آج آج ہم بڑے ٖخر وانبساط کے ساتھ یوم اساتذہ مناتے ہیں۔ استاد کی عظمت منوانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان مبارک کافی شافی کہ :مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ اُستاد کی عظمت بیان کرنے کے لیے یہی ایک مسکت دلیل ہے۔ کہتے ہیں’’نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا‘‘ مگر یہ بات قابلِ غور ہے کہ نبی کا اُستاد نبی ہوسکتا ہے، جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھی اصطلاحی معنوں میں دوا تالیق تھے: حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام۔ حضرت موسیؑ ٰ نے اپنے والد نسبتی اور اپنے اُستاد حضرت شعیب علیہ السلام کی آٹھ سال تک خدمت کی اور ان کی فیضان ِتربیت میںبہت کچھ اُمور ِ حیات سیکھے۔ اسی لئے علامہ فرماگئے ؎
دمِ عارف نسیم صبح دم ہے
اسی سے خوشہ ٔ معنی میں خم ہے
اگر آئے کوئی شعیب ؑ میسر
شبانی سے کلیمی دوقدم ہے
استاد کی عظمت نہ صرف ایک مستقل بالذات حقیقت ہے بلکہ کوئی بھی معاشرہ یا قوم اسے تسلیم کئے بغیر علم و ترقی کا ایک قدم بھی طے نہیں کرسکتا۔حضور صلی اللہ علیہِ وسلم نے فرمایاہے :’’ابوک ثلاثہ‘‘یعنی تمہارے تین باپ ہی:ایک وہ جو تمہیں اس دنیا میں لا یا، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی بیٹی دی، اور تیسرا وہ جس نے تمہیں علم دیا۔ اور فرمایا کہ ان سب میں سے افضل تمہارے لیے وہ ہے جس نے تم کو علم دیا۔ میرے ناقص خیال میں اُستاد کا مقام ومرتبہ اور اُستاد کی عظمت اس سے زیادہ کوئی بیان نہیں کرسکتا۔اُستاد کسی بھی قوم یا معاشرے کا معمار ہوتا ہے ۔وہ قوم کو تہذیب وتمدن،اخلاقیات اور معاشرتی اُتار چڑھاؤ سے واقف کرواتا ہے اور قومی اخلاقیات کی تاسیس کر تاہے۔ لہٰذا اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اُستاد کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ کسی بھی قوم کامستقبل اس قوم کے اُستاد کے ہاتھ میں براہ راست ہو تا ہے،اُستاد ہی قوم کی ذہنی تربیت اور قلبی نشوونماکرتا ہے، وہی اُسے بتاتا ہے کہ اچھا کیا ہے اور برا کیا ہے۔ گویا کسی بھی قو م کو کوئی حکومت یا نظام تربیت نہیںدیے سکتا جب تک اسے ایک اُستاد ومربی کی تربیتی و تخلیقی خدمات حاصل نہ ہوں۔ خدا لگتی بات کی جا ئے تو قوم کی تباہی یاقوم کی سرفرازی دونوں کا باعث استا د ہی ہوتا ہے ؎
استاد کی عظمت میں ،عظمت ہے زمانے کی
تعظیم ملے اس کو ،آداب سکھانے کی
دنیا میں جو رہنا ہے تعلیم تو لینی ہے
ہر علم ضروری ہے یہ بات خدا نے کی
با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب ہوتا ہے۔قانونِ ارتقاء کی رُو سے باعلم قوموں کو ہی حق حاصل ہے کہ کم علم قوموں پہ حکمرانی کریں۔ اس بات کا زمانہ گواہ ہے کہ ترقی یافتہ قوموںنے ہی اس زمین پر حکمرانی کی ہے اور اَن پڑھ یا اَدھ پڑھ قومیں ان کے ماتحت وغلامی میںرہی ہیں۔ آج اگر ہم قعرِ مذلت میں گرے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ادب کرنا بھول گئے ہیں ؎
اب تو شاگردوں کا اُستاد ادب کرتے ہیں
سنتے ہیں ہم کبھی شاگرد ادب کرتے تھے
اس زمین پر رہتے ہوئے ، سچا اور اچھا لطف کشید کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی انسانی خصلت یعنی ادب اور اخلاق کا دامن کبھی نہ چھوڑیں، پھر چاہے وہ تخلیق کا حسن ہو یا صنعت کی خوبی، تصویر کی دلکشی یا جھرنوں کا ترنم ، آبشار کی موسیقی یا بہاروں کی شمیم ِ جانفزا۔ کچھ بھی ہووہ خالقِ کائنات کی طرف سے ہمارے لیے تحفہ ٔ بہشت ہے۔ہمیں اپنے نصیب سے کبھی شکوہ نہ ہو گاجو ہم پاسِ ادب رکھتے ہوں، ہمیں کبھی مقدر سے گلہ نہ ہو گاجو ہم خصلتاً باادب ہوں۔ ہمیں کبھی کسی ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے جو ہم نے اپنے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیے رکھا ہو۔ ہمیں کبھی رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے جو ہم اپنے معلم کے روبرو نگاہیں جھکانے کے عادی ہوں۔حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کا قولِ مبارک ہے۔’’ جس نے مجھے ایک لفظ سکھایا وہ میرا استاد ہواــ‘‘۔ یہ ہے مقامِ ادب اور اس سے ملتا ہے سچا نصیب۔ سچی دولت جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔آج تہذیب و تمدن کی یہ جو اتنی بڑی عمارت کھڑی ہے۔ اس کے پیچھے اْسی شفیق و محترم ہستی کا ہاتھ ہے جسے اتالیق یا اُستاد کہتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ ، جن کی گردن ہمہ وقت اکڑی رہتی تھی ، اپنے اساتذہ کے سامنے ہمیشہ سر جھکا دیا کرتے تھے۔سکندرِ اعظم یونانی جس نے آدھی سے زیادہ دنیا اپنی تلوار کی دھار پر فتح کی ، ارسطو جیسے معلم اول کا شاگرد تھا۔ یہ مجلسِ یونان ہو، یا ایوانِ قیصرو کسریٰ، یہ خلافتِ بنو عباس ہو یا محمود غزنوی کا دربار، یہ اُندلس کا الحمراء ہو یا ہندوستان کا شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر‘تاریخ شاہد ہے کہ استاد کی عظمت سے اس قدرر بلند پایہ اولولعزم حکمران بھی واقف تھے۔آج اگر اہلِ مغرب ہم سے اس قدر آگے نکل گئے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استاد کا اصل مقام جانتے ہیں۔ اگر دیار مغرب میں پبلک ٹرانسپورٹ میں کوئی سیٹ خالی نہ ہو تو بھی لوگ قوم کے استاد کے لیے سیٹ خالی کردیتے ہیں۔ وہاں عدالت میں اُستاد کی گواہی کو پادری کی گواہی سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ میں رواج ہے کہ جب کوئی طالب علم کامیابی حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے استاد کو سلیوٹ کرتا ہے ، بالکل ویسے جیسے ایک سپاہی اپنے افسر کو سلیوٹ کرتے ہیں۔
کوئی بھی کچھ جانتا ہے تو معلم کے طفیل
کوئی بھی کچھ مانتا ہے تو معلم کے طفیل
گر معلم ہی نہ ہوتا دہر میں تو خاک تھی
صرف ادراکِ جنو ںتھا اور قبا ناچاک تھی
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال ؒ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال ؒ کو وقت کے گورنر جنرل نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔ اقبال نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا، جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبالؒ نے فرمایا:۔’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسنؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے‘‘۔یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے علمی مقالات قلم بندکئے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات کوجانچا پرکھا ہے لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسنؒ صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے؟‘‘یہ سن کر حضرت علامہ اقبالؒ نے جواب دیا :’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے‘‘
تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبالؒ کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن ؒ کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے علاوہ علامہ صاحب نے مزید کہا کہ:’’میرے استاد مولوی میر حسن ؒ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر‘‘اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسنؒ کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبالؒ کے استاد نہ ہوتےلیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن ؒکے نام سے جانے جاتے ہیں۔الغرض استاد کا مقام اور عظمت ہر شئے سے بلند اور بسیط ہے۔ حتیٰ کہ خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اُستاد اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہےاور رسولِ محترمؐ کی حدیث پاک ہے کہ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے تاجر کا خطاب پسند نہ کیا حالانکہ آپ حجاز کے ایک کامیاب ترین تاجر تھے بلکہ آپؐ نے اپنے لیے پسند کیا تو معلم یعنی استاد کا رتبہ ۔ چنانچہ استاد کی عظمت سے کچھ بھی بڑھ کر نہیں۔