ریوا گوجون‘ گلوبل انیلسٹ ہیں اور اس میدان میں وسیع و عریض تجربہ رکھتی ہیں۔ان کا مصنوعی ذہانتوں کے حوالے سے لکھا گیا مضمون پیش خدمت ہے۔''نتائج اچھے نکلیں یا بْرے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی اور اس کو وسعت دینے کا عمل ہی طے کرے گا کہ جاری صدی کیسی رہے گی۔ اس بیان کو آپ کی روح کو خوف کے احساس سے بھر دینا چاہئے یا خوشی اور لطف کے جذبات سے معمور کر دینا چاہئے‘ یہ معاملہ پہلے بھی بحث طلب تھا اور اب بھی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ٹیکنالوجی سے وابستہ نظریہ پسند اور مستقبل کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے والے 'نوعِ مشین‘ کے بارے میں‘ اپنے اپنے تصورات کی ہی عکاسی کریں گے۔ وہ 'نوعِ مشین‘ جو 'تنگ مصنوعی ذہانت‘ سے 'جنرل مصنوعی ذہانت‘ کی جانب ایک بڑی چھلانگ لگا رہی ہے۔دوسری طرف مذہب سے برگشتہ جمائیاں لیتے رہنے والے لوگ ‘سری (تکنیکی طور پر مختلف نوعیت کے کام کرنے کا آسان طریقہ) کی سست رفتار ذہانت اور حالات کو قابو میں کر لینے کی انسانی جبلت کی طرف اشارہ کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت‘عام حالات میں کام کرتے ہوئے نیٹ ورکس‘ مشین کے سیکھنے کا عمل اور گہرائی کسی معاملے کو سمجھنے کی صلاحیت والی ٹیکنالوجیز‘ سب کے لئے ا?ج کل یہی اصطلاح استعمال ہو رہی ہے۔اس کی ترقی یا فروغ میں اتنی مخفی طاقت یا صلاحیت ہے کہ وہ آنے والی دہائیوں میں سول اور فوجی بنیادی زندگیوں کو‘ تبدیل کر کے رکھ دے۔ کوئی بھی اس سے بچ نہیں پائے گا۔ اس سے قطع نظر کہ آپ کوئی کاروباری ہیںجو اپنی اگلی سرمایہ کاری کے بارے میں سوچ بچار میں مصروف ہے‘کوئی ادارہ ہیں‘ جو حال ہی میں سامنے آنے والے کسی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے‘آپ کوئی پالیسی ساز ہیں‘ جو قواعد و ضوابط کے ساتھ نبرد آزما ہیں‘ یا پھر تیزی سے بڑھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے استعمال والی اس دنیا کے عام شہری ہیں‘ یہ واضح رہے کہ مصنوعی ذہانت ایک عالمی طاقت بن چکی ہے اور آپ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا چاہتی ہے۔
روئے زمین پر بسنے والے تمام افراد‘ حتیٰ کہ مذہب سے برگشتہ لوگ بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر مصنوعی ذہانت کو معلومات فراہم کر رہے ہوتے ہیں‘ہر دن کے ہر منٹ بلکہ ہر سیکنڈ میں۔ گوگل کی ہر سرچ‘ ٹوئٹر کی ہر پوسٹ‘ فیس بک کا ہر اشتہار اور ایمازون (یا علی بابا) سے ہر خریداری ایک ایسی 'کلک‘ ہے جو اعداد و شمار کے پہاڑ بنا رہی ہے۔ پوری دنیا میں روزانہ 2.2 بلین گیگا بائٹ کا ایسا پہاڑ بنتا ہے۔ کمپنیاں یہ اعداد وشمار انسانی رویوں کو جانچنے ‘ ان سے رابطوں میں مناسب تبدیلی لانے اور اپنے حساب و شمار کو بہتر بنانے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ اس سے اخلاقیات کا پابند (یا شیطانی‘ جیسا آپ مناسب خیال کریں) ایک ایسا چکر (cycle) بنتا ہے‘ جس کے اعداد و شمار بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔جتنے زیادہ لوگ ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کو استعمال کریں گے‘ اتنا ہی زیادہ اعداد و شمار اکٹھے ہوں گے۔ جتنا زیادہ ڈیٹا اکٹھا ہو گا‘ مصنوعات کو اتنا ہی زیادہ بہتر بنایا جا سکے گا۔
