کیرالاآج انسانی تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے اور یہ 1924ء کے بعد اب تک آنے والا 99واں مہیب ترین اور تباہ کن سیلاب ہے۔سیلابی پانی کے ریلوں میں بستیاں ابھی تک زیر آب ہیں، اب تک انسانی جانیںتلف ہوچکی ہیں ،دس ہزار سے زائدمکانات سیلابی ریلے میں ڈَھ گئے یا بہہ گئے ہیں۔ ایک سرکاری تخمینے کے مطابق26؍ہزار رہائش گاہیں تباہ ہوچکی ہیں ۔ہیبت انگیزسیلاب کی تبا ہ کاریوں پر ہر سُو چیخ و پکار اور الاماں والحفیظ کی صدائے سنائی دے رہی ہیں ۔دنیا کے مختلف ممالک نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد وراحت کاری کے لئے ہاتھ بڑھایا ،متحدہ عرب امارات نے بھی خاصی مالی امداد کا اعلان کیا ہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ بجائے اس کے کہ سیلاب کو قہرالہیٰ اور عذابِ خداوندی کا مظہر سمجھ کر تمام لوگ عبرت حاصل کریں ، اصلاحِ احوال کے لئے کمر ہمت باندھیں ، متاثرین کی بازآبادکاری کے لئے سامنے آئیں ، بعض دھارمک انتہا پسند کیرالہ کی سیلابی گھمبیر صورت حال پر بھی سیاست کر کے اسے
گائو کشی کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں اور کئی ایک جیالے ایسے بھی ہیں جوتوہم پرستی میں بہک کر یہ گل افشانیاں کرر ہے ہیں کہ ایک مشہور مندر میں عورتوں کے داخلہ پر عائد شدہ پابندی سپریم کورٹ نے اُٹھادی جس کے ردعمل میں دیوی دیوتاؤں نے ان آفات کے نزول کا سلسلہ شروع کیا ہواہے۔ایسے حضرات کی بے سرو پا باتوں کا کیا جواب دیا جائے اور موجودہ سائنسی وعلمی دور میںاس قدر فرسودگی اور دقیانوسی سوچ پر کتنا ماتم کیا جائے، ا س سے قطع نظر یہ بات وثوق اور اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ اصل میں اللہ کے یہ بندے جانتے ہی نہیں کہ ان آفات کے پیچھے خود انسانی ہاتھ اور ان کی کتابِ اعمال بھی دخیل ہوتی ہے ۔ قرآن نے اس نوع کی تباہ کاریوں کو انسانوںکے اپنے ہاتھوں کی کمائی کہا ہے ۔اس ضمن میں آیاتِ الہٰیہ کے مطالعے سے یہ باور ہوتا ہے کہ جہاںخالق سے مخلوق کی دوری ،اُس کے فرامین ماننے سے عملی فرار اور اس کے احکامات سے بغاوت ان ناگفتہ بہ حالات و حوادث کے پس پردہ کارفرما ہوتے ہیں، وہاں قدرتی نظام میں انسانی ہاتھوں کی بے دریغ دخل اندازیاں بھی ان آفات و بلیات کا سبب بن جاتی ہیں۔ماحولیاتی آلود گی کا دور دورہ کر نا اور زمین کے فطری توازن کو بگاڑنا بھی تو انسانی ہاتھوں کا کیا دھرا ہی ہے اور لازماً اُس کے سنگین نتائج انسان کوہر حال میں بھگتنا ہی ہوں گے ۔ سچ یہ ہے کہ ان قدرتی آفات سے آج دنیا کا کوئی خطہ محفوظ و مامون نہیں۔ اس بارے میںمذہب اور سائنس دونوں کا گہرائی اور گیرائی سے جائزہ اسی نقطۂ اشتراک پرمر کوز ہوتا ہے کہ بلا شبہ یہ انسان کی اپنی خود کی کارستانیاں ہیں جو اللہ کی زمین کے قدرتی سسٹم کو تباہ کرکے دنیا میں طوفانوں،زلزلوں، ٹورن ڈوز ،خشک سالی اور بے تحاشا سیلابوں کو دعوت دے رہی ہیں۔انسان خود اپنے ہی ہاتھوں خود کو نشانِ عبرت بنانے کے سامان کر تا جارہا ہے اور اپنی غلط کاریوں کے منفی اور نقصان دہ نتائج دیکھ کر بے فکرا بناہوا ہے ۔