یادش بخیر!مجھےوہ شام کبھی نہ بھولےگی جب آخرکار آغاتلمیذالرحمن چاکسوی سےتعارف ہوا۔ سنتےچلےآئےتھےکہ آغااپنےبچپن کےساتھیوں کےعلاوہ، جواب ایک ہاتھ کی انگلیوں پرگنےجاسکتےتھے، کسی سےنہیں ملتےاورجس سہمے سہمے انداز سے انھوں نے مجھ سےمصافحہ کیا، بلکہ کرایااس سےبھی یہی ہویدا تھا کہ ہر نئے ملاقاتی سےہاتھ ملانے کے بعد وہ اپنی انگلیاں ضرورگن لیتےہوں گے۔ دشمنوں نےاُڑارکھی تھی کہ آغاجن لوگوں سےملنےکےمتمنی رہےان تک رسائی نہ ہوئی اورجولوگ ان سےملنےکےخواہش مندتھے، اُن کومنہ لگاناانھوں نےکسرِشان سمجھا۔انھوں نےاپنی ذات ہی کوانجمن خیال کیا،جس کانتیجہ یہ ہواکےمستقل اپنی ہی صحبت نےان کوخراب کردیا۔لیکن وہ خوداپنی کم آمیزی کی توجیہ یوں کرتےتھےکہ جب پرانی دوستیاں نبھانےکی توفیق اورفرصت میسر نہیں تو نئے لوگوں سے مِلنے سے فائدہ؟ رہے پرانےدوست، سواُن سےبھی ملنےمیں زیادہ لطف،عافیت محسوس کرتے۔ اس لیےکہ وہ نفسیات کےکسِی فارمولےکی گمراہ کن روشنی میں اس نتیجےپرپہنچ چکےتھےکہ مل کےبچھڑنےمیں جودکھ ہوتاہے، وہ ذرادیرمل بیٹھنےکی وقتی خوشی سےسات گنا شدید اور دیرپا ہوتاہےاوربیٹھےبٹھائےاپنےدکھوں میں اضافہ کرنےکےحق میں نہیں تھے۔ سنایہ ہےکہ وہ اپنےبعض دوستوں کو محض اس بناءپرمحبوب رکھتےتھےکہ وہ ان سےپہلے مرچکےتھےاوررازبسکہ ان سےملاقات کاامکان مستقبل قریب میں نظرنہیں آتاتھا، لہٰذا ان کی یادوں کوحنوط کرکےانھوں نےاپنےدل کےممی خانےمیں بڑےقرینےسےسجارکھاتھا۔
لوگوں نےاتناڈرارکھاتھاکہ میں جھجکتاہواآغاکےکمرےمیں داخل ہوا۔ یہ ایک چھوٹاسانیم تاریک کمرہ تھاجس کےدروازےکی تنگی سےمعاً خیال گزراکہ غالباًپہلےموروثی مسہری اوردوسری بھاری بھرکم چیزیں خوب ٹھساٹھس جمادی گئیں، اس کےبعددیواریں اٹھائی گئی ہوں گی۔میں نےکمال احتیاط سےاپنےآپ کو ایک کونےمیں پارک کرکے کمرے کا جائزہ لیا۔ سامنےدیوار پرآغاکی ربع صدی پرانی تصویر آویزاں تھی جس میں سیاہ گاؤن پہنے، ڈگری ہاتھ میں لئے، یونیورسٹی پر مسکرارہےتھے۔ اس کےعین مقابل ، دروازےکےاوپرداداجان کےوقتوں کی ایک کاواک گھڑی ٹنگی ہوئی تھی جوچوبیس گھنٹےمیں صرف دودفعہ صحیح وقت بتاتی تھی۔ (یہ پندرہ سال سےسوادوبجارہی تھی) آغاکہتےتھےکہ اس گئی گزری حالت میں بھی یہ ان ’’ماڈرن ‘‘گھڑیوں سے بدرجہا بہتر ہے جو چلتی توچوبیس گھنٹے ہیں مگرایک دفعہ بھی ٹھیک وقت نہیں بتاتیں، جب دیکھو ایک منٹ آگےہوں گی یاایک منٹ پیچھے۔
