سال 1975میں اُس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی جانب سے لگائی گئی ایمرجنسی اُن کے سیاسی مخالفین پر قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔ بغیر کسی جرم کے گرفتار کئے جانے والے ان مخالف سیاست دانوں میں اٹل بہاری واجپائی بھی شامل تھے۔ لہٰذا اُنہیں ’’نقص امن‘‘ کے خطرے کے تحت اُنیس مہینے جنوبی ہند کے شہر بنگالورو کے مرکزی جیل میں گزارنے پڑے۔ ا پنی اسیری کے دوران ان کی ملاقات ایک نوجوان کشمیری حریت پسند سے ہوئی۔ کشمیر سے متعلق معاملات پر واجپائی کا اس حریت پسند سے تبادلہ ٔ خیال ہوا اور ایک روز اُنہوں نے اُس نوجوان سے وعدہ کیا کہ اگر کبھی وقت نے اُنہیں اختیار دیا تو وہ مسئلہ کشمیر کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کے لئے بھرپورکوشش کر ڈالیں گے۔ وقت گزرتا رہا اور واجپائی ایک سے زیادہ بار مختصر عرصے کے لئے اقتدار میں آئے۔ وہ اپنے ان قلیل مدّتی ادوارمیں نہ صرف کشمیر کے معاملے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہے بلکہ ان کی تقاریر وبیانات سے کبھی مذکورہ حریت پسند کوشائبہ بھی نہ ہوا کہ یہ وہی آدمی ہیں جنہوں نے اسیری کے دوران مجھ سے کوئی وعدہ کیاتھا۔
سال 1999میں اٹل بہاری واجپائی تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد بھی اگرچہ ابتدائی چند برسوں تک معاملات جوں کے توں رہے لیکن ایک روز کسی نیوز چینل پر واجپائی سے بنگالورو جیل میں ملاقات کرنے والا کوئی حریت پسند مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرتا ہوا نظر آیا۔ اب وہ ایک اَدھیڑ عمر آدمی تھا اور وہ انتہائی مایوسی کے عالم میں کہہ رہا تھا کہ اٹل بہاری واجپائی کا کیا ہوا وعدہ محض ایک جھوٹ تھا۔ عجیب اتفاق ہوا کہ اُس ٹی وی شو میں اُس ناراض شخص کے نظر آنے کے چند ماہ بعد ہی اٹل بہاری واجپائی نے ثابت کردیا کہ ان کا برسوں پرانا وعدہ جھوٹ نہیں تھا۔ اگرچہ وہ مسئلہ کشمیر اپنی زندگی میں حل نہیں کرسکے لیکن جنوری 2004میں ان کی پاکستان آمد کے بعد دنیا بھر کے سیاسی وسفارتی حلقوں میں سمجھا جارہا تھا کہ اَب دونوں ملکوں کے درمیان معاملات ایک نئی اور مثبت صورت اختیار کررہے ہیں۔
پاکستان اور کشمیر سے متعلق معاملات پر واجپائی کا اصل منصوبہ کیا تھا؟ یہ سوال شاید دونوں ملکوں کے سیاسی حلقوں میں بدستور ایک معمہ سمجھا جاتا ر ہے گا لیکن سچ یہ ہے کہ ان کی زندگی کے چند ناقابل فہم معاملات کی طرح پاکستان سے بہتر تعلقات کی خواہش بھی بہت سوں کے لئے اسی طرح بھول بھلیوں جیسی کوئی بات ہے،جیسے اُن کا آبائی تعلق اترپردیش سے تھا لیکن پیدائش مدھیہ پردیش کے شہر گوالیار میں ہوئی۔ ان کا سیاسی رویہ روز اول سے انقلابیوں جیسا تھا ، بائیں بازو کی ایک سیاسی تنظیم سے وابستہ بھی ہو گئے اور ابتدائی برسوں میں نظریاتی طور پر کمیونزم کے حامی رہے لیکن عملی سیاست کی بنیادی تربیت انتہا پسند سیاست دانوں سے حاصل کی۔ وہ کسی ایک بھی لمحے بی جے پی کے سیاسی کردار سے منحرف نہیں ہوئے لیکن مذہب، ذات اور رنگ و نسل کے معاملات میں اُن کی رواداری اس خطے کے اَن گنت آزاد خیالوں کے لئے ایک نا قابل یقین حقیقت ہے۔
