چار سال سے زائد عرصہ قبل نریندر مودی کی سربراہی میں بھاجپا نے مرکزمیں اقتدار سنبھالا تو لوگوں کی اُمیدیں بندھی تھیںکہ کچھ نہیں تو کم از کم انہیں مہنگائی سے چھٹکارا ملے گا، روزگار ملے گا، زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم ہوںگی۔ آج یہ سب چیزیں خواب وخیال لگتے ہیں ۔ عام جنتا کے لئے اچھے دنوں کا مدعا ومقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات پاکر سُکھ چین کی زندگی گزاریں ۔ بلاشبہ بھاجپا کی کامیابی کے پیچھے اصل راز بھی یہی تھا کہ لوگوں کی اکثریت ملکی معیشت میں ایک دیرپا اور نتیجہ خیز تبدیلی کے خواہاں تھے تاکہ انہیں روز مرہ مسائل ومشکلات کے بھنورسے گلو خلاصی ملے۔ تبدیلی کے اسی خواب کو مودی نے بروقت بھانپ کر عام لوگوں کی اس قلبی آرزو کو ایک سیاسی حقیقت میں بد لنے کی ٹھان لی تھی اور اپنی کارگر و موثر تشہیری اسٹرٹیجی وضع کرکے خودکو کانگریس کے متبادل کے طورپیش کیا تھا۔ا ب کی بار مودی سرکار کے نعرے کا لب لباب یہی تھا کہ لوگ ان کو وٹ ڈال کراپنی گردنوں کو مہنگائی ، بدعنوانی اور ہمچوقسم کے مصائب و مشکلات سے نجات دلائیں گے ۔ ظاہر ہے اس نعرے میں رائے دہندہ گان کو اپنے لئے راحت کا پیغام نظر آیا تھا، ا س لئے انہوں نے کانگریس سے یکسر نظریں پھیر کر بھاجپا کے حق میں ووٹ ڈال دئے لیکن بہت جلدعوام الناس کو جب ریل کرائے اور کنگ گیس کے نرخوں میں اضافے کا تلخ گھونٹ اپنے گلے کے نیچے اُتارنا پڑ ا تو انہیں لگاکہ ان کے سب خواب چکنا چور ہوگئے ۔ اب پٹرول اور ڈیزل کے دام آسمان کو چھونے لگے ہیں اور روپیہ کی قدرمیں مسلسل گراوٹ آرہی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مودی سرکار میں عوام کی معاشی مشکلات، بے روزگاری اور مہنگائی میں لگاتار اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ دُرست ہے کہ انتخابی وعدے کرتے ہوئے سیاسی لیڈروں کے لئے خیالی جنتیں بنا نا آسان ہوتاہے مگر عملی دنیا میں ان جنتوں کو قائم کر دکھانا بہت کٹھن ہوتا ہے ۔ مودی جی اس عموم سے مستثنیٰ نہیں۔ بہرصورت ملکی سطح پر مہنگائی کا کچھ اثر ریاست میں بھی دیکھا جارہا ہے ۔ حق یہ ہے کہ یہاںکمر توڑ مہنگائی میں کمی آنے کی بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں شدت وحدت پیدا ہو رہی ہے۔ اشیائے خوردنی کی قیمتیں من مانے انداز میں چڑھتی جارہی ہیں۔ اس وقت بازاروں کا حال یہ ہے کہ آٹے دال ، ساگ سبزی اور گوشت پولٹری وغیرہ کے نرخ پل پل بڑھتے جارہے ہیں۔ اُدھر کہنے کو جو سرکاری نرخ نامے مشتہر کئے جاتے ہیں ، خرید وفروخت میں عملاًان کی طرف گاہک یا دوکاندار ادنیٰ توجہ بھی نہیں دیتے ۔ دوکاندار تو دوکاندار ، خریدار بھی یہ قبل ازوقت جا ن رہے ہوتے ہیں کہ کسی چیز کی جو قیمت ریٹ لسٹ پر دی گئی ہے،اس کا بیچنے یا خریدنے میں قطعاًکو ئی عمل دخل نہیں ۔ صارفین کو خود غرض اور گراں فروش دوکانداروں سے بچانے کے لئے ایک سرکاری صیغہ مارکیٹ چکنگ اسکارڈ کے نا م سے موجودہے مگر یہ مکمل طور مفلوج ہے۔ یہ صیغہ ہمیشہ سے گراں فروشوںاور ذخیرہ اندوزوں کا مافیا توڑ نے سے کنی کترا تارہا ہے ، شاید وجہ یہ ہے کہ انہی کے دم قدم سے ان کااپنا حقہ پانی چلتا رہتاہے ۔ نتیجہ یہ کہ عام آ دمی یا صارف کو بازاروںمیں ہر چیزسر کاری نرخوں پر نہیں بلکہ دوکانداروں اور ریڑھی بانوں کی منہ ما نگی قیمتوں پر حاصل کر نا پڑ رہی ہے ۔ ایڈمنسٹریشن کی تغافل شعاری کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ برسہا برس سے یہاں معمولی سرکاری اہل کار سے لے کر اعلیٰ افسرتک کومواخذے کاڈر یا جوابدہی کاخوف ہی لاحق نہیں ، لہٰذا ان کوکبھی یہ چٹی نہیں پڑتی کہ ذراسا عوامی راحت کو اہمیت دیں ، البتہ یہ فکر ضرور لگی رہتی ہے کہ کسی طرح حرام کمائی سے اپنی جیبیں موٹی کریں ۔ اس نراج کے سبب عام صارفین کو بازاروں میں جو مختلف النو ع ما ریں سہنا پڑ رہی ہیں کہ غر باء کا زندہ رہنا دشوار سے دشوار تر ہو رہا ہے ۔ ان ناگفتہ بہ حالات میں ڈویژ نل انتظامیہ کی فعالیت سے عام آدمی کا کچھ نہ کچھ بھلا ہو تا ، لیکن اس کا وجود بھی محض علامتی سا دکھا ئی دے رہا ہے ۔ بنا بریں عام آد می بازاروں میں ساری بلا ؤ ں کا تختۂ مشق بن رہا ہے ۔ حال یہ ہے کہ نانوائی روز بروزروٹی کا وزن کم کر رہے ہیں ، قصاب گوشت کے سرکا ری ریٹ لسٹ کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی من مانیوں کے خوگر بنے ہوئے ہیں، سبزی فروش گاہکوں سے اپنے ہی مقررکردہ قیمتیں وصول کر کے ہی دم لیتے ہیں ۔ ایسے میں نمائشی طور بھی کسی جگہ ما ر کیٹ چیکنگ اسکا رڈ کا نام ونشان نہیں دِکھتا۔ حکام کا یہ انو کھا اسلوبِ کا ر دیکھ کر عام آدمی کویہ سوال چکرا تا ہے کہ آخر سرکا ری محصولات سے لے کر اشیا ئے خور دنی تک کی قیمتیں متواتر آسمان تک بڑھا کر عام آ دمی کو بلی کا بکرا بنانے میں انتظامیہ کوذ ہنی سکون کیوں محسو س ہورہا ہے؟ آج تک یہی دیکھا جاتا رہاہے کہ عام لوگ کبھی حرف شکا یت زبا ن پر لا نے کی بھو ل کر یں تو پو لیس ڈنڈوں سے ان کی زبا ن بند ی کرائی جا تی ہے، پینے کے صاف پانی کا مطا لبہ کریں تو نظراندا ز کئے جاتے ہیں، بجلی سپلائی میں معقولیت کی مانگ کریں تو حکام سے گراں گوشی کی بے نیازی پا ئیں،سڑک اور نالی کی تعمیر و مرمت میںبے انتہاتساہل کارونا رویں تو کسی کے کا ن پر جو ں تک نہیں رینگتی۔ بہر صورت اگر گورنر انتظامیہ واقعی چاہتی ہے کہ یہ فاسد کلچر عام آ دمی کا بیڑہ مزید غرق نہ کر ے، تو اسے اول گراں فروشی کے حوالے سے قانون شکنی کے مرتکب ہر فرد بشر کو پکڑنا چا ہیے ، دوم عوامی خدمات کے شعبے میں فوراً سے پیشتر سدھار لا یا جا نا چا ہیے تاکہ پبلک سروسز گارنٹی ایکٹ ایک کاغذی گھوڑا ثابت نہ ہو ، سوم گرا ں بازاری کے ذمہ دار عنا صر کے خلاف قانونی کارروائی کر نی چاہیے تاکہ اس عام تا ثر کو جھٹلا یاجاسکے کہ خو د انتظامی مشنری کے کارندے مہنگا ئی کوبڑ ھا وا دینے والو ں کی پشت پنا ہی کر رہے ہیں ، چہارم مارکیٹ چیکنگ اسکارڈ کو جمود کے لحاف سے نکال باہر کر نا چاہیے ، پنجم بلیک مارکیٹنگ کر نے والوں کو از روئے قانون ایسی کڑی سزا دی جائے کہ دوسرے عبرت پکڑیں ۔ اگر عملا ً یہ سب کیا گیا تویہ عام آ دمی کے تئیںگورنر راج کا جذ بۂ خیر سگا لی سمجھا جائے گا جس کی صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے لوگ گز شتہ سالہا سال سے ترس رہے ہیں۔