مولانا عبد الباری مرحوم کا نا م جموں و کشمیر کی حد متارکہ کی دونوں اطراف سیاسی و تحریکی حلقوں میں خاصہ جانا پہچانا اور زبان زدِ خاص وعام ہے ۔وہ ۱۹۱۹ ء میں بانڈی پور میں مفتی عبد القدوس مرحوم کے گھر پیدا ہوئے ۔مفتی عبد القدوس کا شمار وادیٔ کشمیر کے اہم علماء اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اساسی ممبران میں ہوتا ہے ۔وہ فاضل دیوبند اور علامہ انور شاہ کشمیریؒاور مولانا حسین احمد مدنیؒ ؒکے مایہ ناز شاگرد اور وادیٔ کشمیر کے اہم ملی و دینی رہنما تھے ۔ آخری ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں جب ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک مزاحمت عروج پر تھی تو ان دونوں باپ بیٹوں نے اس میں اہم رول ادا کیا ۔ شیخ عبد اللہ اور چودھری غلام عباس مفتی عبد القدوس کا بہت احترام کرتے تھے ۔وہ متحدہ ریاست جموں و کشمیر میں مسلم کانفرنس کی پالیسی ساز کمیٹی مجلس عاملہ کے رکن تھے ۔ ۱۹۳۸ ء میں جب شیخ عبد اللہ نے مسلم کانفرنس سے بغاوت کر کے نیشنل کانفرنس قائم کی تو مفتی عبد القدوس مرحوم بدستور نظریاتی و عملی طور پر مسلم کانفرنس کے ساتھ وابستہ رہ کر سر گرم عمل رہے کیونکہ وہ عالم دین ہونے کی وجہ سے دو قومی نظریہ کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔۲۴؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء کو پاکستان کے زیرا نتظام کشمیر میں حکومت کے قیام اور مہارجہ ہری سنگھ کی معزولی کا اعلان ہوا ،اور ۲۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء کو ہندوستانی فوج وادی میں وارد ہوئی ،جس کی وجہ سے اس گھرانے کا یہاں قیام ناممکن ہوگیا ۔ بنابریں مفتی عبد القدوس نے مظفر آباد کی جانب ہجرت کی ۔چونکہ مفتی عبد القدوس مرحوم ایک علمی و تحریکی آدمی تھے ،اس لئے انہوں نے مظفر آباد شہر کی ایک مسجد سے درس و تدریس اور دینی امور کی تبلیغ و اشاعت کا آغاز کیا اور بعد ازاں مظفرآباد شہر کے نواح دریائے نیلم کے کنارے ایک خوبصورت قطعۂ آراضی پر مدرسہ اشاعت العلوم کے نام سے ایک اقامتی دینی ادارہ قائم کیا جو اس وقت ایک بڑے دار العلوم کے طور پر خطے میں درس و تدریس اور فروغ دین کی خدمات انجام دے رہا ہے ۔مفتی عبد القدوس نے ہجرت کے بعد اپنی تمام سر گرمیوں کا محور اسی ادارے کو بنایا اور اسی دار العلوم کے سامنے دریائے نیلم میں ایک دن غسل کرتے ہوئے اس کی لہروں کی نذر ہو کر رحمت ِحق ہو گئے ۔
مولانا عبد الباری کی تعلیم و تربیت والد کی نگرانی میں ہوئی اور ان کی اٹھتی جوانی میں ڈوگرہ راج کے خلاف تحریکِ مزاحمت کے باعث وہ ذہنی و فکری اور نظریاتی طور پر اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہو گئے ۔ زندگی کے آخری لمحوں تک اسی محاذ پر سرگرم عمل رہے ۔وادی سے نقلِ مکانی کے بعد وہ اپنے گھرانے کے ساتھ مظفر آباد منتقل ہو گئے ۔جہاں سے کچھ عرصہ بعد وادیٔ بالا کوٹ میں دریائے کنہار کے کنارے اپنی ہمشیرہ کے پاس چلے گئے ،جہاں انہوں نے معمولی اثاثے سے کار و باری میدان میں قدم رکھا اور انجمن تاجرانِ بالا کوٹ کی بنیاد رکھی۔