واقعی کائنات کے ذرے ذرے میں کارفرما نظام قدرت سے بے جا تعرض کر نے کے ناقابل معافی گناہوں میںملوث ابنائے آدم خود ہی ایسی بے ہودگیاں کر تے جارہے ہیں کہ کہیں براہ راست قدرت کی ناراضگیوں کا تختہ ٔ مشق بنتے ہیں ، کہیں جوق درجوق صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹائے جاتے ہیں ، کہیں تباہی و بربادی کے دلدل میں دھنسائے جا تے ہیں ، کہیں خشک سالی کی بھینٹ چڑھا جاتے ہیں ، کہیں سیل رواں میں بہائے جارہے ہیں کہ پھر آسمان ان پر روتا ہے اور نہ زمین اشکبار ہوتی ہے۔ ہم سب دیکھتے ہیں کہ کہیں زلزلے کے چند جھٹکے ملکوں کے نقشے تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں ،کہیں طوفان بستیوں کو دنیا کے نقشے سے نیست ونابود کر دیتے ہیں ، کہیںسورج سوا نیزے پر آکر دماغوں کا خون کھولا ئے دیتا ہے ، کہیں منہ زور وبائیں ساری انسانیت کو جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ یہ انسان کے نام قدرت کی چیتاؤنیاں ہوتی ہیں کہ انسان سنبھل جائے اور اپنے کالی کرتوتوں سے بازآجائے۔ بہر حال خود اپنے ہاتھوں کی کمائی کے نتیجے میں آنے والے اللہ کی طرف سے عذاب کے وقتی کوڑے انسانیت کو لرزہ براندام تو کردیتے ہیں لیکن چند ہی دن یا لمحات گزر نے کے بعد قوانین قدرت کے خلاف انسانی خرمستیاں پھر سے شروع ہوجاتی ہیں اور ہم سب عصیاں و نسیاں کے مہلک امراض کے ساتھ ساتھ قدرتی ماحول کو بگاڑنے میں یک جُٹ ہو کر دوبارہ عذاب ِ خداوندی کے مستحق بن جاتے ہیں ۔ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ جب امریکہ کو ایک بدترین طوفان کا سامنا کرنا پڑا جہاں ’’ہاروے‘‘نامی سمندری طوفان نے ٹیکساس اور ہوسٹن کے ساحلوں سے اپنا سر دے مارا اور شدید طوفان و بادو باراں سے کوئی بیس ٹریلین گیلن پانی یک لخت آفت بن کر انسانی بستیوں پر برسا ۔ یہ پانی صرف نیو یارک سٹی کی مجموعی آبادی کی ضروریات کو 50؍برس تک پوری کرنے کے لئے کافی تھا ۔امریکی تاریخ کا یہ بدترین ڈیزاسٹر ٹیکساس میں 97بلین ڈالر اور مجموعی طور پر 190بلین ڈالر کا نقصان کرگیا۔حکومت نے اعداد و شمار جاری کئے تو پتہ چلا کہ ایک لاکھ پچاس ہزار گھر تباہ ہوچکے ہیں۔پانچ دن چلنے اور جاری رہنے والے طوفان بادوباراں نے اودھم مچاکے انسانی چیخوں ،مویشیوں کی لاچاری ،معصوموں کی آہ وبکا ،عورتوں کی دردناک چیخ وپکار نے قیامت صغریٰ جیسا کہرام متاثرہ علاقوں میں مچایا ۔ایسی آفت زدہ بستیوں کو آباد ہونے میں پھر بہت سارے زمانے درکار ہوتے ہیں اور بلاشبہ قدرت کے ان تھپیڑوں کو سہنے اور انسانی بستیوں کو کو سنبھالا دینے میںصدیاں بھی کم لگتی ہیں ۔
اللہ اپنی سنتِ عادلہ کے عین مطابق بے خوف وخشیت انسان کو سنبھلنے کے لئے ڈھیل دیتا رہتا ہے اور اُسے سدھرنے کے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن اس کے باوصف جب انسان کی فطرت سے بغاوتیںحدِ اعتدال سے بڑھ جاتی ہیں اور اپنے اعمال کے منطقی نتائج سے بے نیا ز حضرت انسان اپنے ہی ہاتھ کانٹوں کی کاشتیں سینہ ٔ دہر پر کر تاجاتا ہے تو قدرت کا نظام بھی مقررہ وقت پر ان زہریلی کا شتوں کی سیرابی اپنے غیظ وغضب کے پانی سے کر کے یک بار انسان کوآفات و بلیات کی شکل میں اپنے کڑوے کسیلے ثمرات کا مزا چکھاتا ہے۔ وہ مصائب وشدائد کا ازل نامہ نافرمان انسانی بستیوں کے سپرد کر دیتاہے کہ ان کا ناک نقشہ ہی تبدیل کررہ جاتاہے اور زندہ بچی انسانیت بس ایک دوسرے کا منہ تکتی رہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اللہ کے نظام میں یہ مداخلت کس قدر گراں بار اور ہلاکت خیز ثابت ہوسکتی ہے۔ اپنے آپ سے بے خبرانسان آج چیخ چیخ کے کہہ رہا ہے یہ آفات وبلیات کچھ نہیں، بس گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے لیکن اُسے کون سمجھا ئے کہ یہی تو انسانی ہاتھوں کا خود اپنا کیا دھرا ہے جس کے لزومی نتائج خالق کائنات پھر اُس کی بربادی کی شکل میں ظاہر کردیتا ہے ۔بات در اصل یہ ہے کہ ہم اپنی معاشرتی زندگی میں جہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد سے یکسر غافل و بے نیاز ہوکر اللہ کے عذاب و عتاب کو دعوت دے رہے ہیں، وہاں اپنے طرز زندگی کو پُر تعیش ،آرام دہ اور آسان بنانے کے چکر میں اس قدرتی نظام کو تباہ کرتے جارہے ہیں جو قدرتی آفات کے لئے ڈھال کا کام دیتا ہے۔یہ صرف کیرالہاور امریکہ وغیرہ سیلاب دیدہ ممالک کا حال نہیں بلکہ ہم خود ستمبر۱۴ء میں ایک منہ زور سیلاب کی تباہیاں چکھ چکے ہیں۔جہاں چند روزہ شدید بارشوں نے ہمارے پائوں تلے سے زمین سرکا کے رکھ دی، وہاں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بڑے بڑے نالوں پر ہمارے تجاوزات اور ناجائز قبضوںنے سیلابی تباہیوں میں اضافہ در اضافہ کر دیا ۔کیا یہ ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی نہیں؟بہت ساری لمبی چوڑی ندیوں اور نالوں اور دریاؤں کو دو طرفہ قبضہ ٔ ناجائز میں لے کر اُن پر مکان اور دکانات تعمیر کرنا کہ وہ بس نالیاں رہ گئیں ،کیا یہ ہمارا اپنا کیا دھرا نہیں؟ ہم نے دریائوں اور جھیلوں کو بول و براز سے بھر دیا ،اس کے کناروں پر تجاوزات ہی قائم نہیں کئے بلکہ جس سے جتنا ممکن ہوسکا ،اس نے اتنے رقبے کو بال تکلف اپنے تصرف میں لے لیا ،دریا سکڑ کے رہ گئے ،قدرتی نظام بگڑ کر رہ گیا اور اپنے ہاتھوں کا یہ بداندیشانہ عمل ہی یہاں سیلابی عذاب میں شدت و حدت کا باعث بنا۔شہر تو شہر اب قصبہ جات اور گائوں دیہات میں بھی بے تحاشا یہ گناہا گارانہ عمل جاری وساری ہے ۔ ہم شاید جانتے ہیں کہ قدرت کی بے آواز لاٹھی کے اُٹھنے کے نتیجہ میں جو تباہیاں اور بربادیاںنسل ِ انسانی دیکھتی ہے ،ہمارے یہ اعمال بھی اس میں ایزادگی کا باعث بن جاتے ہیں۔
آج کیرالہ بھی کشمیر کی مانند سیلاب کے باعث الہٰی عذاب کی زد میں ہے ۔ تادم تحریر280679لوگوں نے اپنے علاقے خالی کئے ہیں۔مجموعی آبادی کا چھٹا حصہ اس آفت سے متاثر ہے ،فی الوقت 19500کروڑ کے نقصان کا تخمینہ ہے ۔ظاہر ہے اس میں ہر گزرنے والی گھڑی کے ساتھ اضافہ نظر آرہا ہے ۔ افسوس کہ پانی کی سطح پر انسانی لاشیں اور مردہ حیوانات تیر رہے ہیں ۔ ہلاک شدہ انسانوں کے زندہ اقرباء پر یہ روح فرسا مناظر دیکھ کر کیا گزرتی ہوگی ، اُسے سمجھنا مشکل نہیں۔ قرآن کی زبان میں کہے تو ’’بے شک ان واقعات میں اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے عبرت کا سامان موجودہے‘‘۔