دائیں جانب ایک طاقچےمیں جوفرش کی بہ نسبت چھت سےزیادہ نزدیک تھا، ایک گراموفون رکھاتھا، جس کی بالانشینی پڑوس میں بچوں کی موجودگی کا پتہ دے رہی تھی، ٹھیک اس کےنیچےچیڑکاایک لنگڑااسٹول پڑاتھا، جس پرچڑھ کرآغاچابی دیتےاورچھپّن چھری اور بھائی چھیلا پٹیالے والے کےگھسے گھسائےریکارڈسنتے(سننےمیں کانوں سے زیادہ حافظےسےکام لیتےتھے) اس سےذرا ہٹ کربرتنوں کی الماری تھی جس میں کتابیں بھری پڑی تھیں، ان کےمحتاط انتخاب سے ظاہر ہوتا تھا کہ اردومیں جوکچھ لِکھاجاناتھاوہ پچیس سال قبل لکھا جا چکا ہے۔ (اُسی زمانےمیں سناتھاکہ آغاجدیدشاعری سےاس حدتک بےزارہیں کہ نئےشاعروں کوریڈیوسیٹ پربھی ہوٹ کرنےسےبازنہیں آتے۔ اکثرفرماتےتھےکہ ان کی جوان رگوں میں روشنائی دوڑرہی ہے) آتش دان پرسیاہ فریم جڑاہواالوداعی سپاس نامہ رکھاتھاجو اُن کےماتحتوں نےپندرہ سال قبل پرانی دلّی سےنئی دلّی تبادلہ ہونےپرپیش کیاتھا۔اسی تقریب میں یادگارکےطورپرآغانےاپنےماتحتوں کےساتھ گروپ فوٹوبھی کھنچوایاجس میں آغاکےعلاوہ ہرشخص نہایت مطمئن ومسرورنظرآتا تھا۔ یہ پائینتی ٹنگاتھاتاکہ رات کو سونے سے پہلے اورصبح اُٹھنےکےبعدآئینہ ایام میں اپنی ادادیکھ سکیں۔
مجھےاچھی طرح یادہےکہ اس وقت آغاتین درویس صورت بزرگوں کےحلقےمیں مہابلی اکبرکےدورکی خوبیاں اوربرکتیں نہایت وارفتگی سےبیان کررہےتھے۔ گویاسب کچھ اپنی آنکھوں سےدیکھ چکےہیں۔ ابوالفضل کےقتل تک پہنچتےتوایسی ہچکی بندھی کہ معلوم ہوتا تھا انھیں اس واردات کی اطلاع ابھی ابھی ملی ہے۔ اس حرکت پروہ شیخوکوڈانٹ ڈپٹ کرہی رہےتھےکہ اتنےمیں پہلادرویش بول اُٹھا: اماں چھوڑوبھی۔ بھلاوہ بھی کوئی زمانہ تھا۔ جب لوگ چارگھنٹےفی میل کی رفتارسےسفرکرتےتھے اوررؤساتک جمعہ کےجمعہ نہاتےتھے‘‘۔ اس کامنہ آغانےیہ کہہ کربندکردیاکہ حضرت ا س سنہری زمانےمیں ایسی سڑی گرمی کہاں پڑتی تھی؟ پھرپروفیسرشکلانےآغاکی ہاں میں ہاں ملاتےہوئےارشادفرمایاکہ:ہمارےسمےمیں بھی بھارت درش کی برکھارُت بڑی ہی سندرہوتی تھی(مجھےبعدمیں پتہ چلاکہ ہمارے سمے سےان کی مرادہمیشہ چندرگپت موریہ کاعہدہوتاتھاجس پروہ تین دفعہ ’’تھیسس ‘‘لکھ کرنامنظورکرواچکےتھے) اس مقام پرچگی ڈاڑھی والا درویش ایکاایکی اوچھاوارکرگیا۔ بولا:آغا!تم اپنےوقت سےساڑھےتین سو برس بعدپیداہوئےہو‘‘۔ اس پرآغا، شکلاجی کی طرف آنکھ مار کر کہنے لگےکہ :تمہارےحساب سےیہ غریب توپورےدوہزارسال لیٹ ہوگیامگر میں تم سےایک بات پُوچھتاہوں کہ کیاتم اپنےتئیں قبل ازوقت پیداہونےوالوں میں شمارکرتےہو؟ کیاسمجھے؟
