نہ گورِ سکندرنہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
بھاجپا لیڈر ایک بار لفاظی ، محاورہ بازی اور جملہ سازی کے ذریعے برسر اقتدار کیاآگئے کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھتے ہی اُن کا ذہن خددپسندی سے اتنابھر گیاہے کہ وہ جمہوریت کی زبان سے ناآشنا ہو کر بے جا دعوؤں اور ربت ِپندار میں تاریخ کی عبرتیں تک بھول گئے ۔ وہ اقتدار کے نشہ میں اس قدر مد ہوش ہیں کہ طرح طرح کے راگ الاپ کر خود کو ناقابل تسخیر جتاتے ہیں۔ ان کی گز بھر زبانوں سے کہیں ہندو راشٹر کے قیام کا اعلان ہورہاہے، کہیںہندو سماج کو اکیلے شیر سے تشبیہ دے کر باقی سماجوں کو’’ کتے‘‘ سے مشابہت دے رہے ہیں، کہیں بھیڑ بازی کے ذریعہ اقلیتوں اور دلتوں کے قتل کو جائز ٹھہرارہے ہیں ، کہیں اُن سے اختلافِ رائے رکھنے والوں کو ملک بدری کے فیصلے سنائے جارہے ہیں، کہیں جمہوریت نواز دانشوروںاور سیاسی تبدیلی کے داعیوں کے لئے قید وبند کی صعوبتیں جاری کی جارہی ہیں، کہیں فرقہ واریت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو سر عام قتل کیا جارہاہے، کہیں سیاسی مخالفین کو مقدمات میں الجھا کر پابند سلاسل کیا جارہاہے ۔ غرض یہ کہ انتہائی جبر وتشددکا عالم پیدا کرکے فاشسٹ طریقوں سے اپنے نظریات کی عمارت قائم کرنے کے منصوبے عملائے جارہے ہیں۔ بہ حیثیت مجموعی ایسا معلوم ہوتاہے کہ بھاجپا منصوبہ بند طریقہ سے ملک کو خالصتاً آمرانہ نظام کی طرف دھکیل رہی ہے اور یہ کاروائی سہواً یا محض طفلانہ بیان بازی کا ثمرہ نہیں بلکہ ایک شعوری منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے کیونکہ اس سلسلہ میں ناگفتہ بہ اقدامات اور بیان بازیاں معمولی پارٹی پر چارکوں کی طرف سے نہیں کی جارہی ہیں بلکہ سنگھ کے اعلیٰ پایہ لیڈر اس کام میں مصروف عمل ہیں۔اس سلسلے کی تازہ کڑی بھاجپا کے کل ہند صدر امت شاہ کا وہ بیان ہے جوانہوں نے بھاجپا ورکنگ کمیٹی میں تقریر کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کیا کہ بھاجپا صرف اگلے پانچ سال میں ہی اقتدار میںنہیں رہے گی بلکہ اگلے پچاس سال تک اُسے اقتدار سے کوئی نہیںہٹاسکتا۔ اس خوش کلامی کو محض آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے لفاظی یا شاعرانہ تعلی قرارنہیں دیا جاسکتا بلکہ اسے آمریت پسندانہ ریاست قائم کرنے کامنصوبہ سمجھا جاناچاہیے کیونکہ کوئی جمہوریت پسند اور حقیقت پسند اس قسم کے طویل اقتدار کی پیش گوئی نہیںکرسکتا، جب تک اس کے پس پشت کوئی طویل منصوبہ بند منصوبہ بندی نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی بے ہودہ منصوبہ بندی پایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے والی کیونکہ عوامی قوت، مزاحمت اور مخالفت کے باعث اس طرح کا خیال و جنون ناکام و نامراد ہو جائے گا لیکن اس نوع کے عزائم کو ہر گز ہرگزنظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔ بہرصورت امت شاہ کے قبیل کے سنگھی نیتاؤں کو یہ حقیقت بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جب آمریت کے علمبرداروں کی اصل حقیقت عوام الناس سمجھ لیتے ہیں توپھر ان کو شکست فاش کا منہ بھی دیکھنا پڑ تاہے۔ سنہ ۷۵ء کی ایمرجنسی کے مابعدمسز گاندھی کی زبردست انتخابی ہار سامنے کی مثال ہے ۔ لہٰذا بھاجپاکو تاریخ عالم ، تاریخ ہند اور دُنیابھر کی تحاریک کا بایک بینی سے مطالعہ کرلیناچاہیے۔ تواریخی واقعات اور دنیا کو تہ وبالا کر نے والے حوادث سے صرف نظر کر تے ہوئے اگر بھاجپا صد ر امت شاہ گزشتہ صدی میں ہندوستان میںہوئے عبرت ناک واقعات اور منہ زور حالات کا سر سری مطالعہ ہی کریں گے تو ان پر اپنے زیر بحث بیان کی کھوکھلاہٹ واضح ہوجائے گی۔
بات ذرا وضاحت کے ساتھ کی جائے سنہ ۷۱ء میں جب اندرا گاندھی کے دور ِ حکومت میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے بعد بنگلہ دیش نامی آزاد ملک وجود میںآیا توخاتون وزیراعظم کے حق میں ملک کی باقی رائے عامہ کو ایک طرف رکھئے، خود بھاجپا کے لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے اندرا گاندھی کو دیوی ’’دُرگا کا اوتار‘‘ قراردیا تھا اور سنگھ کے لیڈر اندراگاندھی کی تعریفوں میں سب سے زیادہ رطب اللسان تھے ۔ اسی پس منظر میں اندرا گاندھی کو لوک سبھا کے انتخابات میں زبردست کامیابی ملی کہ کانگریس کو لوک سبھا میں دوتہائی سے زیادہ اکثریت حاصل ہوگئی ۔ان دنوں سمجھا یہ جاتاتھا کہ اب اندراگاندھی کو کوئی اقتدارسے محروم کرکے ہرانہیںسکتا لیکن بہت جلد اندرا گاندھی کی عوام دُشمن پالیسیوں اور آمرانہ طریق کار کے باعث جے پرکاش نارائین کی قیادت میںملک بھرمیں ایساطوفان اُٹھا کہ اِندراگاندھی کو کچھ ہی سال میں شکست فاش سے دوچار ہوناپڑا۔ اس کے بعدجنتاپارٹی کو بھی دو تہائی اکثریت لوک سبھا میںحاصل ہوئی اور سمجھا یہ جانے لگا کہ اب اس پارٹی کو کوئی شکست نہیںدے سکتا لیکن اڑھائی سال کے اندر ہی جنتا پارٹی کا شرازہ بکھر گیااور اِندرا گاندھی دوبارہ لفاظی اور محاورہ بازی کے ذریعہ نریندرمودی کی طرح برسر اقتدار آگئیں۔ اسی طرح وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ کا دورِ حکومت آیا اور نادان لوگوں نے اُنہیں بھی ناقابل تسخیر قراردیا لیکن یہ حکومت بھی قائم نہ رہی۔ اس کے بعد علی الرتیب راجیو گاندھی ، نرسمہارائو، اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کے عہد ہائے حکومت آئے لیکن جب اُن کی عوام دُشمن پالیسیوں کے باعث عوامی مزاحمت بڑھی تو انہیں بھی یکے بعد دیگرے اقتدار سے محروم ہو کر رہنا پڑا۔ نریندرمودی سرکا ر بھی اصل میںکانگریس پارٹی کی عوام دُشمن ، جمہوریت کش پالیسیوں اور بھرشٹا چاری راج نیتی کی پیداوار ہے۔ اس پارٹی کے زیر سایہ آئے روز کی بدعنوانیوں کو نریندرمودی نے اپنے لفاظی، محاورہ بازی اور جملہ بازی کے ذریعہ خوب اُچھالا لایا اور عوامی مزاحمت اور ناراضگی سے بر وقت کام لے کر اقتدار حاصل کرلیا لیکن اب عوام نریندرمودی اور اُن کی سرکار کی عدم کارکردگی سے نالاں وبیزار ہیں ۔ ظاہر ہے مودی سرکار اپنا کوئی ایک بھی وعدہ ، اعلان، بیان پورا نہیںکرسکی بلکہ کانگریس کی ہی دیرینہ پالیسیوں پر چلتے ہوئے یہ حکومت بھی لٹیرے حکمران طبقوںکی سامراج، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈ طبقوں کے مفادات کی محافظ ثابت ہوئی ہے۔ اس حکومت میں اب روز بروزمعاشی بحران اورسماجی تفریق زیادہ گہرا ہوی ہورہی ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے عوام کاکچومر نکال دیاہے، بے کاری میں زبردست اضافہ ہواہے ،رشوت اور بھرشٹاچار کا چلن بڑھ گیاہے، بے شک زبانی طورپر سرکاری سطح پررشوت اور بھرشٹاچار کے خاتمے کے خوش کن اعلانات ہوتے رہتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ مہنگائی میں زبردست اضافہ ہورہاہے کہ عوام کاجینا محال ہوچکاہے۔ پٹرول اور ڈیزل کے بھاؤ روز اچھل کر غرباء پر جینا حرام کرر ہاہے کیونکہ ایندھن کے دام میں مسلسل بڑھوتری کا سیدھا مطلب ہے سوئی سے ہوائی جہاز تک ہر چیز کی مہنگائی۔ اس دورِ حکومت میں ہم سب یہی دیکھ رہے ہیں کہ امیر زیادہ امیر اور غریب زیادہ غریب ہوا ہے۔ بالفاظ دیگر’’ اچھے دن‘‘ کا خواب دکھانے والی مودی سرکار عوامی خدمت کا کوئی بھی کارنامہ سرانجام دینے سے اب تک قاصر رہی ہے۔ یہاںتک کہ اس حکومت میں روپیہ کی قدر و قیمت عالمی مارکیٹ میں متواتر بہت کم ہورہی ہے۔ یوں ملک معاشی اور سیاسی بحران کی مکمل گرفت میں سر تا پا مبتلا ہے۔ حال ہی میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی مخالفت میں ہوئے بھارت بندھ اور کسانوں کے زبردست مظاہروں سے یہ امر صاف طور عیاں ہوچکاہے کہ حکومتی دعوے چاہے جو کچھ بھی ہوں مگر مودی سرکار عوام میں بنیادی سطح پر غیرمقبول ہے۔
علاوہ ازیں مودی سرکار نے’’ سب کاساتھ سب کا وکاس‘‘ جیسے نعرے کی مٹی پلید کر تے ہوئے اپنی اقلیت دُشمن اور دلت دُشمن پالیسیوں کے باعث ملک میںتقسیم در تقسیم کی صورت حال پیدا کردی ہے۔ اقلتیں اوردلت خوف زدہ اورہراساں ہیں۔ ہجومی قتل اب ایک معمول کی بات بناہے ۔مزید برآں عملاً وحدانی طرزِ حکومت کے باعث ملک کامصنوعی فیڈرل ڈھانچہ بھی کسمسا رہاہے۔ ریاستیں مرکز کی مرکزیت پسند پالیسیوں کے باعث نالاں ہیں۔ تمام ریاستوں میںبے یقینی اور سراسیمگی پائی جاتی ہے، ِریاستیں مرکز کی بجائے ریاستوں کو زیادہ اختیارات دے کر فیڈرل ازم کو تقویت دینے کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ ان حالات میں سوجھ بوجھ رکھنے والے سیاسی مبصرین اور تجزیہ کاروں کو بھاجپا سرکار کی فرقہ وارایت ، دلت دُشمن ، جمہوریت کش اور آمرانہ و جابرانہ پالیسیوں کے باعث سنگھ کا سیاسی مستقبل ڈاواں ڈول دکھائی دے رہاہے ، اُنہیں وہ دن دور نہیں دِ کھتا جب بھاجپا سرکار کا حشر ِاندرا گاندھی سرکار، مرارجی ڈیسائی سرکار، وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ ،نرسمہارائو سرکار، منموہن سنگھ سرکار جیسا ہی ہو۔ بایں ہمہ ملک کا سیاسی مستقبل کیا کروٹ لے گا، اس پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہوگا تاہم آثار وقرائین مودی سرکار کے ساتھ موافقت نہیں کر رہے ۔ اس کے باوجود اگرامت شاہ اپنی پارٹی کے مدت ِ اقتدار کوپچاس سال تک توسیع دے رہے ہیں تو انہیں پیش گوئی کی تائید میں مودی سرکار کے کسی چمتکار کا بھی تھوڑا ذکر کرناچاہیے ۔ بہر حال اس پارٹی کے نیتاؤں کو زمینی حا لات کا نبض شناس بن کر اس طرح کی پیش گو ئیوں سے اپنا حمام کر نے سے گریز کرناچاہیے ۔انہیں حال کی حقیقت اور ماضی کے آئینے میںاپنا جائزہ لینا چاہیے۔ ا ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر دارا، سکندر، چنگیز خان،ہلاکو ، شاہان ِ مغل کی عظیم الشان حکومتیں نہیں رہیں۔،اگر زار روس اور برطانوی سلطنت کہ جس کا سورج کبھی غروب نہیںہوتا تھا ، قصہ ٔ پارینہ ہوئیں ،اگر نپولین ، ہٹلر، مسولینی، ٹوجو جیسے ڈکٹیٹر وں کی مطلق العنایت باقی نہ رہی، تو موجودہ ڈیجٹل جمہوری دورمیں مستقبل کے پچاس سال کے متعلق خود فریبی پر مبنی شیخیاںبگارنا ہر گز معقول بات نہیں۔ اور ہاںجس قسم کا خود پسندانہ نظام وزیراعظم مودی اور امت شاہ کی جوڑی ملک میں رائج کرناچاہتی ہے، وہ اس ملک کے عمومی مزاج کے مطابق ہر گز نہیںکیونکہ یہ ملک مختلف اقوام، مختلف تمدنوں ، مختلف تہذیبوں پر مشتمل گلدستہ ہے جس کی روح میں گنگا جمنی تہذیب پیوستہ ہے۔اس میں وحدانی نظام یا ایک فرقے کی حکمرانی ہرگز ممکن نہیں ہے۔ اِس لئے امت شاہ کی پیش گوئی کی عمل آوری ایک پھسپھسا خیال لگتاہے۔ بنا بریں اس پیش گوئی پر اعتماد کرنا شتر مرغ کی چال چلنے کے مترادف ہے۔جان کارر حلقوں کی دانست میں 2019کے قومی انتخابات میں ہی وحدانیت کے پرستاروں کا ستارہ ٔ اقبال غروب ہونے کے آثار صاف نظرآرہے ہیں کیونکہ لوگ اب تقریر بازیوںاور جھوٹے دعوؤں کے بجائے کرم کنڈلی دیکھ کر فیصلہ کریں گے آیا مرکزی حکومت جنتاکے ساتھ کئے وعدوں کا ایفاء کر سکی ہے، اس نے معاشی یا ترقیاتی امور میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل کردکھائی ہے ، عام آدمی کو مہنگائی سے چھٹکاار دلایا ہے ، روزگار کے موقع پیدا کئے ہیں۔ انہی سوالوں کی کسوٹی پر عام جنتا مودی سرکار کو جانچے پرکھے گی ، خاص کر اس کی پالیسیوں کی روشنی میں اپنی روزمرہ زندگی پر پڑنے والے منفی اثرات کا کرارا جواب بھاجپا سرکار بدل کر رکھ دے گی۔ شیخی بگھارنے ، اپنا میاں مٹھو بننے اور غرور کی زبان بولنے والوں کے بارے میں فیض کا یہ کہنابالکل صحیح ہے ؎
غرو ر سردسمن سے کہہ دو کہ پھروہی تاج دار ہوںگے
جو والئی چمن تھے عروج سروسمن سے پہلے