معاملہ کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ اس مصیبت عظمیٰ پر بھی سیاست کاری ہورہی ہے ۔19500کروڑ کے نقصان پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سیلاب زدہ کیرالہ کا فضائی دورہ کرکے صرف 500کروڑ امداد کا اعلان کیا ۔قبل ازیں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے ایک سو کروڑ کی ’’گراں قدر‘‘امداد کا اعلان کیا تھا ،جو ظاہر ہے زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔حد یہ کہ خود BJPمیڈیا اور IT cellکا عہدیدار ظاہر کرنے والے سریش کوچاٹل نے ٹویٹ کرکے لوگوں سے کہا کہ جو لوگ مدد کرنا چاہتے ہیں وہ وزیر اعلیٰ کے ریلیف فنڈ کے بجائے اپناامداد RSSکی تنظیم سیو بھارتی کو روانہ کریں۔متحدہ عرب امارات کی جانب سے 700کروڑ کی مدد کا اعلان کیا گیا تو سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوکر مودی سرکار میں شامل وزیر انفورسن نے اعلان کردیا کہ ہماری سرکار اس پر غور کرے گی کہ غیر ملکی امدادلی بھی جائے یا نہیں۔دوبئی میں رہنے والے کیرالہ کے یوسف علی نے 14کروڑ 50لاکھ روپے کی مالی امداد دے کر اعلان کیا تھاکہ متحدہ عرب امارات میں رہ رہے کیرالہ کے جو لوگ تجارت کرتے ہیں ،صنعت کار ہیں ،اُن کی ایک کمیٹی بناکر وہ مزید فنڈز اکٹھا کریں گے ۔عمان سرکار نے مودی سرکار کو پانچ سو کروڑ کی مدد کی پیش کش کی ہے لیکن خود مر کزی حکومت امداد لینے سے کترارہی ہے۔ وجہ کیا ہے ؟ اس نقطہ پر جتنا کہا جائے کم ہوگا ۔ خود مودی سرکار نے 600سو کروڑ کی جس مدد کا اعلان کیا ہے ،تین کروڑ کی آبادی سیلاب سے متاثرہ ہے ،اس امداد کو فی کس تقسیم کیا جائے تو ہر متاثر شخص کے لئے 160سے 170روپے بن جاتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ تنگ سوچ کا حال یہ ہے کہ 2012ء کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائر ل کرکے یہ جھوٹے دعوے کئے گئے کہ RSS کے رضا کار دن رات محنت کرکے متاثرین کی انسانی بنیادوں پر مدد کررہے ہیں ۔افسوس بوڑھے ،بچے ،معصوم ، خواتین کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں اور بے بسی اور بے کسی کے عالم میں بھی متاثرہ لوگوں کی تکلیفوں پر بھی سیاست ہورہی ہے ۔اس پر اللہ کا غضب بھڑکے گا یا کم ہوجائے گا؟ ایک سادہ سا عام فہم سوال ہے ۔
مقام شکر ہے کہ بھارتی مسلمانوں نے کیرالہ کے مصیبت زدوں کی بھر پور اعانت کی ٹھان لی ہے اور ان کی چندہ مہم برابر جاری ہے۔ ریاست جموں و کشمیر سے بھی انسان دوست افراداور انجمنوں نے ان ستم رسیدگان کی مالی امداد کے لئے اپیلیںکیں جن پر دردمند لوگوں نے کماحقہ لبیک کہا اور ا س کار خیر میں اپنا مقدور بھر حصہ ڈالا ۔اللہ تعالیٰ ان حقیر کوششوں کو شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین ۔بہر حال یہ آفات و بلیات عالم انسانیت کو خالص اللہ کا ہونے کا درس دیتی ہیں ،انبیا ئے کرام ؑ کے لائے ہوئے پیام سے جب بھی اقوام نے انحراف کیا ،خود ان قدسی نفوس کومشق ستم بنایا تو نوح ؑ کی قوم نذر سیلاب ہوئی ،لوطؑ کی قوم لواطت کی وجہ سے اللہ کی زبان میں عذاب الیم کی شکار ہوئی،سیدنا شعیبؑ کی قوم ڈندی مارنے کے جرم میں تباہ ہوکے رہ گئی____اور ان ناگہانی ا ٓفات س بچائو کا واحد ذریعہ گناہوں پر تائب رہنا بھی ہے ،ناشکری کا عمل چھوڑ دینابھی ہے ،کیونکہ قرآن کی بشارت ہے کہ اُن اقوام پر عذاب نازل ہی نہیں ہوتا جو شکر گزار ی اور ایمان کے راستے پر گامزن ہوں_____شکر گزاری اور ایمان کا راستہ وسیع المعنٰی الفاظ میں ہر پہلو پر غور کیجئے ،تو بات واضح ہوکر سامنے آئے گی ۔اللہ تعالیٰ ساری انسانیت کو راہ ہدایت دکھائے اور تام ہموم وغموم اور مصائب و شدائد سے چھٹکارا دے ۔آمین
رابطہ94190803076