گویا وہ لاوارث اب اپنی سرزمین پر واپسی کا خواب تک بھی نہ دیکھیں۔ فلسطینی علاقوں میں مسلسل تعمیر کی جانے والی یہودی بستیوں کے بارے میں بھی چپ سادھے رکھی گئی۔مکمل طور پر اسرائیلی رحم و کرم پر جینے والی اس اتھارٹی کا سب سے بنیادی مقصد فلسطینی عوام میں روز افزوں تحریک انتفاضہ کو کچلنا رہ گیا، یعنی جو کام خود صہیونی افواج انجام نہیں دے سکی تھیں، وہ اب خود فلسطینی عوام سے کروایا جانے لگا۔ اس ذمہ داری کے لیے محمد دحلان نامی شخص کا انتخاب بھی خود ہی کردیا گیا۔ موصوف نے مغربی کنارے اور غزہ میں جاسوسی، جیل خانوں اور اذیت گاہوں کا ایک وسیع نظام قائم کردیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں تحریک مزاحمت و آزادی فلسطین کے کئی اہم ترین رہنما شہید ہوگئے اور بڑی تعداد میں گرفتار ہوئے۔ یہ تمام جتن کرنے کے باوجود بھی اہل فلسطین کے دل سے سرزمین اقصیٰ آزاد کرنے کا جذبہ ختم نہ کیا جاسکا۔
تحریکِ انتفاضہ اور حماس
سال ۲۰۰۰ء میں اس حقیقت کا بے مثال ثبوت ایک بار پھر پوری قوت سے ساری دنیا کے سامنے آگیا۔ متعصب صہیونی جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور ۱۹۸۲ء میں لبنان کے فلسطینی کیمپوں صبر ا، شاتیلا میں خوفناک قتل عام کروانے والے سابق وزیر دفاع اریل شرون نے اعلان کردیا کہ ’’اسرائیل ایک ناقابل تسخیر حقیقت ہے۔ یروشلم (بیت المقدس) سمیت اس کی ساری سرزمین ہماری ہے اور میں اس حقیقت کا اعلان کرنے کے لیے مسجد اقصیٰ میں جاؤں گا۔ اسرائیلی حکومت نے اس اعلان کی تائید کی اور شرون کی مدد کرنے کے لیے ۶۰۰ مسلح افراد اس کے ہمراہ بھیج دیے۔ اس نے ۲۸ ستمبر ۲۰۰۰ء کو اس ناپاک جسارت کا ارتکاب کیا تو پوری فلسطینی قوم بپھر کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ انتفاضۂ اقصیٰ شروع ہوگیا جو تقریباً ۵ برس تک جاری رہا۔ اس دوران صہیونی افواج نے ممنوعہ ہتھیاروں سمیت ہر ہتھکنڈہ استعمال کرکے دیکھ لیا۔ ساڑھے چار ہزار فلسطینی شہری جن میں سیکڑوں بچے اور خواتین بھی شامل تھے شہید کردیے گئے لیکن ان جرائم کے نیتجے میں مسجد اقصیٰ سے اُمت مسلمہ کی محبت و تعلق تو کیا کم ہوتا، ناجائز صہیونی ریاست اور اس کے سرپرست امریکا کا اصل چہرہ ان کے سامنے مزید بے نقاب ہوگیا۔اس دوران کئی دیگر اہم واقعات بھی پیش آئے۔ یاسر عرفات اب نہ صرف مزید کسی کام کا نہ رہا تھا بلکہ اب وہ اوسلو معاہدے میں زینت کے لیے رکھی گئی شقوں پر عمل بھی چاہتا تھا، علاج کے بہانے اسے فرانس لے جاکر زہر دے دیا گیا۔ ۱۱ ؍نومبر ۲۰۰۴ء کو وہ دنیا سے چلے گئے۔ ان سے پہلے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ء کو تحریک حماس کے بانی اور فلسطین میں نسل نو کے روحانی رہنماشیخ احمد یاسین کو بھی نماز فجر کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ڈرون حملے سے شہید کردیا گیا۔ اگلے ہی ماہ ۱۷؍اپریل ۲۰۰۴ء کو ان کے جانشین ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی بھی ایسے ہی ایک حملے کی نذر ہوگئے۔ اسی سال دیگر کئی جماعتوں کے اہم قائدین بھی شہید کردیے گئے۔یاسر عرفات کے بعد محمود عباس (ابو مازن) نے ان کی جگہ سنبھالی۔ ان کا بنیادی فلسفہ ہی آزادی ٔاقصیٰ کے لیے مسلح جہاد کا خاتمہ تھا۔ انھوں نے ذمہ داری سنبھالتے ہی کئی دیگر اقدامات کے علاوہ بلدیاتی اور پارلیمانی انتخابات کا اعلان بھی کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ شہادتوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ تحریک حماس (فلسطینی اخوان) جہاں اپنے عسکری بازو عزالدین القسام بریگیڈ کی وجہ سے سب سے مؤثر جہادی گروہ ہے، وہیں وہ فلسطینی عوام کے اعتماد و حمایت کی حامل اہم ترین سیاسی جماعت بھی ہے۔ مختلف مشاورتوں کے بعد انھوں نے ۲۰۰۵ء کے بلدیاتی اور ۲۰۰۶ء کے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ نتائج آئے تو پوری دنیا کے لیے حیران کن تھے۔ ۱۳۲ کے ایوان میں حماس کو ۷۸ ؍اور محمود عباس کی جماعت الفتح کے تمام دھڑوں کے مشترکہ پینل کو ۴۵ ؍نشستیں حاصل ہوئیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کی یہ جیت تحریک انتفاضہ سے بھی بڑا زلزلہ ثابت ہوئی۔ حماس نے اکیلے حکومت سازی کے بجائے ہر ممکن قربانی دے کر بھی قومی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی، لیکن نہ صرف ان کی تمام کوششیں ناکام بنادی گئیں، بلکہ نومنتخب حکومت کی راہ میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے گئے۔انتخابات ہوجانے کے دو ہفتے بعد بھی اسی پرانی اسمبلی کا اجلاس بلاکر اہم دستوری ترامیم کردی گئیں۔ تمام تر اختیارات منتخب حکومت کے بجاے صدر کو منتقل کردیے گئے۔ نومنتخبہ پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا تو کچھ عرصے بعد ہی اس کے سپیکر سمیت کئی ارکان اسمبلی کو اسرائیلی افواج یا فلسطینی انتظامیہ نے گرفتار کرلیا۔ ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کرلیا۔ ۲۰۰۷ء میں یہ محاصرہ شدید تر ہوگیا۔ تین اطراف سے اسرائیل کا محاصرہ تھا، چوتھی جانب سے مصر نے بھی اس سے زیادہ سخت حصار کرلیا تھا۔
غزہ کا محاصرہ اور سازشیں:
محمود عباس نے بھی منتخبہ حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ۲۰۰۸ء، ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۲ء میں اسرائیل نے غزہ پر خوفناک جنگ مسلط کردی۔ کیمیائی ہتھیار تک استعمال کرڈالے۔ غزہ کے عوام سے صرف ایک مطالبہ کیا جارہا تھا کہ وہ حماس کا ساتھ چھوڑتے ہوئے، مسجد اقصیٰ سے دست بردار ہوجائیں اور اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ ایسے کڑے حصار اور پے در پے جنگوں کے بعد غزہ میں محصور ۸ لاکھ سے زائد انسانوں کا زندہ بچ جانا بھی ایک معجزہ ہوتا، لیکن وہ نہ صرف زندہ رہے، بلکہ انھوں نے حماس کا ساتھ چھوڑنے سے بھی انکار کردیا۔۲۰۱۶ء سے آج ۲۰۱۷ء تک یہ محاصرہ اپنی تمام تر ہولناکیوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس دوران ۲۰۱۱ء میں عالم عرب کی عوامی تحریکوں کے نتیجے میں مصر سمیت کئی ملکوں سے آمریت کا عارضی خاتمہ ہوا۔ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا ایک سالہ دور اقتدار (جون ۲۰۱۲ء – جولائی ۲۰۱۳ء) ہی ایسا گزرا کہ مصر نے اہل غزہ کے لیے سرحدوں اور دلوں کے دروازے کھول دیے۔ یہی اقدام صدر محمد مرسی کا سب سے بڑا ’’سنگین جرم ‘‘بن گیا اور انھیں بدترین خونی فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار سے ہٹا کر جیل میں بند کردیا گیا۔ ان پر سب سے اہم الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے حماس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہوئے اسے اہم راز پہنچائے۔نبی اکرمؐ کے قبلۂ اول اور سرزمین بیت المقدس پر قبضہ کرکے وہاں ایک صہیونی ریاست تشکیل دینے کے لیے پورے ۱۰۰ ؍سال پر محیط سازشوں اور مظالم کا قدرے طویل ذکر اس لیے کیا جارہا ہے کہ آج ایک بار پھر اُمت مسلمہ تاریخ کے ایک سنگین دوراہے پر لاکھڑی کی گئی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ۱۰۰ ؍سال بعد بھی وہی ہتھکنڈے، وہی سازشیں اور وہی عناصر پوری اُمت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
۱۰۰ برس قبل برطانیہ نے اعلان بالفور کیا تھا، اب امریکا اس صدی کا سب سے بڑا سودا مَفقَۃُ الْقَرنْ (Deal of the Century) کرنے جارہا ہے۔ مصر کے سرکاری اخبارات میں شائع شدہ جنرل عبدالفتاح السیسی اور امریکی صدر ٹرمپ کا مکالمہ ملاحظہ فرمائیے:
السیسی: ’’آپ مجھے مسئلۂ فلسطین کے حل کے لیے صدی کی سب سے بڑی ڈیل کرنے کے لیے پوری قوت سے تیار و آمادہ پائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ کام آپ ہی کرسکتے ہیں‘‘۔
صدر ٹرمپ: ’’یہ کام ہم سب مل کریں گے۔ ہم مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے اور ہماری دوستی طویل عرصے تک رہے گی‘‘۔
صدی کی سب سے بڑی یہ ڈیل کیا ہے؟ اس کی تفصیل ابھی خفیہ رکھی جارہی ہے۔ واقعات و عمل درآمد کی رفتار لیکن بہت تیز ہے۔
حماس اورالفتح میں مصالحت؟
اوپر کی سطور میں درج ہے کہ مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ اُلٹنے کے بعد ان کے خلاف جو سب سے پہلا مقدمہ قائم کیا گیا، وہ ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ حماس کے ساتھ ان کا’’ گٹھ جوڑ‘‘ تھا۔ قطر سے قطع تعلق کرتے ہوئے ان پر بھی حماس کو پناہ دینے کا الزام لگایا گیا۔ کئی مغربی ممالک نے اس کانام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے ۔ بایں ہمہ د حماس اور محمود عباس کی الفتح کے درمیان نہ صرف صلح کروا دی گئی کہ بلکہ اسے ایک کارنامہ قرار دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کارنامہ جنرل سیسی ہی نے انجام دیا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں گیارہ سال سے جاری غزہ کے محاصرے میں مرحلہ وار نرمی کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔حماس الفتح معاہدے کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا کہ حماس مکمل حصار اور خوفناک جنگوں کے باوجود گذشتہ گیارہ سال سے غزہ میں قائم اپنی عبوری حکومت سے دست بردار ہوگئی ۔ اس نے غزہ آنے جانے کے تمام راستوں سمیت امن و امان کا انتظام محمود عباس انتظامیہ کے سپرد کردیا ۔ البتہ اس نے جس بات سے کسی بھی صورت دست بردار نہ ہونے کا اعلان کیا ہے، وہ زیر زمین پناہ گاہیں ہیں، جہاں اس نے صہیونی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا عسکری سازوسامان اور دستیاب ہتھیار رکھے ہیں۔ حماس کے اعلیٰ قائدین نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اگرچہ اس معاہدے کے بارے میں بہت سارے خدشات پائے جاتے ہیں، لیکن ایک تو ہم اس بارے میں یکسو اور مطمئن ہیں کہ آزادی ٔاقصیٰ کے لیے حاصل اور تیار کیے جانے والے ہمارے یہ ہتھیار محفوظ و مامون ہیں، دوسرے ہم اور غزہ کے عوام اس بات پر مطمئن ہیں کہ گیارہ سالہ طویل و کڑی آزمایش میں اللہ کی توفیق سے سرخرو ہوئے۔ کوئی بڑی سے بڑی آفت و ابتلا ہمیں جھکا نہیں سکی اور تیسری بات یہ کہ اگر غزہ کے محصور ۹ لاکھ عوام کے دکھ اور مصائب ختم یا کم کرنے کے لیے، اپنے اصل مقاصد سے دست بردار ہوئے بغیر کوئی آبرومندانہ موقع پیدا ہورہا ہے تو ہم اسے ضائع نہیں کرنا چاہتے۔غور کرنے کی بات البتہ یہ ہے کہ یہ صلح کروانے بلکہ اس پر اصرار کرنے والوں کے اصل اہداف کیا ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تحریک حماس اب ایک اتنی بڑی زمینی حقیقت ہے کہ مسئلۂ فلسطین کا کوئی بھی حل اس وقت تک عملاً ممکن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اس میں شامل نہ ہو اور دوسرا خطرناک پہلو یہ ہے کہ صدی کا سب سے بڑا سودا کرنے والے حماس کو بھی یقینا کسی سودے بازی یا بے دست و پا کرنے کی سازش کا شکار کرنا چاہیں گے۔ اس پورے تناظر میں ایک تیز رفتار اور اہم پیش رفت یہ ہو ئی کہ ایک دو نہیں، درجن بھر سے زائد مسلم ممالک، صہیونی ریاست کے ساتھ اس وقت خفیہ مذاکرات کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر دانی دانون کا ایک بیان گزشتہ سال ۲۶ نومبر کے اسرائیلی اخبارات میں شائع ہوا ہے، اس نے انکشاف کیا ہے کہ ’’اس وقت اسرائیل ایسے ۱۲ مسلم ممالک سے خفیہ مذاکرات کررہا ہے کہ جن سے ہمارے تعلقات نہیں ہیں‘‘۔ اسرائیلی سفیر نے طنزیہ انداز میں کہا کہ: ’’اس سے پہلے یہ مسلم سفرا اسرائیلیوں کو دیکھ کر راستہ بدل لیا کرتے تھے، اب وہ ہم سے تقریباً ہفتہ وار ملاقاتوں میں مشترک منصوبوں پر گفت و شنید کرتے ہیں‘‘۔ دانون کے بقول: ’’اس وقت ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بند کمروں میں ہونے والے یہ مذاکرات منظر عام پر کیسے لائے جائیں‘‘۔ دانون کے علاوہ کئی اسرائیلی وزرا خود وزیراعظم نتن یاہو اور فوجی سربراہ گیڈی ایزنکوٹ بھی ایسے متعدد بیانات دیتے ہوئے خطے کے کئی اہم ترین مسلم ممالک کا نام لے چکے ہیں۔پورے منصوبے کے بارے میں اب تک نشر کی جانے والی تجاویز میں سے اسرائیلی وزیر سوشل مساوات جیلا جملیل کے بیان کی تصدیق و تائید کئی اطراف سے ہورہی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’کسی فلسطینی ریاست کے قیام کی اب ایک ہی صورت ہے کہ غزہ اور مصری صحراے سینا کے ایک حصے کو ملا کر وہاں یہ مجوزہ ریاست بنادی جائے‘‘۔ سال رفتہ میں۱۱؍ نومبر کو اپنا یہ بیان دینے کے دو ہفتے بعد موصوفہ مصر کے دورے پر آئیں۔ وہ مصر میں ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں بھی شریک ہوئیں اور یہ مصر میں کسی اسرائیلی وزیر کی پہلی علانیہ شرکت تھی۔خود فلسطینی صدر محمود عباس بھی اپنی تمام تر وفاداریوں کے بعد اب مختلف اطراف سے دباؤ کا شکار ہیں۔ ان سے تقاضا کیا جارہا ہے کہ وہ صدی کے اس اہم ترین فیصلے میں غیر مشروط تعاون کریں۔ محمود عباس کے ایک قریبی دوست صدر فسلطین کا یہ جملہ دہراتے ہوئے صورتِ حال سے آگاہی دیتے ہیں : ’’میں کہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ کیے جانے والے معاہدے پر الف سے یا تک عمل درآمد ہو اور آغاز الف سے کیا جائے لیکن ان کا کہنا ہے کہ معاہدہ کرو، ہم اس پر عمل بھی کریں گے لیکن اس پر عمل درآمد یا سے الف کی طرف شروع کیا جائے‘‘۔انھیں مزید دباؤ میں لانے کے لیے واشنگٹن میں ان کے دفتر کی تجدید کرنے سے انکار کیا جاچکا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس مرحلے پر ۸۲ سالہ محمود عباس بھی اپنے پیش رو یاسر عرفات کے انجام کو پہنچا دیے جائیں۔ ان کی جگہ اب محمد دحلان کو آگے بڑھایا جائے، جو محمود عباس سے سنگین اختلافات کے بعد ایک عرصے سے ابوظبی میں فعال ہیں۔ حماس الفتح مذاکرات کے موقعے پر بھی وہ بہت متحرک دکھائی دیے۔ مصری حکومت نے حماس کے بعض ذمہ داران سے بھی ان کی ملاقات کا خصوصی اہتمام کیا۔
اہلِ فلسطین کا عزم:
غیب کا علم تو صرف خالق کائنات کو ہے لیکن سرزمینِ اقصیٰ کے بارے میں ایک بار پھر بڑی سازش تیار کرنے والوں کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اگر گذشتہ ۱۰۰ برس سے جاری تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود وہ بیت المقدس کے امین فلسطینی عوام کے دل سے آزادی کا عزم ختم نہیں کرسکے تو وہ ان شاء اللہ آیندہ بھی ایسا نہیں کرسکیں گے۔ آج وہ ۱۹۴۸ء کی نسبت کہیں زیادہ پُرعزم اور کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ خود مسلمان حکمرانوں کو بھی پہلے یہودی وزیراعظم بن گورین کا یہ اعلان یاد رکھنا چاہیے کہ ’’آج ہم نے یروشلم (بیت المقدس) پر قبضہ کرلیا ہے، اب ہماری اگلی منزل یثرب( مدینہ ) ہے‘‘۔ چوتھی وزیراعظم گولڈا مائیر نے سرزمین ِحجاز کی جانب رُخ کرتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے مدینہ اور حجاز سے اپنے آبا و اجداد کی خوشبو آرہی ہے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے اور ہم نے اسے واپس لینا ہے‘‘۔ حکمرانوں کو یہ حقیقت یاد رہے یا نہ رہے، مسلم اُمت اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ اسی حقیقت کا اعتراف اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کیاتھا :’’ مسلم حکمران تو ہم سے تعاون پر آمادہ ہیں، اصل رکاوٹ مسلم عوام ہیں‘‘۔ صہیونیوں کے خواب یقینا بکھرتے رہیں گے اور مسلمانانِ عالم قبلۂ اوّل سے اپنی محبت اور قبلہ و کعبہ سے وابستگی کو اپنی زندگی کا وظیفہ بنائے رکھیں گے۔ یہی چیز، مسلمانوں کے مداہنت پسند حکمرانوں کی سازشوں کو ناکام بناتی رہے گی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حالات جیسے بھی تباہ کن ہوں)، میری اُمت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، اپنے دشمن کو زیر کرتا رہے گا۔ اس کی مخالفت کرنے والا کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ ہاں، البتہ انھیں تکالیف پہنچتی رہیں گی۔ حتیٰ کہ اللہ کا حتمی فیصلہ آجائے گا اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ صحابۂ کرامؓ نے پوچھا: یا رسولؐ اللہ! وہ کہاں ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا: بیت المقدس میں اور بیت المقدس کے اطراف میں‘‘۔ )ختم شد)