ماضی میں ظاہر ہونے والے مصنوعی ذہانت کے ابھاروںکے برعکس‘ اب اس ٹیکنالوجی کی ترقی جدید کمپیوٹر پاور کے دور میں ہو رہی ہے‘ جہاں گرافیکل پروسیسنگ یونٹس (جی پی یوز) اور کسٹم کمپیوٹر چپس کی تیاری اور اس میں بہتری لانے کا عمل مصنوعی ذہانت کے پروگرام تیار کرنے والوں کو زیادہ صلاحیت والے ہارڈ ویئر فراہم کر رہا ہے تاکہ اس کی کارکردگی بڑھائی جائے اور ان کے لوگرتھم کے تربیت کے حوالے سے لاگت کو کم کیا جا سکے۔ مصنوعی ذہانت کے ہارڈ ویئر اور سافت ویئر کی ترقی میں مدد کے لئے اس شعبے (مصنوعی ذہانت) میں سرمایہ کاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت مختلف عوامل کو آگے بڑھانے والی چیز ہے اور اس کے ساتھ ساتھ گلوبل آرڈر کو نئی شکل دینے میں مصروف قوتوں کی جانب سے کی جانے والی سرگرمیوں کا نتیجہ اور حاصل بھی۔ عمر بڑھنے کے حوالے سے علمِ شماریاتِ ا?بادی‘ جو ایک بے مثال اور واپس نہ موڑا جا سکنے والا عالمی مظہر ہے‘ مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لئے عمل انگیز کے طور پر کام کرتا ہے۔ جب آبادی کی عمر بڑھتی ہے اور یہ سکڑتی ہے تو ریاست پر مالی بوجھ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور لیبر کی پیداواری صلاحیت کم ہو جاتی ہے‘ جس کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ساتھ معاشی بڑھوتری کا عمل سست پڑ جاتا ہے۔ ترقی یافتہ صنعتی معیشتیں پہلے ہی بڑھتی ہوئی عمر کے علم پر مبنی‘ اعداد و شمار کے منفی اثرات سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ‘ اور وہ حکومتیں جو امیگریشن کے حوالے سے نازک مزاج واقع ہوئی ہیں‘ مشینی ٹیکنالوجیز کی تلاش میں ہیں تاکہ پیداوار کو بڑھایا جا سکے اور لیبر کے حوالے سے بڑھتے ہوئے مسائل کے تناظر میں معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بالا دستی حاصل کرنے کی دوڑ‘ امریکہ اور چین کے درمیان طاقت کے بڑھتے ہوئے مقابلے میں واضح طور پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ 2016 ء میں چین کو اس وقت شدید صدمہ پہنچا جب گوگل ڈیپ مائنڈ کی الفا گو (alpha go) نے ورلڈ چمپئن آف گو‘ جو ایک قدیم چینی سٹریٹیجی گیم ہے‘ کو پیچھے چھوڑ دیا ( چین میں مصنوعی ذہانت کے منصوبہ سازوں نے اس واقعہ کو اپنا 'سپوتنک مومنٹ‘ قرار دیا تھا) پھر چین کو اس وقت بھی شدید صدمہ پہنچا‘ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کر دی یا جب مغرب نے یہ کہا کہ حساس ٹیکنالوجی چینی مسابقت کاروں کے ہاتھوں میں نہیں جانے دینا چاہئے۔ اب پچھلے چند برسوں میں چین نے مصنوعی ذہانت کے اپنے پروگرام کو بے حد تیز رفتاری سے ترقی دی ہے تاکہ امریکہ کے ساتھ مقابلے بازی میں اس شعبے میں کسی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