شکلاجی شرماتےلجاتےپھربیچ میں کودپڑے:اگرتمہارامطلب وہی ہےجومیں سمجھاہوں توبڑی ویسی بات ہے‘‘۔
یہ نوک جھونک چل رہی تھی کہ پہلا درویش پھرگھمبیرلہجےمیں بولا:قاعدہ ہےکہ کوئی دوراپنےآپ سےمطمئن نہیں ہوتا۔ آج آپ اکبر اعظم کے دور کو یاد کر کے روتے ہیںلیکن یقین ہےکہ اگرآپ اکبرکےعہدمیں پیداہوتےتوعلاءالدین خلجی کےوقتوں کو یاد کرکے آب دیدہ ہوتے۔ اپنےعہدسےغیرمطمئن ہونابجائےخودترقی کی نشانی ہے‘‘۔
’’سچ تویہ ہےکہ حکومتوں کےعلاوہ کوئی بھی اپنی موجودہ ترقی سےمطمئن نہیں ہوتا‘‘چگی ڈاڑھی والےدرویش نےکہا۔
میں نےپہلےدرویش کوسہارادیا:آپ بجافرماتےہیں۔ اسی بات کو ہم یوں بھی کہہ سکتےہیں کہ اگرکوئی باپ اپنےبیٹےسےسوفی صدمطمئن ہےتوسمجھ لیجئےکہ یہ گھرانارُوبہ زوال ہے۔ برخلاف اس کے، اگروہی بیٹااپنےباپ کےدوستوں سےملانےسےشرمانےلگےتویہ علامت ہےاس بات کی کہ خاندان آگےبڑھ رہاہے‘‘۔
’’مگراس کوکیاکیجئےکہ آج کل کےنوجوان مطلب کی خاطرباپ کوبھی باپ ہی مان لیتےہیں! کیاسمجھے؟‘‘آغانےکہا
سب کوبڑاتعجب ہوا کہ آغاپہلی ملاقات میں مجھ سےبےتکلّف ہوگئے— اتنےکہ دوسری صبحت میں انھوں نےمجھےنہ صرف اپنا پہلونٹی کاشعربڑےلحن سےسنایابلکہ مجھ سےاپنےوہ اداریےبھی پڑھوا کر سنےجوسترہ اٹھارہ سال پہلےانھوں نےاپنےماہ نامے’’سرودِرفتہ ‘‘میں پرانی نسل کےبارےمیں مندرجہ ذیل نوٹ کےساتھ شائع کیےتھے:قارئین کااڈیٹرکی رائےسےمتفق ہوناضروری نہیں‘‘۔
یہ ربط ضبط دن بدن بڑھتاگیا۔ میں اس تقربِ خاص پرنازاں تھاگو کہ حاسدوں کواورخودمجھےبھی اپنی سیرت میں بظاہرکوئی ایسی بات نظرنہیں آتی تھی جوآغاکی پسندیدگی کاباعث ہو۔ خیرایک روزاُنھوں نےخودیہ عقدہ حل کردیا۔ فرمایا:تمہاری صورت عین مین ہمارےایک ماموں سےملتی ہےجومیٹرک کانتیجہ نکلتےہی ایسےرُوپوش ہوئےکہ آج تک مفقودالخبرہیں۔
انگریزوں کاوطیرہ ہےکہ وہ کسی عمارت کواس وقت تک خاطرمیں نہیں لاتےجب تک وہ کھنڈرنہ ہوجائے۔ اسی طرح ہمارےہاں بعض محتاط حضرات کسی کےحق میں کلمۂ خیرکہناروانہیں سمجھتےتاوقتیکہ ممدوح کاچہلم نہ ہوجائے۔ آغاکوبھی ماضی بعیدسے، خواہ اپناہویاپرایا، والہانہ وابستگی تھی، جس کاایک ثبوت ان کی 1927 ماڈل کی فورڈکارتھی جو انھوں نے1955 میں ایک ضعیف العمرپارسی سےتقریباًمفت لی تھی۔ اس کی سب سےبڑی خوبی یہ تھی کہ چلتی بھی تھی اوروہ بھی اس میانہ روی کےساتھ محلے کےلونڈےٹھلوےجب اورجہاں چاہتےچلتی گاڑی میں کودکربیٹھ جاتے۔ آغانےکبھی تعّرض نہیں کیا،کیونکہ اگلےچوراہےپرجب یہ دھکڑدھکڑکرکےدم توڑدیتی تویہی سواریاں دھکےلگالگاکرمنزل مقصودتک پہنچا آتیں۔ اس صورت میں پٹرول کی بچت توخیر تھی ہی ،لیکن بڑافائدہ یہ تھاکہ انجن بندہوجانےکےسبب کارزیادہ تیزچلتی تھی۔ واقعی ا س کارکاچلنااورچلانامعجزہ فن سےکم نہ تھا،اس لیےکہ اس میں پٹرول سےزیادہ خون جلتاتھا۔ آغادل ہی دل میں کڑھتےاوراپنےمصنوعی دانت پیس کررہ جاتے، لیکن کوئی یہ کارہدیتاً لینے کے لیے بھی رضامندنہ ہوتا۔ کئی مرتبہ توایساہواکہ تنگ آکرآغاکارکوشہرسےدورکسی پیپل کےنیچےکھڑاکرکےراتوں رات بھاگ آئے، لیکن ہرمرتبہ پولیس نےکار سرکاری خرچ پرٹھیل ٹھال کرآغاکےگھربحفاظت تمام پہنچادی۔غرض یہ کہ اس کارکوعلیٰحدہ کرنااتناہی دشوارنکلاجتنااس کورکھنا۔ پھریہ بات بھی تھی کہ اس سےبہت تاریخی حادثوں کی یادیں وابستہ تھیں، جن میں آغا بےعزّتی سےبری ہوئےتھے۔ انجام کار، ایک سہانی صبح فورڈکمپنی والوں نےاُن کوپیغام بھیجاکہ یہ کارہمیں لوٹا دو۔ ہم اس کو پبلسٹی کےلیےاپنےقدیم ماڈلوں کےمیوزیم میں رکھیں گےاوراس کےبدلےسالِ رواں کےماڈل کی بڑی کار تمہیں پیش کریں گے۔ شہر کےہرکافی ہاؤس میں آغاکی خوش نصیبی اور کمپنی کی فیاضی کےچرچےہونےلگےاوریہ چرچےاس وقت ختم ہوئے جب آغانےاس پیش کش کوحقارت کےساتھ مستردکردیا۔
کہنےلگے’’دو کاریںلوں گا!‘‘
کمپنی خاموش ہوگئی اورآغامدتوں اس کےمقامی کارندوں کی نااہلی اورناعاقبت اندیشی پرافسوس کرتےرہے۔ کہتےتھے:لالچی کہیں کے!پانچ سال بعدتین دینی پڑیں گی!دیکھ لینا!‘‘
وہ خلوصِ نیت سےاس دورکوکلجگ کہتے اور سمجھتے تھے۔ جہاں کوئی نئی چیز، کوئی نئی صورت نظرپڑی اورانہوں نے کچ کچاکےآنکھیں بندکیں اور یادِرفتگاں کےاتھاہ سمندرمیں غڑاپ سےغوطہ لگایا اورکبھی ایسانہیں ہواکہ کندھےپرایک آدھ لاش لادےبرآمدنہ ہوئےہوں۔ کہیں کوئی بات بارِخاطرہوئی اورانھوں نے’’یادش بخیر‘‘ کہہ کربیتے سمےاوربچھڑی ہوئی صورتوں کی تصویرکھینچ کےرکھ دی۔ذرا کوئی امریکی طورطریق یاوضع قطع ناگوارگزری اورانھوں نےکولمبس کوگالیاں دینی شروع کیں۔وہ فی الواقع محسوس کرتےکہ ان کےلڑکپن میں گنّےزیادہ میٹھےاورملائم ہواکرتےتھے۔ میرے سامنے بارہا اتنی سی بات منوانے کے لیے مرنے مارنے پر تُل گئےکہ ان کےبچپنےمیں چنے ہرگزاتنےسخت نہیں ہوتے تھے۔ کہتےتھےآپ نہ مانیں ، یہ اوربات ہے، مگرٹھوس حقیت ہےکہ گزشتہ پندرہ بیس سال میں قطب مینارکی سیڑھیاں گھسنےکی بجائےاورزیادہ اونچی ہوگئی ہیں۔ اوراس کےثبوت میں اپنےحالیہ سفردہلی کاتجربہ ہانپ ہانپ کربیان کرتے۔ چونکہ ہم میں کسی کےپاس پاسپورٹ تک نہ تھا، اس لئے اس منزل پربحث کاپلہ ہمیشہ ان کےحق میں جھک جاتا۔ من جملہ دیگرعقائد کے،ان کاایمان تھاکہ بکری کاگوشت اب اتناحلوان نہیں ہوتاجتناان کےوقتوںمیں ہواکرتاتھا۔ ممکن ہےاس میں کچھ حقیقت بھی ہومگروہ ایک لمحےکویہ سوچنےکےلیےتیارنہ تھےکہ اس میں دانتوں کاقصور یا آنتوں کافتوربھی ہوسکتاہے۔ وہ ریشےدارگوشت کوقصائی کےبےایمانی سےزیادہ بکری اپنی بداعمالیوںسےمنسوب کرتے۔ چنانچہ بعض اوقات خلال کرتےکرتےاس زمانےکو یادکرکےان کاگلارُندھ جاتاجب بکریاں اللہ میاں کی گائےہواکرتی تھیں۔
ہم نےانھیں نشہ کرتےنہیں دیکھا۔ تاہم ان کادعویٰ تھاکہ میرےلڑکپن میں سرولی آم خربوزےکےبرابرہوتےہیں۔ ہم نےکبھی اس کی تردیدنہیں کی۔ اس لئےکہ ہم اپنےگئےگزرےزمانےمیں روزانہ ایسےخربوزےبکثرت دیکھ رہےتھےجوواقعی آم کےبرابرتھے!بات سرولی پرہی ختم ہوجاتی توصبر آجاتا، لیکن وہ تو یہاں تک کہتےتھےکہ اگلےوقتوں کے لوگ بھی غضب کےلمبےچوڑےہوتےتھے۔ ثبوت کےطورپراپنےتایاابّاکی رسولی کےسائزکاحوالہ دیتےجومقامی میڈیکل کالج نےاسپرٹ میں محفوظ کررکھی تھی۔ کہتےتھےآپ صرف اسی سےاُن کی صحت کااندازہ کرلیجئے۔ یہ سن کرہم سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنےلگتے، اس لیےکہ اوّل توہمارےبزرگ ان بزرگوں کےمقابلےابھی بچےہی تھے۔ دوم، ہم سےکسی کےبزرگ کی رسولی ابھی تک منظرعام پرنہیں آئی تھی۔اس کلجگ کااثرجہاں اورچیزوں ، خصوصاًاشیائےخورونوش پرپڑا، وہاں موسم بھی اس کےچنگل سےنہ بچ سکا۔ اوائل جنوری کی ایک سردشام تھی۔ آغا نے ٹھنڈا سانس بھرکرکہا: کیاوقت آلگاہے! ورنہ بیس سال پہلےجنوری میں اس کڑاکےکی سردی نہیں پڑتی تھی کہ پنج وقتہ تیمّم کرناپڑے۔ چگی ڈاڑھی والےدرویش نےسوال کیا: کہیں اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ تم اس زمانےمیں عیدکی نمازپڑھتےتھے؟ لیکن بہت کچھ بحث و تمحیص کےبعدیہ طےپایاکہ محکمہ موسمیات کےریکارڈسےآغاکوقائل کیاجائے۔
