۔ 2نومبر ۲۰۱۷ء کو اُس ظالمانہ برطانوی اعلانِ بالفور کے ۱۰۰ ؍سال پورے ہوئے، جس کے مطابق ہزاروں سال سے سرزمین فلسطین پر مقیم اس کے باشندوں کو بے گھر کرتے ہوئے اور دنیا بھر کے یہودیوں کو وہاں جمع کرکے، ایک نئی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ۱۹۱۷ء کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور کے اس اعلان کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی تعداد صرف ۵۵ہزار تھی۔ اس منحوس اعلان سے قبل برطانیہ نے مشرق وسطیٰ پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کے لیے جو مختلف اقدامات کیے، ان میں سرفہرست مسلمانوں کو باہم لڑانا تھا۔ حجاز کے والی شریف حسین بن علی کو لالچ دیا گیا کہ وہ اگر خلافت عثمانیہ سے بغاوت کرتے ہوئے اس منصوبے کا ساتھ دے، تو اسے پورے جزیرۂ عرب، عراق اور شام سمیت عالم عرب کے اکثر علاقوں کا تاج دار بنادیا جائے گا۔ موصوف نے ۱۵ جون ۱۹۱۶ء کو یہ اعلانِ انقلاب کردیا۔ مسلمانوں کی قوت تقسیم اور کمزور ہوئی تو دسمبر ۱۹۱۷ء تک سرزمین فلسطین پر برطانوی قبضہ مکمل ہوگیا۔ برطانوی افواج کا سربراہ جنرل ایلن بی (Allenby )سلطان صلاح الدین ایوبی کی قبر کے پاس پہنچا اور اس پر پاؤں رکھتے ہوئے بولا: ’’آج صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا‘‘۔ گویا یہ سارا منصوبہ بیت المقدس پر قبضے کے لیے لڑی جانے والی ۸۰۰ سالہ صلیبی جنگوں ہی کا تتمہ تھا۔
ایک طرف یہ سامراجی منصوبہ ساز اور شریف مکہ جیسے ان کے ہم نوا مسلم حکمران تھے، اور دوسری طرف اپنا سب کچھ بیت المقدس کی آزادی کی خاطر قربان کرتے ہوئے، جدوجہد کرنے والے اہل ایمان تھے۔ ۲۷ جنوری سے ۱۵ فروری ۱۹۱۹ء تک بیت المقدس میں پہلی فلسطینی کانفرنس ہوئی۔ شرکا نے بلاد الشام (موجودہ فلسطین، شام، لبنان، اُردن اور عراق) کی تقسیم اور اس پر قبضہ مسترد کرنے کا اعلان کیا۔ موسیٰ الحسینی اور مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، نئی فلسطینی قیادت کے طور پر اُبھرے۔ فلسطین پر قبضہ کرنے کے لیے کوشاں یہودیوں کے خلاف اپریل ۱۹۲۰ء میں پہلی عوامی تحریک شروع ہوئی۔
۱۹۲۱ء میں فلسطین کے شہر یافا میں تحریک کا دوسرا دور دیکھنے کو آیا اور اگست ۱۹۲۹ء میں مسجد اقصیٰ کی مغربی دیوار، دیوار بُراق کی بے حرمتی کرنے پر ایک طاقت ور ’تحریک بُراق‘ دیکھنے میں آئی۔جس دوران میں ۱۳۳ یہودی مارے گئے ۳۳۹ زخمی ہوئے جواب میں برطانوی افواج نے ۱۱۶ فلسطینی شہید اور ۲۳۲ زخمی کردیے۔ ان تین عوامی تحریکوں کے بعد بیت المقدس اور گردونواح کی عرب آبادی میں جہاد فلسطین کی نئی روح پیدا ہوئی۔ شام کے چوٹی کے عالم دین عزالدین القسام اور عبد القادر حسینی نے اپنی اپنی جہادی کوششوں سے قبلۂ اول آزاد کروانے کے لیے جدوجہد کا حق ادا کیا۔
مسئلۂ فلسطین صرف وہاں کے عرب عوام کا مسئلہ نہیں تھا،صرف اہلِ فلسطین یا عرب آبادی ہی اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کوشاں نہیں تھی، پوری مسلم دنیا اس کار جہاد میں شریک تھی۔ ۷تا ۱۷دسمبر ۱۹۳۱ء کو مفتی اعظم امین الحسینی کی سربراہی میں بیت المقدس میں پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ۲۲ ممالک کے رہنما شریک ہوئے۔ برصغیر کی نمایندگی علامہ محمد اقبال اور مولانا شوکت علی نے کی۔ لبنان کے امیر شکیب ارسلان، مصر کے علامہ محمد رشید رضا، ایران کے ضیاء الدین طباطبائی اور تیونس کے عبد العزیز الثعالبی جیسی شخصیات اس کانفرنس کی روح رواں تھیں۔ کانفرنس کے اختتام پر پورے عالم اسلام میں فلسطین کمیٹیاں بنانے اور قبلہء اول کی حفاظت کا جذبہ اُجاگر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
