ریاست کے دور افتادہ علاقوں میں قائم سرکاری سکولوں میں تدریسی عملے کی قلت نے پریشان کن صورتحال پیدا کردی ہے اور طلاب کا غم وغصہ اس حد تک پہنچ چکاہے کہ انہوں نے بطور احتجاج سکولوں کو ہی مقفل کرنا شروع کردیاہے ۔حالیہ کچھ دنوں کے دوران متعدد ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں طلبا اورمقامی لوگوں نے محکمہ تعلیم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سکولوں کو مقفل کیاہو۔یہ سلسلہ گزشتہ ہفتے راجوری کے کالاکوٹ کے ہائی سکول متھیانی سے شروع ہواجہاں طلاب کے مطابق انہیں پڑھانے کیلئے محض چھ اساتذہ تعینات ہیں جس کے بعد پونچھ کے چھمبر کناری منڈی کے ہائی سکول میں بھی طلاب نے بطور احتجاج ادارے کو مقفل کردیا ۔چھمبر کناری کے اس ہائی سکول میں تو محکمہ تعلیم کا خدا ہی حافظ ہے جہاں صرف چار اساتذہ تعینات ہیں جن کے بارے میںبھی سکول میں حاضر نہ رہنے کی شکایات ہیں ۔اسی طرح سے راجوری کے چٹیار علاقے میں بھی ایک ہائی سکول کے باہر احتجاج کرتے ہوئے طلباء و مقامی لوگوں نے الزام عائد کیاکہ حکام تدریسی عملے کی فراہمی میں ناکام ہوگئے ہیں ۔راجوری کے ہی پلمہ علاقے میں بھی اسی طرح کا احتجاج کیاگیا جہاں کا حال یہ ہے کہ حکام نے کئی ماہ قبل ہائی سکول پلمہ کو ہائر اسکینڈری سکول کادرجہ دینے کا حکمنامہ تو جاری کردیاتاہم نہ ہی آج تک تدریسی عملے کی تعیناتی عمل میں لائی گئی اور نہ ہی رواں تعلیمی سیشن میں گیارہویں اور بارہویں جماعت میں طلاب کو داخلے کی اجازت دی جارہی ہے ۔یہ صورتحال صرف راجوری یا پونچھ اضلاع کی ہی نہیں ہے بلکہ ریاست کے متعدد دور دراز اضلاع کا یہی حال ہے جہاں ہر جگہ تدریسی عملے کی قلت کاسامناہے ۔ یہ عام طور پر دیکھاجاتاہے کہ سرکار کی طرف سے سکولوں کے درجے بڑھانے کا اعلان تو کردیاجاتاہے مگر ان اداروں میں درکار اسامیوں کوپُر نہیں کیاجاتاجس کے باعث سکول قائم کرنے کا مقصد ہی فوت ہوجاتاہے ۔ایسا بھی ہرگز نہیں ہے کہ محکمہ تعلیم کے پاس اساتذہ کی اتنی زیادہ قلت پائی جارہی ہے جتنی زمینی سطح پر نظر آتی ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اچھی خاصی تعداد میں اساتذہ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ انہیں یاتو اپنے گھر کے نزدیک ترین سکول میں تعینات رکھاجائے یاپھر کسی شہری علاقے میں خدمات انجام دینے کا موقعہ فراہم کیاجائے ،جس کی وجہ سے دور دراز علاقوں میں ٹیچروں کی شدید قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ جہاں شہری علاقوں میں قائم سکولوں میں ضرورت سے زیادہ ٹیچرموجود ہوتے ہیں وہیں دیہی علاقوں میں چل رہے سکولوں میں کہیں کہیں صورتحال اس قدر خراب بن جاتی ہے کہ ہائی سکول میں چار یا پانچ اساتذہ تعینات ہوتے ہیں اور مڈل اور پرائمری سکولوں میں کی تو حالت ہی بیان سے باہر ہے ۔اگرچہ حکام نے اسی مسئلے سے نمٹنے کیلئے اساتذہ پر یہ لازم قرار دیاہے کہ ان کےلئے بہر صورت دو سال ہارڈ زون میں ڈیوٹی دینا ضروری ہے تاہم یہ منصوبہ بھی ناکامی سے دوچار ہوگیاہے اور تبدیل کئے جانے والے اساتذہ کسی طرح سے سفارش وغیرہ کرواکے اپنی ڈیوٹی کو نزدیک ترین علاقوں میں رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔جس طرح سے تدریسی عملے کی قلت کے سبب سرکاری سکولوں کے مقفل ہونے کاسلسلہ شروع ہواہے ،اسے دیکھتے ہوئے کہاجاسکتاہے کہ مستقبل قریب میں لوگوں کا سرکاری سکولوں کے تئیں رہاسہا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ طلباء کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ نہ کیاجائے اور سنجیدگی سے اقدامات کرتے ہوئے محکمہ تعلیم میں انقلابی سطح کی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں تاکہ گائوںدیہات کے بچوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی وہی سہولیات میسر ہوسکیں جو ایک شہر یا قصبہ میں رہنے والے بچوں کو حاصل ہوتی ہیں ۔