آغادونوں ہاتھ گھٹنوں میں دےکربولے:صاحب!ہم تواتناجانتےہیں کہ بیس برس پہلےاتنی کم سردی پڑتی تھی کہ ایک پتلی سےدُلائی میں پسینہ آنے لگتا تھا اوراب پانچ سیرروئی کےلحاف میں بھی سردی نہیں جاتی!کیاسمجھے؟‘‘
وہ کچھ اوردلائل بھی پیش کرناچاہتےتھےلیکن اُن کی کٹکٹی بندھ گئی اوربحث ایک دفعہ پھرانہی کےحق میں ختم ہوگئی۔
قدیم نصابِ تعلیم کےوہ بےمعرف ومدّاح تھے۔ اکثرکہتےکہ ہمارےبچپن میں کتابیں اتنی آسان ہوتی تھیں کہ بچّے،اُن کےوالدین بھی سمجھ سکتے تھے۔اسی رو میں اپنی یونیورسٹی کاذکربڑی للک سےکرتےاورکہتےکہ ہمارےوقتوں میں ممتحن اتنےلائق ہوتےتھےکہ کوئی لڑکافیل نہیں ہوسکتاتھا۔ قسمیں کھا کھا کرہمیں یقین دلاتےکہ ہماری یونیورسٹی میں فیل ہونےکےلیےغیرمعمولی قابلیت درکارتھی۔ جس شہر میں یونیورسٹی واقع تھی، اسےوہ عرصے سے اُجڑا دیار کہنے کے عادی تھے۔ ایک دن میں نےآڑےہاتھوں لیا:آغا!خُداسےڈرو! وہ شہرتمہیں اُجاڑدکھائی دیتاہے؟ حالانکہ وہاں کی آبادی پانچ ہزارسےبڑھ کرساڑھےتین لاکھ ہوگئی ہے!‘‘
’’مسلمان ہو؟‘‘
’’ہوں تو‘‘
’’دوزخ پرایمان ہے؟‘‘
’’ہے‘‘۔
’’وہاں کی آبادی بھی توروزبروزبڑھتی جارہی ہے!کیاسمجھے؟‘‘
اخترشیرانی کی ایک بڑی مشہورنظم ہےجس میں انہوں نےیارانِ وطن کی خیروعافیت پوچھنےکےبعددیس سےآنےوالےکی خاصی خبرلی ہے۔اس بھولے بھالے سوال نامےکےتیورصاف کہ رہےہیں کہ شاعرکویقین واثق ہےکہ اس کےپردیس سدھارتے ہی نہ صرف دیس کی ریت رسم بلکہ موسم بھی بدل گیا ہوگا۔اورندی ندلےاورتالاب سب ایک ایک کرکےسوکھ گئےہوں گے۔ آغاکواپنےآبائی گاؤں چاکسو(خورد)سےبھی کچھ اسی نوع کی توقعات وابستہ تھیں۔
چاکسو(خورد) دراصل ایک قدیم گاؤں تھاجوچاکسوکلاں سےچھوٹاتھا۔ یہاںلوگ اب تک ہوائی جہازکوچیل گاڑی کےنام سےیادکرتےتھی لیکن آغا اپنے لعابِ دہن سےاس کےگرداگردیادوں کاریشمی جالابُنتےرہے، یہاں تک کہ اُس نےایک تہ دار کوئےکی شکل اختیارکرلی جسےچیرکر(آغاکاتوکیاذکر)جمیع باشندگانِ چاکسوباہرنہیں نکل سکتےتھے۔ ادھرچنددنوں سےوہ ان تنگ وتاریک گلیوں کو یاد کرکے زاروقطار رورہےتھے، جہاں بقول ان کےجوانی کھوئی تھی۔ حالانکہ ہم سب کو ان کی سوانح عمری میں سوانح کم، اورعمرزیادہ نظرآتی تھی لیکن جب اُن کےیادش بخیریانےشدّت اختیارکی تودوستوں میں یہ صلاح ٹھہری کہ ان کودوتین مہینےکےلیےاسی گاؤں میں بھیج دیاجائےجس کی زمین ان کوحافظےکی خرابی کےسبب چہارم آسمان دکھائی دیتی ہے۔
(بقیہ اگلی سوموار کے شمارے میںملاحظہ فرمائیں)