اُنہوں نے نو عمری ہی میں تحریک آزادیٔ ہند کے دوران انگریزوں کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک میں حصہ لیا، البتہ جب اپنے بڑے بھائی کے ساتھ گرفتار ہوئے تو رہائی پانے کے لئے جمع کرائے گئے حلف نامے میں درج تھا کہ وہ ریلی میں شریک ضرور تھے لیکن ہنگامہ آرائی میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لئے ان پر 1992میں بابری مسجد پر حملے کے لئے ماحول سازی کا الزام یقیناً ایک سنگین اور وضاحت طلب معاملہ رہا ہےلیکن یہاں بھی اُنہوں نے دو بار پاکستان آکر تمام ناراض حلقوں کو اگر مطمئن نہیں تو حیران ضرور کر ڈالا تھا۔ واجپائی بغیر کسی جرم کے صرف کانگریس کی مخالفت کے سبب اُنیس ماہ تک جیل کاٹتے ہیں لیکن اَپنے دوراقتدار میں ایک بار جواہر لال نہرو کی تصویر ہٹا دینے پر انتہائی غیر متوقع طور پر ناراضی کا اظہار کردیتے ہیں۔ وہ بہت سوں کے لئے بلاشبہ ایک معمہ ہیں لیکن شاید اُن کی زندگی سے متعلق مذکورہ حقائق کو تضادات کا تسلسل قرار دینے کے بجائے انہیں اُن کے شاعرانہ مزاج اور تنوع سے تعبیر کرلیا جائے تو یہ فکری معمہ کسی حد تک حل ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں ایک رائے یہ ہے کہ جنرل مشرف اور واجپائی مسئلہ کشمیر مستقل طور پر حل کرنے کے انتہائی قریب پہنچ چکے تھے لیکن بات بنتے بنتے بگڑ سی گئی۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ پاکستان کی جانب سے ایک فوجی حکمران اور ہندوستان کی جانب سے انتہا پسند بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے دور میں چالیس برسوں بعد کھوکھرا پار۔ مونا بائو ریلوے سروس کی بحالی اور سری نگر۔ مظفر آباد بس سروس شروع کرنے کے ناقابل یقین فیصلے لئے گئے۔ شاید اسی لئے آج بھی کم از کم پاکستان میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سال 2004میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام تر تنازعات حل کئے جاسکتے تھے۔ اُس وقت پاکستان کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب "Neither a Hawk Nor a Dove"میں سال 1999سے لے کر 2004تک دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت اور کشیدگی میں اتار چڑھائو پر تفصیلی بحث کی ہے۔ خاص طور پر کتاب کے دوسرے سیکشن (Section II) میں سابق وزیر خارجہ نے 1998میں پہلی بار اٹل بہاری واجپائی کی آمد، کارگل تنازعہ، بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر حملے، بین الاقوامی سرحدوں پر کم و بیش دس ماہ طویل عسکری تنائو، آگرہ سمٹ اور واجپائی کی دوسری بار پاکستان آمد سے متعلق واقعات کو جامع طریقے سے بیان کیا ہے۔ خورشید محمود قصوری مذکورہ حقائق کے تناظرمیں واجپائی کے کردار کو سراہتے رہے ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’’ماضی کی طرح 2004میں بھی سابق بھارتی وزیراعظم اٹل جی کے بھرپور تعاون کے باوجود چند اتفاقات اور سیاسی حادثات مذاکرات کے راستے میں دیو ار بن گئے۔‘‘ ان میں واجپائی کی اپنی گرتی ہوئی صحت اور بی جے پی کی قیادت سے متعلق مسائل، پارٹی پر انتہا پسند حلقوں کا دبائو اور ایل کے ایڈوانی کے اثرورسوخ سمیت دیگر مسائل قابل ذکر ہیں۔ بابری مسجد کے واقعے میں واجپائی کے مبینہ کردار پر خورشید قصوری کہہ گئے ہیں ’’بحیثیت وزیر خارجہ میرے لئے واجپائی کا دوستانہ رویہ زیادہ اہم تھا۔‘‘
کم و بیش اسی دور میں ایک بار موجودہ وزیراعظم عمران خان سے ایک انٹرویو میں مذکورہ پیش رفتوں سے متعلق چند سوالات کئے تھے جن پر عمران خان کا موقف اُس وقت بھی انتہائی واضح تھا۔ ان کے خیال میں اُن چند برسوں میں ہونے والی پیش رفتیں انتہائی مثبت تھیں اور وہ اُس وقت بھی ہندوستان سے بہتر اور برابری کے تعلقات کے خواہشمند تھے۔ ایک جانب خورشید قصوری اپنی کتاب میں دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں پر بہت زور دیتے ہیں جب کہ دوسری جانب موجودہ وزیراعظم روز اوّل سے اُن تمام دوطرفہ رابطوں کی حوصلہ افزائی کرتے آرہے ہیں جو، میری یادانست میں قیام امن کے لئے پاکستان کی کوششوں اور بظاہر اٹل بہاری واجپائی کے مستقل تعاون کا نتیجہ تھے ۔