محاورہ ہے کہ ’دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں‘۔ اگر یہ کہا جائے کہ پیشۂ صحافت بھی اس وقت ڈھول ہی ہے تو شاید غلط نہ ہو کیونکہ اس کی آواز بھی دُور سے لوگوں کی سماعتوں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ بلاسوچے سمجھے اپنی خواہشِ نفس پوری کرنے کے لیے اس ’بے آب و گیاہ وادی‘ میں نہ صرف خود کو ’ہلکان‘ ہی کر رہے ہیں بلکہ اس عظیم پیشے کے لیے بدنامی کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں، تو کچھ اس پیشے کو مقدس فریضہ تصور کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی ہی قوم و ملک کی بھلائی کے لیے قربان کیے ہوئے ہیں، جو اَب اس پیشے میں خال خال ہی ملیں گے۔ جب کہ اول الذکر لوگوں کا اس پیشے میں سیلاب سا آیا ہوا ہے اور جو ’ڈھول کے اندر پول‘ کا سبب بھی بنے ہوئے ہیں۔
پچھلے دنوں اُردو اخبارات کی منڈی لکشمی نگر (دہلی) جانا ہوا تو راستے میں ہی ایک صاحب جانے پہچانے سے مل گئے اور علیک سلیک کے بعد بلاتکلف میرا ہاتھ پکڑے ایک ٹی اسٹال میں گھس گئے۔ جس وقت ہم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے ، دوسری طرف کچھ لوگ محو گفتگو تھے، ان کا موضوعِ گفتگو تھا ’صحافی کسے کہتے ہیں‘۔ ان لوگوں کی گفتگو اور حلیہ سے لگ رہا تھا کہ یہ لوگ بھی صحافی ہیں یا صحافت کے کسی شعبے سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ صحافی کسے کہا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک صاحب نے یہ دیا کہ صحافی وہ ہوتا ہے جس کا ذریعہ معاش صحافت ہو اور جس کسی کا ذریعہ معاش کوئی دوسرا ہے لیکن وہ اخبارات میں لکھتا رہتا ہے، اسے صحافی نہیں کہا جاسکتا، اسے شوقیہ مضمون نگار کہہ لیں یا کچھ اور، لیکن وہ صحافی نہیں ہوگا۔
اسی طرح صحافی کون ہوتا ہے کا جواب ایک اور صاحب نے یوں دیا کہ جو لوگ صحافی ہونے کے دعوے دار ہیں اور بعض لوگ ان کو معروف معنوں میں صحافی نہیں مانتے کیونکہ ان کا ذریعہ معاش اخبار نویسی نہیں ہے، یہ تو ممکن ہے ان کی تحریروں کا معاوضہ بھی ملتا ہو لیکن اس کے باوجود وہ پیشہ ور صحافی نہیں ہیں کیونکہ ان کا اصل ذریعہ معاش کچھ اور ہے۔ انہوں نے اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ میں نے کسی جگہ پڑھا تھا کہ کسی وقت مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ایک فارم پُر کرتے ہوئے پیشے کے خانے میں صحافی لکھ دیا تو کسی نے یہ دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ یہاں اسکالر، عالم دین یا مفسر اور مصنف لکھ دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا کیونکہ آپ کی شہرت ایک اخبار نویس کی نہیں ہے۔ اس کے جواب میں مولانا علیہ الرحمہ نے کہا کہ میرا ذریعہ معاش ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ ہے جس کا میں ایڈیٹر ہوں ،اس لیے پیشہ وہ ہوتا ہے جو ذریعہ معاش ہو۔ چنانچہ میں نے جو ذریعہ معاش یعنی اخبار نویس لکھا وہ درست لکھا ہے، پیشہ ہمیشہ سے وہی سمجھا گیا ہے جو ذریعہ معاش ہوتا ہے۔
آج کل بہ نسبت دوسرے شعبوں کے صحافت کا دائرہ بھی وسیع ہوا ہے۔ اب صرف ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ سب ایڈیٹر، رپورٹر، کیلی گرافر، کمپیوٹر آپریٹر، فوٹو گرافر، پروف ریڈر وغیرہ بھی اخبار نویسی ہی کے دائرے میں آتے ہیں کیونکہ یہ سب کے سب صحافت کے ہی کل پرزے ہیں، جن کا ذریعہ معاش بھی صحافت ہی ہے۔ صحافت جیسا ہی محکمہ پولیس کا نظام بھی ہے، ایک عام پولیس سے لے کر پولیس کمشنر تک سبھی پولیس ہی کہلائیں گے، صرف عہدے او ر مرتبے کا فرق ہوتا ہے۔ اسی طرح کا سسٹم فلمی دنیا کا بھی ہے۔ کہانی کار سے لے کر گانا لکھنے اور گانا گانے و دیگر چھوٹے بڑے سبھی اداکار تک فلم زمرے میں ہی آتے ہیں اور کوئی بھی اپنے کسی عضو کو کاٹ کر الگ نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کو کسی سے کم تر سمجھتا ہے۔