فلسطین کے اندر بھی جہادی سرگرمیوں کے علاوہ پرامن عوامی جدوجہد کے مختلف مراحل سامنے آئے۔ ۲۰ ؍اپریل ۱۹۳۶ء کو فلسطینی عوام نے دنیا بھر سے یہودیوں کو وہاں لائے جانے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کردی۔ یہ ایک بے مثال ہڑتال تھی جو چند روز یا چند ہفتے نہیں، تقریباً چھے ماہ جاری رہی۔ اگر آس پاس کے مسلمان حکمران ایک بار پھر برطانوی احکام بجا لاتے ہوئے اپنا منفی کردار ادا نہ کرتے تو۱۷۸ ؍روزہ یہ ہڑتال اپنے مثبت نتائج حاصل کرلیتی۔ برطانیہ نے صورتِ حال اور فلسطینی عوام کے مطالبات کا جائزہ لینے کے بہانے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں لارڈ پِیل (Lord Peel) کی سربراہی میں رائل کمیشن بھیجا۔ کمیشن نے چھے ماہ بعد جو رپورٹ جاری کی، وہ فلسطین کی بندر بانٹ کا ایک خاکہ تھا جسے فلسطینی عوام نے فوراً مسترد کردیا۔ ایک مضبوط عوامی تحریک دوبارہ برپا ہوئی۔ اس دوران برطانوی گورنر لویس انڈریوز بھی قتل ہوگیا۔ برطانوی افواج نے یہودی ملیشیاؤںکے ساتھ مل کر ظلم کی نئی تاریخ رقم کردی۔ مفتی امین الحسینی لبنان جانے پر مجبور ہوگئے، لیکن دیگر کئی رہنما گرفتار کرکے براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع اور بحرہند میں گھری برطانوی کالونی جزائر سیشل میں قید کردیے گئے۔ تحریکِ آزادی ٔ فلسطین کا یہ مرحلہ مزید تقریباً دو سال جاری رہا۔ ایک مرحلے پر فلسطینی عوام نے کئی دیہات اور شہروں کے گردو نواح کا علاقہ آزاد کروالیا لیکن برطانیہ نے جنرل منٹگمری اور جنرل ویول سمیت چوٹی کے عسکری رہنماؤں کے ساتھ مزید کمک بھیجتے ہوئے لاتعداد فلسطینی شہری شہید کردیے۔
اسرائیل کا قیام:
عوامی غیظ و غضب اور دوسری جنگ عظیم کے گہرے ہوتے ہوئے سایے کی وجہ سے برطانیہ کو مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ اس نے تقسیم کا منصوبہ معطل کردیا۔ گرفتار و ملک بدر رہنماؤں کو رہا کردیا۔ مسئلے کے حل کے لیے لندن میں گول میز کانفرنس بلائی جو ناکام رہنا تھی، اور ناکام رہی۔ مئی ۱۹۳۹ء میں قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ فلسطین کو یہودی ریاست نہیں بنانا چاہتا، عربوں اور یہودیوں کی مشترک حکومت بنانا چاہتا ہے۔ وعدہ کیا کہ وہ آیندہ دس برس کے اندر اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست تشکیل دے گا۔ فلسطینی عوام کو ان اعلانات کی صداقت پر یقین نہیں تھا، اس لیے انھوں نے انھیں مسترد کردیا۔ اسی دوران میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوگئی۔ مفتی امین الحسینی کئی ملکوں سے ہوتے جرمنی پہنچ گئے۔ جرمنی نے برطانیہ کے مقابلے میں فلسطینیوں کی حمایت اور امداد کا اعلان کیا۔ اسی اثنا میں صہیونی قیادت نے عالمی قیادت کا مرکز امریکا منتقل ہوتا دیکھ کر اپنا قبلہ بھی ادھر پھیرلیا۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلیکن دونوں پارٹیوں نے ان کی مکمل سرپرستی کی۔ ٹرومین صدر منتخب ہوا تو اس نے برطانیہ سے گٹھ جوڑ کرتے ہوئے مزید ایک لاکھ یہودی فلسطین منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ جنگ جیتنے کے بعد برطانیہ نے بھی توقع کے عین مطابق اپنے وائٹ پیپر کی منسوخی کا اعلان واپس لے لیا۔ مسئلۂ فلسطین کا تفصیلی جائزہ لینے کے لیے اینگلو امریکن مشترک کونسل تشکیل دے دی گئی۔ اب امریکا اس پورے قضیے میں باقاعدہ اور براہِ راست شریک تھا۔ ۲ ؍اپریل ۱۹۴۷ء کو برطانیہ نے اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر ایک قرارداد پیش کی، جس نے ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ء کو اسے منظور کرتے ہوئے، سرزمین فلسطین کے ۷ء۵۴ فی صد علاقے پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا اعلان کردیا۔
۲نومبر ۱۹۱۷ء کو کیے جانے والے برطانوی اعلان بالفور سے لے ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیلی ریاست کے باقاعدہ قیام کے اعلان تک، زمینی حقائق کیسے تبدیل کیے گئے؟ اس کا اندازہ درج ذیل اعداد و شمار سے ہوتاہے: ۱۹۱۸ء میں غیر یہودی فلسطینی آبادی ۶لاکھ سے متجاوز تھی، جب کہ باہر سے آکر بسنے والوں سمیت یہودیوں کی کل تعداد ۵۵ ہزار تھی جو آبادی کا ۴. ۸ فی صد تھے اور ان کے پاس فلسطین کا ۲ فی صد علاقہ تھا۔ ۱۹۴۸ء تک ان کی تعداد ۶لاکھ ۴۶ ہزار ہوچکی تھی، اور وہ کل آبادی کا ۷ء۳۱ فی صد تھے۔ انھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے ۶ فی صد رقبہ حاصل کرلیا تھا۔ اس وقت بھی فلسطینیوں کی تعداد ۱۳ لاکھ ۹۰ ہزار تھی جو کل آبادی کا ۳ء۶۸ فی صد رہ گئے۔ لیکن اقوام متحدہ نے ۶ فی صد رقبہ رکھنے اور باہر سے آکر ایک پرائے ملک پر قابض ہونے والے ۷ء۳۱ فی صد یہودیوں کو تقریباً ۵۵ فی صد رقبہ عطا کردیا۔
اہلِ فلسطین کا ردِعمل:
تقسیم سرزمین اقصیٰ کا اعلان ہونے پر فلسطینی عوام نے احتجاج کیا تو جواب میں ان کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا۔ بدقسمتی سے کسی پڑوسی عرب ریاست یا حکومت نے ان کی کوئی مدد نہ کی۔ سب نے بہانہ بنایا کہ جب اعلان کے مطابق ۱۵ مئی ۱۹۴۸ء کو برطانوی افواج یہاں سے نکل جائیں گی، تو اس وقت وہ فلسطینی عوام کی مدد کریں گے۔ فلسطینی عوام نے خود ہی اپنے نبیؐ کی امانت کی حفاظت کا فیصلہ کیا۔ پڑوسی علاقوں (بالخصوص مصر سے) عوام ان کی جو مددکرسکتے تھے ،وہ انھوں نے کی۔ الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنا اور ان کی جماعت، اہل فلسطین کی مدد کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ اخوان کی بنیاد ۱۹۲۸ء میں رکھی گئی تھی۔ صرف ۲۰ سال بعد انھوں نے قبلۂ اوّل کی آزادی کے لیے پہلی کھیپ کے طور پر ۱۰ ؍ہزار مجاہدین فلسطین بھیجنے کا اعلان کیا۔ مصری حکومت خود اہل فلسطین کی مدد تو کیا کرتی، اس نے اخوان کے ان فداکاروں کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔ جو اہل ایمان فلسطین جاسکے، انھیں بھی جنگ بندی کے بعد ملک واپسی سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔ ساتھ ہی پورے مصر میں اخوان کے کارکنان جیلوں میں بند کیے جانے لگے۔ قبلہء اول کی آزادی کے لیے قربانیاں دینا اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی پکار پر لبیک کہنا، اتنا سنگین جرم تھا کہ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہی ۱۱ فروری ۱۹۴۹ء کی شام اخوان کے بانی اور مرشد عام حسن البنا کو مصری دارالحکومت قاہرہ کی ایک شاہراہ پر دن دھاڑے شہید کردیا گیا۔
