے روس شاید ہی ایک آزاد نقطہ نظر رکھتا ہے،ماسکو کی جانب سے ساحل پر روسیوں کو بسانے کے منصوبے کا امکان نہیں،ایسے کسی منصوبے کے خلاف مقامی آبادی اور ان کے رہنما متحد ہو جائیں گے۔ مغرب سے کسی سمجھوتے کے نتیجے میں روس کاشام سے انخلا کا امکان سال۲۰۱۵ء میں تھا، جب روسی مداخلت کاآغاز ہی ہوا تھا، اب توشاید اس بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ ماسکو اور مغربی ممالک کے درمیان بد اعتمادی کے موجودہ حالات میں بات چیت کا نتیجہ خیز ثابت ہونا بہت مشکل ہے۔اپنی فوج پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر اور اپنے اہم پتے کھیل کر روس نے خود کو کمزور کرلیا ہے۔
اختتامیہ
دنیا بھر میں مشہور ہے کہ جب کوئی حکمران بیرون ملک جنگ ہار جاتا ہے تو اسے اپنے ملک میں بغاوت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر روس شام سے باہر آجاتا ہے تو ایران اور شام مغربی اور مخالف مسلک والے اکثریتی ممالک کے دباؤ کے سامنے کھڑے نہیں رہ سکتے۔ پوٹن کے لیے شام کوکھو دینے کا مطلب جنگ میں شکست ہے، جس کے اثرات ان کے اقتدار میں رہنے کے امکانات پر بھی پڑیں گے۔ شام میں موجود رہنا روس کو سنگین خطرات میں ڈالتا ہے، ماسکو اسرائیل اور ایران کے درمیان کسی چھڑپ میں پھنس سکتا ہے۔ روس، ایران اور ترکی جیسے اتحادیوں سے اپنے مفادات کا دفاع کرتے ہوئے تنازعے کومزید بڑھا سکتاہے۔ خطے میں روسی مفادکے مطابق شام کے تنازعے کا کوئی بھی حل غیر واضح ہے۔اگر چہ روس اپنے اتحادیوں میں سب سے طاقتور ہے مگر شام میں جنگ کے اختتام کے بعد ماسکو کے کمزور اتحادی طاقتور حریف بن کر ابھریں گے۔ ( ختم شد)