مصنوعی ذہانت کی بات کی جائے تو امریکہ کو اس شعبے میں غلبہ حاصل ہے۔ چین کی آبادی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اس لئے اس کے پاس ڈیٹا پول بھی سب سے بڑا ہے‘ لیکن سیمی کنڈکٹر ڈویلپمنٹ میں وہ امریکہ سے بہت پیچھے ہے، لیکن ء تک چین کے پاس عزم اور جذبے کی کمی نہیں ہے؛ چنانچہ اس نے تہیہ کر رکھا ہے کہ 2030 مصنوعی ذہانت کے میدان میں پوری دنیا میں سب سے آگے ہو گا‘ حتیٰ کہ امریکہ سے بھی آگے۔ چونکہ اس عرصے میں چین نے تیزی سے ترقی کا عزم کر رکھا ہے ‘ تو مغرب کو اخلاقی معاملات‘ پرائیویسی کے تقاضوں اور اعتماد و بھروسے کے خلاف اقدامات کے حوالے سے خاصے خدشات نے گھیر رکھا ہے۔ چین مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اپنے طے کردہ مقاصد کے حصول اور اہداف کو پورا کرنے کیلئے سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ وہ یہ کام اپنے پہلے سے قائم ٹیکنالوجی کے چیمپئنز کے ذریعے کر رہا ہے اور یونی کورنز یا ایک ارب ڈالر سے زیادہ قیمت کے نجی اداروں کو بھی آگے آنے کی دعوت دے رہا ہے۔ اس سلسلے میں نئے ادارے بناتے ہوئے اور پہلے سے کام کرنے والے سیٹ اَپس کو رقوم فراہم کرتے ہوئے چین اپنی توجہ اس بات پر مرتکز کئے ہوئے ہے کہ ان ٹیکنالوجیز پر فوکس کیا جائے ‘جو ریاست کیلئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں۔ امریکہ میں صورت حال اس کے برعکس ہے۔ وہاں امریکہ میں کام کرنے والی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو حقیقی قومی چمپئن قرار دیا جاتا ہے‘ جن کے کارپوریٹ منافعوں کا دارومدار دوسرے ممالک پر ہے۔ بجائے اس کے کہ ریاست زیادہ خطرے اور گہرا تاثر قائم کرنے کی صلاحیت والی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی ترقی کیلئے فنڈز فراہم کرتی‘ جیسا کہ ماضی میں کیا جاتا رہا تھا‘ مغرب کا کردار الٹا دیا گیا ہے۔ پرائیویٹ ٹیک کمپنیاں ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہو چکی ہیں جبکہ ریاست سٹیرنگ ویل پر قبضہ کئے حالات کو اپنے قابو میں کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے‘‘۔
''ممکن ہے امریکیوں نے یہ سوچا ہو کہ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی ‘پوری دنیامیں پھیلی نظریاتی جنگوں کا بھی خاتمہ ہو جائے گا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ترقی اور وسعت کے معاملات امریکہ اور چین کے مابین‘ نئے نظریاتی میدانِ جنگ کا اہتمام کر رہے ہیں‘ جب کہ اس دوڑ میں مغرب کا چین کے استبدادانہ ڈیجیٹل اقدامات کے خلاف لبرل ڈیموکریسی کا نعرہ کہیں پس منظر میں جا چکا ہے، جیسا کہ نیورو سائینٹسٹ نکولس رائٹ نے اپنے ایک مضمون ''مصنوعی ذہانت کیسے گلوبل آرڈر کو نئی شکل دے گی؟‘‘ میں لکھا ہے کہ چین کا مصنوعی ذہانت کا پلان 2017ء بتاتا ہے کہ کس طرح کسی گروپ کی شناخت کا مکمل پتہ چلانا ؟اور اس کی بنیاد پر اس کے بارے میں پیش گوئی کر سکنے کی اہلیت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت‘ سماجی تعمیر کے حوالے سے نئے مواقع پیدا کرتی ہے۔ اس ترقیاتی پروگرام میں مرکزی حیثیت ‘چین کے سوشل کریڈٹ سسٹم کو حاصل ہے ‘جو 2020ء تک مکمل طور پر کام کرنا شروع کر دے گا۔ اس کے تحت کسی بھی شہری کی روزانہ کی سرگرمیوں کو سامنے رکھ کر ایک سکور مرتب کیا جا سکتا ہے ‘ جس کے ذریعے پھر یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ اس کے قرضہ حاصل کرنے کی اہلیت کتنی ہے؟ یا پھر اس کے بچے کن سکولوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں؟