باتیں بڑی دلچسپ اور معلوماتی ہو رہی تھیں اس لیے ہم لوگ بھی چائے پہ چائے لیے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ہم نے بھی طے کرلیا تھا کہ جب تک ان کی صحافت سے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی چائے خانے سے نہیں اٹھیں گے۔ چونکہ موضوع ایسا تھا جس سے ہم لوگ بھی جڑے ہوئے تھے اس لیے جیسے جیسے گفتگو میں اضافہ ہو رہا تھا ویسے ویسے ہماری دلچسپیوں میں بھی اضافہ ہونے لگا اور ہم بھول گئے کہ ہم کس کام سے نکلے تھے اور کہاں جارہے تھے۔ موضوعِ گفتگو میں شامل ایک سینئر کا کہنا تھا کہ ’صحافی کسے کہیں‘ جیسے موضوع پر اس وقت اُلجھن اس لیے پیدا ہو رہی ہے کہ صحافت کی غیر معمولی اہمیت اور حکمرانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس پیشے میں طرح طرح کے گھس پیٹھئے آگئے ہیں او ریہ صورت حال بہت پرانی نہیں۔ جب میں نے یہ پیشہ اختیار کیا تھا تو دہلی جیسے شہر میں اردو صحافیوں کی تعداد بہت محدود تھی۔ ان دنوں سوائے حقیقی اور ہمہ وقتی صحافیوں کے کوئی دوسرا صحافی ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا تھا، کچھ لوگ اخبارات میں لکھتے تھے لیکن وہ مضمون نگار کہلاتے تھے ،صحافی نہیں۔ لوگ نوکری کے لیے نہیں صحافی بننے کے شوق میں یہ پیشہ اختیار کرتے تھے چونکہ یہ بہت مشکل پیشہ تھا یعنی مشقت بہت زیادہ اور معاوضہ بہت کم۔ اس لیے نئے آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی اور دیانت داری سے سینئر لوگ کہتے تھے کہ یہ دکھی اور مصیبت زدہ لوگوں کا پیشہ ہے۔ باہر سے اس میں گلیمر دکھائی دیتا ہے مگر اندر سے اس کا منظر مختلف ہوتا ہے۔خود مجھے روزنامہ ’دعوت‘ جو اَب سہ روزہ ہے کے مدیر اعلیٰ محمد مسلم مرحوم نے میرے خط کے جواب میں خط لکھا تھا کہ اس میں یہی کہا گیا تھا بہت مشکل پیشہ ہے، باہر سے مت دیکھو اور پھر سوچ لو۔ اور میں جواب دئے بغیر دہلی آگیا تو انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اچھا تو پھر آپ آہی گئے تو چائے پیجئے اور کام شروع کردیجیے۔ ایک انگریزی اخبار کی چھوٹی سی خبر دی او رکہا کہ اس کا ترجمہ کردو۔ میں نے جب ترجمہ کرکے ان کی خدمت میں پیش کردیا تو انہوں نے کہا کہ کل سے تم ڈیسک پر بیٹھو، اور پھر دوسرے دن سے ہماری مشقِ صحافت جاری ہوگئی۔ دراصل ڈیسک کے مترجمین ہی اصل صحافی کہلانے کے حقدار تھے لیکن انہیں کوئی نہیں جانتا تھا، جب کہ یہ لوگ ہمہ وقتی کارکن ہوا کرتے اور اپنے خونِ جگر سے صحافت کی خشک مٹی کو سیراب کرتے تھے۔ اُس وقت روزنامہ اخبارات میں جنگ کرنے والی دو فوجیں ہوا کرتی تھیں ،ایک سب ایڈیٹروں کی، دوسری کاتبوں کی، اور کچھ دوسرے بھی، اور کچھ ایسے بھی جو علمی صلاحیتوں کے اعتبار سے کوئی بھی سرکاری نوکری حاصل کرسکتے تھے لیکن صحافت کے ایسے چسکے کے شکار ہوچکے تھے کہ قسطوں میں ملنے والی تنخواہ میں مست رہتے تھے اور یہ سب کے سب اخبار نویس تھے جن کا اور کوئی ذریعہ معاش نہ تھا اور بعض نے تو پیٹ پر پتھر باندھ کر ہی پوری زندگی گزاردی۔
بزرگ صحافی نے سلسلۂ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دہلی میں اُس وقت یوں تو کئی صحافی تھے لیکن میری نظر میں اخبار ’دعوت‘ کے مدیر اعلیٰ محمد مسلم اور اخبار ’الجمعیۃ‘ کے ایڈیٹر محمد عثمان فار قلیط جیسا صحافی مجھے کوئی نہیں نظر آتا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کسی بے بسی کے سبب اُردو صحافت سے وابستہ نہیں تھے، ان کے سامنے عظیم مقاصد تھے، بڑے عزائم اور حوصلے رکھتے تھے، وہ اپنی ذات کو نظر انداز کرکے کائنات پر نظر رکھتے تھے، انہیں دوسروں کا غم اور درد اتنا بے چین رکھتا تھا کہ اپنے غم کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا مگر افسوس کہ آج کی صحافت اور صحافی کل سے بالکل مختلف نظر آتے ہیں۔ آج اس میدان میں جتنی آسانیاں ہیں اتنی ہی ہماری صحافت بے توقیر ہوتی جارہی ہے۔