شومی ؐقسمت کہ موجودہ واحدانیت پسند حکمرانوں کا جو متبادل اُبھر رہاہے،وہ بھی موجودہ حکمرانوں سے بہتر ہرگز نہیںہے کیونکہ یہ بھی موجودہ حکمرانوں کی طرح لٹیرے حکمران طبقوں سامراج، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈلارڈوں کا ترجمان اور محافظ ہے۔ پیشترازیں بھی اُس کا یہی کردا ررہاہے اور اب بھی اس کا یہی سیاسی کردار ہے۔ وہ زبانی جمع خرچ جو مرضی کرے مگر حقائق حقائق ہیں ۔ اس لئے ضروری امر یہ ہے کہ ہندوستانی عوام لٹیرے حکمران طبقوں کے کسی بھی نمائندہ ، ترجمان اور محافظ گروہ کا دُم چھلا نہ بنیں اور انقلابی پارٹی کے ذریعہ عوامی جمہوری انقلاب کرکے عوامی جمہوریت کا قیام عمل میں لائیں۔ تبھی عوام الناس مصائب ، مشکلات اور بحرانوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ وگر نہ بقول شاعر صورت یہی ہوگی ؎
اِک گجر بجنے سے دھوکہ کھاگئے
پھر بھیانک تیرگی میںآگئے
اگرچہ تمام واقعات ، حالات ، اندازوں اور تخمینہ جات سے واضح ہوتاہے کہ پچاس سال تک اقتدار پر براجمان رہنے کے بچگانہ دعوئوں کے باوجود موجودہ حکمران گروہ کا 2019کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا قدرے دشوار نظر آتا ہے لیکن غیر جمہوری طور طریقوں اور فسطائی ہتھکنڈوں سے یہ اپنے اقتدار کی مدت میں اضافہ ضرور کرسکتاہے۔ اس لئے بھاجپا دعوؤں اور پیش گوئیاں خالی از علت نہیںسمجھا جانا چاہیے۔ الیکشن میں جیت کے ضمن میں اُن کے عزائم انتہائی خطرناک رُخ اختیار کر سکتے ہیں۔ اس بارے میں یہ اشارے بھی عقل کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں کہ موجودہ حکمران گروہ نے خود اپنی پارٹی کے پرانے لیڈروں کا خطرہ بھانپ کرلال کرشن ایڈوانی ، مرلی منوہر جوشی، یشوت سنہا، شتروگھن سنہا جیسوں کو اولین فرصت میں ٹھکانے لگا یا، اپوزیشن کے چیدہ چیدہ لیڈروں کے خلاف مقدمات قائم کر کے انہیں انتخابی منظر نامے سے ہٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور بعضوں کو جیل بھی بھیجا گیاہے، وزیرعظم نریندرمودی کو دنیا بھر میںسب سے زیادہ ہر دلعزیزلیڈر ہونے کے گن گان جس پیمانے پرکئے جارہے ہیں، اختلافی آوازوں کو کچلنے کے لئے جس طرح ہرنوع کے حربے بروئے کار لائے جارہے ہیں، مستند دانشوروں کو جعلی مقدموں میں پھنساکر جو کھیل کھیلا جارہاہے، میڈیا کو جس انداز میں نریندرمودی کی پر وجیکشن پر مامور کرگیاہے، نسلی فسادات اور مذہبی کشاکش کا سلسلہ شروع کرواکے جس طریقے پر سیاسی فضاء مکدر کی جارہی ہے، اُس سے ظاہر ہوتاہے کہ حکمران گروہ بورژوا جمہوریت کے تقاضوں تک کوخیرباد کہہ کر خالصتاً آمرانہ طریقے اختیار کرکے اقتدار پر براجمان رہنے کے عزم صمیم رکھتاہے۔ پچاس سال تک برسر اقتدار رہنے کے دعویٰ اسی سوچ اور عمل کاغمازہے ۔ فی الوقت سب پر یہ فریضہ مقدم ہے کہ اِن آمرانہ عزائم کے خلاف تمام اختلافی امور فی الحال معرض التواء میںرکھ کر حکمران گروہ کی طرف سے جمہوریت مخالف اقدامات کا راستہ روکاجائے اور ملک کوہٹلرانہ طر ز کی فاشسٹ آمریت سے بچایا جائے ؎
نہ سمجھوگے تو مٹ جائوگے اے ہندوستان والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
(اقبال)