مصنوعی ذہانت کے ذریعے چہرے کی شناخت اور نگرانی کے حوالے سے اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کو‘ کنٹرول کرنے کی صلاحیت پیدا کرناتاکہ سماجی طرز عمل کو منظم کیا جا سکے۔ رائٹ نے لکھا ہے کہ کیسے بیجنگ نے تھائی لینڈ اور ویت نام کو گریٹ فائروال (انٹرنیٹ کے حوالے سے سکیورٹی کا ایسا نظام‘ جس میں اس سافٹ ویر کو استعمال کرنے والوں کی معلومات ایک جگہ اکٹھی ہوتی رہتی ہیں) ماڈل برآمد کئے تھے تاکہ انٹرنیٹ کو بلاک کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ چین نے کڑی نگرانی کی ٹیکنالوجی ایران‘ روس‘ زمبابوے ‘ زیمبیا اور ملائیشیا کو سپلائی کی۔ اس سے نہ صرف چین کو امریکہ کی سرکردگی میں چلنے والے گلوبل آرڈر کا متبادل فراہم کرنے میں مدد ملی بلکہ چین کو ایک بڑے ڈیٹا پول تک رسائی بھی حاصل ہو گئی‘ جس سے اس کو پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے اپنی طاقت بڑھانے کا موقع میسر آیا۔یورپ اور روس بھی مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتے‘ چنانچہ وہ بھی اس شعبے میں اپنی مہارت بڑھانے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں‘ لیکن امریکہ اور چین اس معاملے میں جس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں اور ا?گے بڑھ رہے ہیں‘ یورپ اور روس بالآخر اس رفتار کو پا نہیں سکیں گے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے جب گزشتہ سال روسی نوجوانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ جو مصنوعی ذہانت پر حکمرانی کرے گا‘ وہی پوری دنیا کا حکمران ہو گا‘ تو ان کے اس بیان کو شہ سرخیوں کا موضوع بنایا گیا تھا‘ لیکن روس کچھ داخلی کو سامنے رکھا جائے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ اسے بڑی احتیاط کے ساتھ یہ انتخاب کرنا ہو گا کہ اس نے اسے اپنا مال کہاں پھینکنا ہے؟
یورپ کی بات کی جائے ‘تو فرانس پورے یورپ کیلئے مصنوعی ذہانت کا ایک ایکو سسٹم بنانے کے سلسلے میں نہایت پْرعزم ہے اور اس حوالے سے اس نے کئی منصوبے بنا رکھے ہیں۔ دوسری جانب جرمنی اس اندیشے سے خوف زدہ ہے کہ اس کو صنعتی لحاظ سے جو ایک برتری حاصل ہے ‘جو امریکہ اور چین کی مسابقت کی وجہ سے ختم ہو جائے گی۔ یہ دونوں معاملات یورپی یونین میں دو بڑے فریکچرز ہیں‘ جن کے اثرات سے بچ نکلنا ممکن نہیں۔ یورپی یونین کا بوجھل ریگولیٹری ماحول اور بکھری ہوئی مارکیٹ‘ دونوں ٹیکنالوجی کے حوالے سے کسی بڑے آغاز کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ حقیقت یونی کورن کمپنیوں کی قدر و قیمت اور عالمی مارکیٹ میں اس یونین کے کم شیئر سے بھی واضح ہوتی ہے۔ برطانیہ فی الوقت یورپی یونین کا حصہ ہے اور اسی کے پاس ٹیک ٹیلنٹ کا سب سے بڑاپول ہے‘ لیکن وہ یورپی یونین کے سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بننے والے قواعد و ضوابط سے نجات پانے والا ہے کیونکہ اس نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ماہرین بیش قدر عالمی سرمایہ ہیں۔ ایلیمنٹ اے آئی (Element AI) کی جانب سے امسال کی گئی‘ ایک ریسرچ کے مطابق‘ دنیا بھر میں اس وقت کم و بیش 22000 ڈاکٹریٹ لیول کے ریسرچرز موجود ہیں‘ لیکن ان میں سے محض 3000 ہی کام کی تلاش میں ہیں‘ اور لگ بھگ 5400 اپنا تحقیقی کام اے آئی کانفرنسز میں پیش کر رہے ہیں۔ امریکہ اور چین کے ٹیک جائنٹس مصنوعی ذہانت کے ماہرین کے اس چھوٹے سے پْول کو اپنے قبضے میں کرنے کیلئے کئی طرح کے اقدامات کر رہے ہیں‘ جیسے ان کو اپنے اندر ضم کر لینا‘ خرید لینا یا حاصل کر لینا‘ طاقت کے ذریعے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرنا اور پیرس‘ مونٹریال اور تائیوان میں اس شعبے کی نئی لیب کھولنا۔ ایسا نہیں کہ یورپ کے پاس ان ٹیک جائنٹس کو خود سے دور رکھنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ کئی طریقے استعمال کئے جا سکتے ہیں‘ جیسے پرائیویسی قوانین‘ پالیسیوں پر ٹھیک طرح سے عمل نہ کرنے پر بھاری جرمانے‘ ڈیٹا لوکلائزیشن‘ ٹیکسیشن اور اس شعبے میں سرمایہ کاری پر پابندی یا رکاوٹیں۔ بلاک کی جانب سے جو جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشنز وضع کی گئی ہیں‘ اس کے نتیجے میں ذاتی اور نجی نوعیت کے ڈیٹا پر لوگوں کا کنٹرول بڑھ جائے گا‘ کیونکہ ان ریگولیشنز کے تحت ڈیٹا سٹوریج کا دورانیہ محدود کر دیا گیا ہے۔
ڈیٹا پرائیویسی اور مقابلہ بازی جیسے معاملات پر امریکہ کے تفکرات کسی بھی طور یورپ والوں سے کم نہیں ہیں‘ لیکن ان مسائل پر قابو پانے کے حوالے سے امریکہ کی سوچ یورپ سے مختلف ہے۔ آزادانہ اظہارِ خیال کے حوالے سے کسی فرد کے پرائیویسی حقوق کی پاس داری یورپ والوں کے لئے ترجیح ہیں‘ لیکن امریکہ کی نہیں۔ اسی لئے امریکہ اس کے بالکل برعکس چل رہا ہے۔ برسلز میں بھی مصنوعی ذہانت کے معاملے پر کچھ پیش رفت ہو رہی ہے‘ لیکن وہ اس حوالے سے بے لاگ رہنے کا عزم کئے ہوئے ہے‘ چاہے اس کیلئے بلاک (یورپی یونین) کے اندر ہی مسابقت کیوں نہ شروع ہو جائے۔ امریکہ اس معاملے میں محتاط ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اپنے ٹیک چیمپئنز کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ اس طرح واشنگٹن سائبر پالیسی کے لئے بین الاقوامی قواعد و ضوابط وضع کرنے کے معاملے میں بیجنگ اور برسلز سے خاصا پیچھے ہے۔ مصنوعی ذہانت پر کام کرنے والے بڑے ناموں کا دعویٰ ہے کہ آئی اے مختلف صنعتوں ‘ جیسے آٹو‘ انشورنس‘ اقتصادیات‘ تعمیرات اور سکیورٹی ‘ میں بڑے مالی حصول کا سبب بن سکتا ہے۔ پی ڈبلیو سی کی 2017ء کی رپورٹ کا تخمینہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت 2030ء میں پوری دنیا کی معیشت میں 15.7 ٹریلین ڈالر کا حصہ ڈالے گی‘ جس میں سے 6.6 ٹریلین ڈالر پیداوار میں اضافے کی مد میں حاصل ہو گا‘ جبکہ 9.1 ٹریلین ڈالر مصنوعات اور پیداوار کے استعمال میں اضافے کے نتیجے میں آئیں گے۔ تاہم ان ساری پیش رفتوں کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کسی ملک کی ورک فورس کتنے بہتر انداز میں؟ کتنی تیزی سے ؟اور کتنا ان تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ چل سکتی ہے؟ مصنوعی ذہانت کا انقلاب دنیا میں کیا تبدیلیاں برپا کرے گا؟ یہ پتہ چلانے کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