آج کل صحافتی میدان میں مضمون نگاروں کی فوج در موج نظر آرہی ہے اور ان میں بیشتر شہرت اور دولت کے خواہش مند ہیں جو اپنے کالم کے ذریعہ سرکار ی دربار میں رسائی حاصل کرکے اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔ خالص سیاسی نوعیت کی کالم نگاری کی غیر معمولی اہمیت کی وجہ سے لکھنے والوں کی اس طرف توجہ خاص ہوئی اور کئی نئے کالم نگار متعارف ہوئے اور رفتہ رفتہ بلکہ دیکھتے دیکھتے کالم نگاروں کی فوج تیار ہوگئی ہے۔ ان میں چند تو واقعی اخبار نویس ہیں ،باقی شوقیہ ہیں۔ حیرانی اور شرمناک بات تو یہ ہے کہ ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے اخبارات کے مالک و مدیر بھی ہیں، وہ اپنے اخباروں کو بند کرکے یا جاری رکھتے ہوئے محض اس لیے کالم نگاروں کی فوج میں شامل ہوگئے کہ لاتعداد اور معتبر اخباروں میں اپنے مضامین شائع کرواکر عزت و شہرت حاصل کرسکیں، جب کہ عزت و شہرت تو اللہ کے اختیار میں ہے ،وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت۔ مولانا محمد مسلم مدیر دعوت، مولانا محمد عثمان فار قلیط صرف اپنے اخباروں کے لیے ہی لکھتے رہے تو کیا ان کی شہرت و عزت میں کوئی کمی ہوگئی؟ دور کیوں جائیں آج بھی اخبار مشرق کے ایڈیٹر یا اخبار انقلاب، دعوت، راشٹریہ سہارا اور لکھنؤ، ممبئی، حیدرآباد سے شائع ہونے والے اخباروں کے مدیران اپنے اپنے اخباروں کے لیے ہی لکھتے ہیں ،وہ دوسرے اخباروں میں اپنے مضامین شائع نہیں کراتے تو ان کی عزت و شہرت میں کیا کوئی کمی آگئی؟ بہت سے ایسے بھی ہیں جو دوسروں سے اپنے ناموں سے مضامین لکھوا لکھواکر خود کو مضمون نگاروں کی صف میں شامل کیے ہوئے ہیں۔
کالم نگاری کے اس سیلاب میں بہت سے ایسے ہیں جو اونچے اونچے عہدوں پر فائز تھے ریٹائرمنٹ کے بعد بہتے نظر آرہے ہیں۔ اگر ملازمت سے یہ رخصت ہوئے تو بوئے سلطانی کی بقا کے لیے کالم نویسی شروع کردی، بعض غلط لوگوں نے بھی اپنے تحفظ کے لیے اخبار نکالے اور اخبار نویس بن گئے اور حقیقی اخبار نویس خبروں میں ہی جُٹے رہے، یعنی جن کے نام کبھی سامنے نہیں آتے۔ بعض صحافیوں نے سیاست میں حصہ لیا اور پیشہ صحافت ترک کردیا، لیکن سیاست میں ناکامی کے بعد پھر سے صحافی بن گئے۔ کئی لوگوں نے سیاست میں آنے کے لیے صحافت کی سیڑھی پر قدم رکھا او رجب سیاست میں ہار ملی تو پھر واپس ہولئے۔ لوگ کہتے ہیں کہ صحافت مقدس پیشہ ہے۔ کیا اسی کو تقدس مآب پیشہ کہتے ہیں؟
غرض کہ آج کی صحافت کے اس پُرہجوم دور میں خالص پیشہ ور صحافی ہونا (چند کے علاوہ) بہت مشکل ہوگیا ہے۔ ہر بوالہوس نے حسن پرستی اختیار کرلی ہے۔ صنعت و تجارت، بلیک میلنگ، سیاسی کامیابی، اداروں کی ایجنٹی اور نہ جانے کن کن کاروباروں کی کامیابی اور ان پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافت کو اختیار کیا جارہا ہے۔ اجازت دیں تو عرض کروں کہ آج کی صحافت کا بھی سیاست کی طرح ہی ’’گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں‘‘ والا معاملہ ہوگیا ہے۔ کئی ایسے بھی ہیں جو ملّی و سیاسی اداروں کی دروں پر محض ممبری کے لیے ہی ایڑیاں رگڑ رہے ہیں تاکہ سماج میں ان کا قد کچھ اونچا نظر آئے۔بہرحال چائے خانے میں موجود صحافیوں کی گفتگو سے میں تو بہت متاثر ہوا۔ اُمید ہے آپ بھی اس فکر انگیز اور معنی خیز گفتگو سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔
E-mail: [email protected]