ریاستی پولیس کے سربراہ نے منشیات کی لت کو نوجوان نسل کیلئے تباہ کن قرار دیاہے اور حقیقی معنوں میں یہ ایک ایسی وبا ہے جس نے کثیر تعداد میں نوجوانو ں کی زندگیاں لپیٹ میں لی ہیںاور یہ نوجوان بری صحبتوں میں مبتلا ہوکر راہ راست سے بھٹک گئے ہیں ۔یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس سے آج کی نوجوان نسل دوچار ہے تاہم اس کی نشاندہی سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا قلع قمع کرنے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کئے جائیں۔اس وبا کی زد میں آکر ریاست کے ہر ایک خطے میں نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہورہاہے اور حالیہ مہینوں ایسی کئی پراسرار اموات واقع ہوئی ہیں جن کیلئے منشیات کے استعمال کو ہی ذمہ دارٹھہرایاجارہاہے ۔خاص طور پرخطہ جموں میں منشیات کا استعمال تیزی سے پھل پھول رہاہے جو پریشانی کا امر ہے ۔پولیس کی طرف سے منشیات مخالف کارروائی چلاکر کروڑوں مالیت کی ہیروئن و دیگر نشیلی اشیاء برآمد کرنے کے دعوے تو کئے جاتے ہیں جبکہ کئی منشیات فروشوں کو جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھی دھکیلاگیاہے لیکن اس کے باوجود یہ وبا دن بدن تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور اس پر قدغن لگانے کے تمام تر منصوبے ناکام ہوچکے ہیں ۔روزانہ پولیس بیانو ں میں منشیات کاکاروبار کرنے والے افراد کی گرفتاری کی اطلاع دی جاتی ہے اور بعض اوقات یہ دعوے بھی کئے جاتے ہیں کہ اس دھندے میں ملوث گروہوں کو بے نقاب کیاجا رہاہے ۔تین روز قبل ہی پولیس نے دعویٰ کیاہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران جموں سے 500کروڑروپے کی مالیت کی ہیروئن ضبط کی گئی ہے ،مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام تر پولیس کارروائیوں کے باوجود اس میں زیادہ سے زیادہ لوگ ملوث ہوتے جارہے ہیں اور اس کا نیٹ ورک ریاست کے کونے کونے تک پھیلتاجارہاہے جو تشویشناک بات ہے ۔یہ ایسا معاملہ ہے جورواں برس کے اوائل میں ریاستی قانون سازیہ کے ایوانوں میں بھی زیر بحث آیا اور کارروائی کیلئے قانون سازی کی آراءبھی پیش ہوئیں ۔نشیلی اشیاء بیرون ریاست سے درآمد ہوتی ہیں یاپھر بیرون ملک سے انہیں یہاں لایاجارہاہے ، اس کی جانچ کرنا بھی پولیس اور دیگر ایجنسیوں کا ہی کام ہے لیکن عام لوگوں کیلئےصرف اور صرف یہ بات اہم ہے کہ کس طرح سے اس وبا پر قابو پایاجائے اور نوجوان نسل کو مزید تباہ ہونے سے بچایاجائے ۔دراصل آج تک پولیس کی جتنی بھی کارروائیاں ہوئی ہیں وہ عمومی نوعیت کی رہی ہیں اور ان میں نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ منشیات میں استعمال ہونے والی اشیاء کہاں سے لائی جارہی ہیں اور اس کے خالق کون سے عناصر ہیں اور نہ ہی اس کی درآمد روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے گئے ۔سیوک ایکشن پروگرام کے تحت کھیل کود کی سرگرمیوں کا انعقادکرنا،منشیات مخالف بیداری مہم چلانا اس کاروبار میں ملوث نوجوانوں پر پی ایس اے عائد کرکے انہیں جیلوں میں مقید رکھنا اور روز بروز ضبطی کے دعوے کرنا تو اچھی بات ہے لیکن جب تک اس کے پس پردہ عوامل اور اس دھندے کا پر دہ فاش کرکے اصل ذمہ داروں کو گرفت میں نہیں لایا جاتا تب تک اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ظاہر بات ہے کہ منشیات فروشی کےلئے منظم مافیا ذمہ دار ہوتا ہے، جن کے رابطوں کے منظم، ہمہ گیر اور پیچ در بیچ سلسلے ہوتے ہیں، جن میں کہیں نہ کہیں پہ انتطامی حلقوںمیں موجود عناصر بھی ملوث ہوتے ہیں لیکن اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ منشیات برآمد کرکے انہیں لانے لے جانے والوں کو گرفتارتوکیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ جو زنجیر منسلک ہوتی ہے اُسے چھیڑ کر توڑنے کا کوئی واقع اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب تک سنجیدگی کے ساتھ معاملے کے اس پہلو پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی تب تک مؤثر نتائج کے حصول کی توقع رکھنا عبث ہے۔ اس کےلئے پولیس اور دیگرمتعلقہ محکموں کو ذمہ دار انہ انداز میں مستعدی اختیار کرنا ہوگی اور سماجی سطح پر ذمہ دار اداروں اور سو ل سوسائٹی کو ان اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا، جبھی کوئی معقول اور مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