رواں سال کے آغار میں جب کٹھوعہ کے مضافاتی علاقہ رسانہ میں ایک کمسن لڑکی کی مبینہ اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کا واقعہ سامنے آیا تو نہ صرف پوری ریاست سکتے میں آگئی بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اُس بہیمانہ واقعہ کے خلاف برہمی کا اظہار کیاگیا۔احتجاجی مظاہرے ہوئے اور انسانی سماج میں اخلاقی قدروں کی تنزلی پرتشویش ظاہر کی گئی ۔گوکہ ابھی وہ کیس عدلیہ میں زیر سماعت ہے اور انسانیت سوز واقعہ میں ملوث افراد کو سزا ملنی باقی ہے تاہم اسی دوران گزشتہ دنوں کٹھوعہ سے بہت دور وادی کشمیر کے سرحدی علاقہ ترکانجن اوڑی میں9سالہ کمسن بچی کی اجتماعی آبرو ریزی اور قتل کا دل دہلانے والا واقعہ منظر عام پر آگیا ۔یہ واقعہ کٹھوعہ سانحہ کے مقابلے میں زیادہ کٹھور ہے کیونکہ اس میں کوئی غیر ملوث نہیں ہیں بلکہ حیوانیت کے اس فعل میں گھر کے اپنے لوگ ملوث ہیں۔یہ اپنے آپ میں رونگٹے کھڑا کردینے والی درد ناک کہانی ہے کہ کس طرح ایک سوتیلی ماں نے اپنے بیٹے اور اُس کے دوستوں کو استعمال کرتے ہوئے اپنی کمسن سوتیلی بیٹی کی پہلے آبرو تار تار کروائی اور اس کے بعدسفاکیت کی تمام حدود پار کرکے اپنے ہاتھوں سے اس ننھی پری کا قتل کیا ۔اس سانحہ کی تفصیلات نہ صرف دل کو چیر دینے والی ہیں بلکہ شرمسار کرنے دینے والی بھی ہیں اور اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ہمارا سماج اخلاقی پستیوں کی کن گہرائیوں کی جانب گامزن ہے ۔ترکانجن واقعہ کی تفصیلات سب کے سامنے ہیں اور وہ تفصیلات قطعی کشمیری سماج کیلئے اطمینان بخش نہیں ہیں بلکہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہیں۔جب کٹھوعہ کا واقعہ پیش آیا تو ہم نے آسمان سر پر اٹھالیا ۔کٹھوعہ اور اوڑی واقعات ایک ہی نوعیت کے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ کٹھوعہ میں دو مذاہب کے لوگ ملوث تھے جبکہ اوڑی سانحہ میں کلمہ خوانوںنے ہی حوا کی بیٹی کی قبا چاک کرنے کے علاوہ اس کی سانسیں روک لیں۔کہاجاتا ہے کہ کٹھوعہ سانحہ کے پیش نظر فرقہ وارانہ سوچ بھی تھی ۔کیا واقعی ایسا تھا ،وہ تو عدالتی کارروائی کے بعد ہی سامنے آجائے گالیکن اوڑی سانحہ میں ایسی کوئی صورتحال نہ تھی بلکہ یہاں تو کل تک ایک ہی چھت کے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگ درندگی پر اتر آئے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان کتنا کٹھور بن چکا ہے ۔مانا کہ ترکانجن کے اس کنبہ میں دو سوتنوں کی موجودگی سے تنائو کا ماحول قائم تھااور سگے و سوتیلے کے رشتے بن چکے تھے تاہم یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ آپ اپنا انتقام چکانے کیلئے اس حد تک جائیں کہ ایک ادھ کھلے پھول کو ہی مسل کر رکھ دیاجائے۔آخر یہ کیسی ماں ہوگی جس نے اپنی آنکھوںکے سامنے ایک بے بس اور معصوم کلی کی عصمت تار تار کروائی اور پھر اپنے ہاتھوں سے نہ صرف اُس کا قتل کیا بلکہ اپنے بیٹوں اور اُس کے دوستوں کے ساتھ اس شیطانی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے لاش جھاڑیوں میں چھپا لی ۔ اسلام تو کہتا ہے کہ ماں کے قدموںکے نیچے جنت ہے ۔عورت کا درجہ بہت اعلیٰ ہے لیکن ایسی ماں اور ایسی عورت تو اس قبیل کے منہ پر ہی بد نما داغ ہے ۔بھائی بہن کا رشتہ پیارو محبت کا ہوتا ہے اور بھائی اپنے بہن کی عزت و عفت کا نگہبان ہوتا ہے لیکن یہ کیسا بھائی ہے جو اپنی اُس بہن کی عزت پر ہی ڈاکہ ڈالے جو ابھی عزت و ناموس کے تصور سے ہی بے بہرہ ہو۔یہ کیسا محافظ جو اپنی شیطانی ہوس بجھانے کے بعد اپنی بہن کوموت کے سپرد کردے۔ایسے واقعات کی کشمیری سماج میں قطعی کوئی گنجائش نہیںہے ۔کشمیری سماج میں اس طرح کے واقعات کی کوئی نذیر نہیں ملتی ہے بلکہ یہ سماج اپنی اخلاقی اقدار کی وجہ سے مشہور تھا تاہم ترکانجن کے واقعہ نے کچھ سوالات کھڑا کردئے ہیں جنکے جوابات آج نہ دئے گئے تواس سماج کی منزل تباہی وبربادی کے سوا کچھ نہ ہوگی۔ اس واقعہ کی ہر طرف سے مذمت ہو رہی ہے لیکن مذمت ہی کافی نہیں ہے بلکہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے ایک تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔جدید سائنسی دور نے بے شک ہماری زندگی آسان کردی ہے لیکن دین اور اخلاقی علوم سے دوری نے انسانی سماج کو درندگی سے آشکار کردیا ہے اور اب انسان میں درندوںکے صفات پنپنے لگی ہیں ۔علم و آگہی تو فروغ پا گئےہیں لیکن اخلاقی قدریں بتدریج ناپید ہوتی گئیں اور اب حالت یہ ہے کہ صوفیوں اور ریشیوںکی اس سرزمین پر جہاں انسانوں کا قتل عام ہوچکا ہے وہیں اب کمسن کلیوںکی اجتماعی عصمت ریزی اور سفاکانہ قتل کی وارداتیں بھی پیش آنے لگی ہیں ۔بہت ہوچکا !غفلت میں رہے تو ہماری خیر نہیں ہوگی ۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم انفرادی خول سے باہر نکل کر اجتماعی فلاح کیلئے اجتماعی سوچ اختیار کریں اور اس سماج کو اُسی شان رفتہ تک لے جائیں جس پر ہمیں کبھی ناز تھا۔اس ضمن میں نہ صرف ترکانجن واقعہ ملوثین کو عبرتناک سزا دلوانے کیلئے ایک مؤثر تحریک چلانا لازمی بن چکا ہے وہیں کٹھوعہ سانحہ کی طرح ہمیں زندہ ضمیری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اس سانحہ کے خلاف بھی اپنی آواز بلندکرنا ہوگی تاکہ کل کوئی یہ الزام نہ دے سکے کہ ہماراطرز فکر بھی فرقہ وارانہ ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس سماج کی اخلاقی بنیادوںپر تشکیل نو ناگزیر بن چکی ہے ۔اخلاقی قدریں مستحکم ہوں تو سماج لاکھ مشکلات کے باوجود بکھر تا نہیں ہے تاہم اگر یہ قدریں ہی متزلزل ہوں تو ایسے سماج کو نیست و نابود ہونے سے کوئی نہیں بچاسکتا۔اس لئے ہمیں ایک ہوکر کشمیری سماج کے بکھرے تانے بانے کو ایک لڑی میں پرونا ہوگا تاکہ یہاں اخلاقیات کا بول بالا ہو اور جرائم کی دلدل سے یہ سماج نکل کر اخلاقیات کی انتہا کو پہنچ سکے جہاں حوا کی بیٹی محفوظ ہو اور آدم کی اولاد حقیقی نگہبان بن سکے۔