۱۹۴۸ء کی اس خوفناک جنگ میں فلسطینی عوام نے عزیمت کی نئی تاریخ رقم کی۔ جنگ کے پہلے چھے ماہ تو وہ اکیلے ہی یہودی ملیشیاؤں اور ان کے عالمی سرپرستوں کے مقابل ڈٹے رہے۔ انھوں نے سرزمین فلسطین کے ۸۲ فی صد علاقے کی حفاظت کئے رکھی۔ آخرکار سات عرب ممالک کی افواج نے اہل فلسطین کی مدد کا اعلان کیا، لیکن ان کا فلسطین جانا، ان کے وہاں نہ جانے سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوا۔
ان افواج کی حقیقت اسی بات سے واضح ہوجاتی ہے کہ ان میں سے ایک ملک کی ارسال کردہ فوج کے اعلیٰ افسران میں سے ۴۵ ؍افسر عرب نہیں برطانوی تھے۔ سات عرب ریاستوں کی افواج کی وہاں موجودگی کے دوران دسمبر ۱۹۴۸ء میں جنگ بندی کا اعلان ہوا، تو فلسطین کا ۷۷ ؍فی صد علاقہ یہودی افواج کے ہاتھ دیا جاچکا تھا۔ اس دوران ۱۳ لاکھ ۹۰ہزار فلسطینیوں میں سے ۸ لاکھ شہری زبردستی ملک بدر کردیے گئے۔ مزید ۳۰ ہزار سے زائد ملک کے اندر مہاجر ہوگئے۔ ساڑھے چار ہزار سال سے وہاں آباد ایک پوری قوم سے ان کے آباو اجداد کی سرزمین چھین لی گئی۔ مسلمانوں سے ان کا قبلۂ اول اور عیسائیوں سے ان کے مقدس مقامات چھین لیے گئے۔( ۱۹۲۲ء میں وہاں عیسائیوں کی تعداد ۷۱ ہزار ۶۴۶ تھی)۔ ان کے گھر اور بستیاں مسمار کرکے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کی جانے لگیں۔ ۱۴ نومبر ۱۹۷۳ء کو شائع ہونے والے برطانوی اخبار دی گارڈین میں اسرائیلی فوج کے سربراہ، اور وزیر دفاع موشے دایان (Moshe Dayan) نے اعتراف کیا کہ ’’اس ملک میں ایک بھی یہودی بستی ایسی نہیں ہے، جو کسی نہ کسی عرب آبادی کے اوپر تعمیر نہ کی گئی ہو‘‘۔
۱۹۴۸ء میں اہل فلسطین پر مسلط کی جانے والی جنگ آخری جنگ نہیں تھی۔ اکتوبر ۱۹۵۶ء میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے مل کر دوبارہ فلسطینیوں پر جنگ تھوپ دی۔ غزہ کی پٹی اور مصری صحراے سینا پر قبضہ جمالیا اور پھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے کے بعد سینا کا علاقہ خالی کردیا۔ ۵ جون ۱۹۶۷ء کی صبح اسرائیل نے مصر، اُردن اور شام پر ایک بار پھر بیک وقت اور اچانک حملہ کرتے ہوئے بچا کھچا فلسطینی علاقہ (مغربی کنارہ ۵۸۷۸ کلومیٹر اور غزہ کی پٹی ۳۶۳ کلومیٹر) مصری صحراے سینا (۶۱ ہزار ۱۹۸ مربع کلومیٹر) شامی گولان کی پہاڑیاں (۱۱۵۰ مربع کلومیٹر) بھی قبضے میں لے لیا۔ مصر، شام اور اُردن کی تقریباً ساری فضائی قوت ان کے ہوائی اڈّوں پر ہی تباہ کردی۔ ۱۰ ہزار سے زائد مصری، ۶ ہزار اُردنی اور ایک ہزار شامی فوجی مارے گئے۔ اس جنگ کے نتیجے میں ۳لاکھ ۳۰ ہزار مزید فلسطینی شہری ملک بدر اور بے گھر کردیے گئے۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء میں صہیونی ریاست سے شام اور مصر کی چوتھی جنگ ہوئی۔ آغاز میں مصر و شام کا پلہ بھاری رہا، لیکن پھر امریکی فضائی کمک کے نتیجے میں، صہیونی افواج نہر سویز کے مغربی علاقے اور شام کی کئی نئی بستیوں پر بھی قابض ہوگئیں لیکن مجموعی طور پر اس جنگ میں صہیونی ریاست اور اس کی افواج کو بڑا دھچکا لگا۔
کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو معاہدے:
