نئی دہلی//سپریم کورٹ نے دو بالغوں کے درمیان باہمی رضامندی سے ہم جنس پرستی تعلقات کو جرم کے زمرے سے آج باہر کر دیا۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے رضامندی کے ایک فیصلہ میں تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کو چیلنج دینے والی درخواستوں کو منسوخ کر دیا۔ اس معاملہ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس روھنگٹن ایف نریمن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا نے الگ -لگ لیکن رضامندی کا فیصلہ سنایا۔ یہ عرضیاں نوتیج جوھار اور دیگر نے دائر کی تھیں۔ ان درخواستوں میں دفعہ 377 کو چیلنج کیا گیا تھا۔ادھر عدالتِ عظمی کے ذریعے دستور ہندکی دفعہ377؍دفعہ میں ترمیم کرکے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کیے جانے کو افسوسناک قراردیتے ہوئے ممبرپارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے کہاکہ عدالت کایہ فیصلہ آئندہ کے لئے اس ملک کے سماجی سسٹم اور اجتماعی ڈھانچے کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔مولاناقاسمی نے کہاکہ ہم صرف اس حیثیت سے ہم جنس پرستی کو غلط نہیں سمجھتے کہ اسلام نے اسے غلط قراردیاہے بلکہ عام سماجی نقطئہ نظر سے بھی ہم جنس پرستی ایک نقصان دہ عمل ہے اوراس سے خاندانی وعائلی نظام کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کا شدید خطرہ پیدا ہوجائے گا۔مولانااسرارالحق نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ آج دنیاکی وہ قومیں جو اپنے آپ کو مہذب اور ترقی یافتہ سمجھتی ہیں،وہیں سے اس قسم کے قطعی غیر مہذب اور غیر فطری رجحانات پیدا ہوتے اور پوری دنیامیں پھیلتے ہیں۔انہوں نے موجودہ حکومت کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کوچاہئے کہ اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرے کیوں کہ ماضی میں بی جے پی اوراس کی ہمنواسیاسی و غیر سیاسی جماعتیں ہم جنس پرستی کی کھلی مخالف رہی ہیں،مگر ابھی جبکہ یہ جماعت حکومت میں ہے توایسا لگتاہے کہ سیاسی اغراض یا کسی دباؤ کے تحت وہ بھی ہم جنس پرستی کے جواز کی قائل ہوگئی ہے ۔مولانااسرارالحق نے کہاکہ ہمیں عدالت عظمی اور معززجج صاحبان کی دوراندیشی اور بصیرت پر اعتمادہے ،ہم اپیل کرتے ہیں اورامید کرتے ہیں کہ وہ اس فیصلے کے عواقب و مضمرات پر غور کریں گے اور کوئی ایسی صورت نکالیں گے ،جو ہندوستان کی ہزاروں سال کی مشترکہ سماجی تہذیب و ثقافت سے ہم آہنگ ہو اورغیر فطری نہ ہو۔یو این آئی۔