یہ جنگ عرب ممالک کے ساتھ صہیونی ریاست کی آخری کھلی جنگ تھی، لیکن اس کے بعد اس سے بھی زیادہ خوفناک ایک جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس نئی جنگ میں اسرائیل کے خلاف لڑنے والے عرب ممالک، اب سرزمین اقصیٰ پر صہیونی قبضہ اور ان کی ناجائز ریاست تسلیم کرتے ہوئے خود اس کی جانب سے لڑنے لگے۔ فروری ۱۹۷۴ء میں مصر نے لڑائی ختم کرنے کا معاہدہ کیا اور ستمبر ۱۹۷۸ء میں انور السادات نے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرتے ہوئے خطے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ایک نئی دوڑ شروع کردی۔ وقتی طور پر عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کردی، لیکن پھر نہ صرف اس کی رکنیت بحال کی بلکہ خود بھی اسی دوڑ میں شامل ہوگئی۔ اب جس حکمران کو بھی خود اپنے عوام یا کسی برادر ملک کے خلاف سہارے کی ضرورت ہوتی، وہ قبلۂ اول پر قابض دشمن سے دوستی کے رشتے قائم کرنا شروع کردیتا۔ پہلے اس کی آب یاری خلافت عثمانیہ کے قاتل مصطفیٰ کمال پاشا اور اس کے وارث کررہے تھے، اب خطے کا سب سے اہم ملک مصر بھی ان کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ بظاہر اس معاہدے کے نتیجے میں صحراے سینا سے صہیونی فوجوں کا انخلا ہوگیا، لیکن ایسی کڑی شرطوں کے ساتھ کہ گویا وہاں موجود مختصر سی مصری افواج عملاً اسرائیلی افواج کے ماتحت کام کررہی ہوں۔
مصر کے بعد اُردن بھی جفاکار بنا:
اگست ۱۹۹۳ء میںکئی سال کے خفیہ مذاکرات کے بعد ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مسئلۂ فلسطین کے اکلوتے اور قانونی وارث ہونے کے دعوے دار یاسر عرفات نے امن کے نام پر ایک طویل معاہدہ کرلیا۔ اس گنجلک معاہدے کا حتمی نتیجہ یہ تھا کہ اگر باقی ماندہ فلسطینی شہری، اسرائیلی ریاست کو اپنی اطاعت کا مرحلہ وار ثبوت دیتے چلے جائیں تو آخرکار غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو بعض اختیارات دے دیے جائیں۔ اس معاہدے کا سب سے قبیح پہلو یہ تھا کہ اس میں مذکورہ چند موہوم وعدوں کی قیمت پر پہلے ہی ہلے میں سرزمینِ اقصیٰ کے ۷۷ فی صد سے زائد علاقے پر اسرائیلی قبضہ تسلیم کرلیا گیا تھا۔ سب سے اہم اور حساس معاملے، یعنی بیت المقدس کے مستقبل کو تمام مذاکرات سے خارج کرتے ہوئے، بعد کے کسی مرحلے کے لیے اُٹھا رکھا گیا تھا۔فلسطینی اتھارٹی نے نہ صرف یہ عہد کیا کہ وہ آیندہ کبھی اسرائیل کے خلاف قوت کا استعمال نہیں کرے گی، بلکہ یہ معاہدہ بھی کیا کہ اگر کوئی بھی فرد یا گروہ ایسا کرے گا، تو فلسطینی اتھارٹی اس کا قلع قمع کرے گی۔ مزید ذلت آمیز شرط یہ رکھی گئی کہ اسرائیلی افواج جب چاہیں گی فلسطینی علاقوں میں آکر کارروائیاں کرسکیں گی۔ ان کے آنے پر فلسطینی اتھارٹی کی پولیس یا فوج کے تمام افراد ان کے راستے سے روپوش ہوجائیں گے۔ اگر کبھی ایسی صورت پیدا ہوگئی کہ اسرائیلی فوجی اتنی اچانک آجائیں کہ وہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو تو فلسطینی سپاہی اپنا اسلحہ زمین پر رکھ کر دیوار کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجائیں گے تاآنکہ اسرائیلی وہاں سے چلے جائیں۔ اس معاہدے میں دنیا بھر کی خاک چھاننے پر مجبور کردیے جانے والے فلسطینی مہاجرین (اب تک ان کی تعداد ۷۰ ؍لاکھ تک پہنچ چکی ہے) کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی تھی۔
(بقیہ بدھ کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)