بعد ازاں وہاں سے راولپنڈی منتقل ہو گئے اور پھر آہستہ آہستہ اپنے کارو بار کو توسیع دیتے ہوئے ٹرانسپورٹ مال برداری کی ایک بڑی کمپنی کے مالک بن گئے ۔اس کا دائرۂ کار کراچی سے ’’آزاد کشمیر‘‘ کے علاوہ صوبہ سرحد اور گلگت وبلتستان تک پھیل گیا ۔ ۱۹۷۴ ء کے اوائل تک مولانا عبد الباری صاحب آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے ساتھ وابستہ رہ کر کشمیر کی تحریک کے لئے مختلف محاذوں پر سرگرم عمل رہے۔اس دوران انہوں نے ’’آزاد کشمیر‘‘ کے ایک اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ عرب دنیا کا سفر کر کے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ۔۱۹۷۰ ء تک ’’آزاد کشمیر ‘‘میں پاکستان کی کسی سیاسی تنظیم کا وجود نہیں تھا اور مسئلہ کشمیر کے مخصوص پس منظر کے باعث پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کا مشترکہ موقف تھا کہ پاکستانی زیرانتظام کشمیر باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ نہیں، اس لئے اس کی علٰیحدہ شناخت اور مسئلہ کشمیر کے تصفیے تک پاکستان کی کوئی جماعت وہاں اپنا نظم قائم نہیں کرے گی لیکن شملہ معاہدے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا نظم ’’آزاد کشمیر‘‘ میں قائم کر دیا تو اس کی دیکھا دیکھی پاکستان کی دوسری جماعتوں نے بھی’’ آزاد کشمیر‘‘ میں اپنی تنظیمی شاخیں قائم کرنی شروع کر دیں ۔ادھر مسلم کانفرنس اپنا ہدف بھول کر گروپ بندی اور اقتدار و مفادات کی رسیا ہوگئی جس کی وجہ سے مولانا عبد الباری مرحوم کو سخت ذہنی و فکری اور نظریاتی اذیت ہوئی ۔چونکہ وہ بنیادی طور پر ایک دین دارگھرانے کے مذہبی و راسخ العقیدہ نظریاتی حریت پسند آدمی تھے، اقتدار و دولت اور مراعات کا حصول ان کا ہدف نہیں تھا بلکہ ان کا اصلی ہدف اپنے مسئلہ کشمیر کا حل اور اس کے لئے منظم منصوبہ بندی تھی تاکہ خطے اور پاکستان بھر میں مسائل کے شکار جموں و کشمیر کے مہاجرین با عزت اپنے وطن واپس لوٹ سکیں ۔اس لئے مولانا عبد الباری مرحوم کو متبادل جماعت کی تلاش شروع ہوئی اور وہ چونکہ ابتدائے جوانی سے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒکے لٹریچر سے فکری طور بڑے متاثر تھے ، بلکہ مسلم کانفرنس میں رہتے ہوئے بھی جماعت اسلامی کے ساتھ فکری طور پر وابستہ اور گہرے مراسم رکھتے تھے۔ سردار عبد القیوم اور مولانا مودودیم مرحومین کے درمیان روابط اور تال میل میں مولانا عبد الباری مرحوم کا ہی نمایا ں رول تھا ۔اس لئے مستقبل کے لائحہ عمل کے لئے بانی ٔ جماعت اسلامی سے لاہور میں رابطہ کر کے ان کی مشاورت و رضامندی سے ۱۹؍جولائی ۱۹۷۴ ء کو ’’آزادکشمیر‘‘ اور بلتستان جماعت اسلامی کی تشکیل کی اور امارت کے لئے انہوں نے پونچھ سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین و مصنف مولانا صدر الدین الرفاعی کا نام تجویز کیا مگر انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کرنے سے بوجوہ معذرت کرکے مولانا عبد الباری مرحوم کا نام پیش کیا جس پر سب لوگوں نے اتفاق کیا ۔ یوں مولانا عبد الباری مرحوم ’’آزاد کشمیر‘‘ و بلتستان جماعت اسلامی کے بانی امیر منتخب ہوئے ۔
مولانا عبد الباری مرحوم اگرچہ اپنے کار و بار کے حوالے سے کافی مصروف آدمی تھے لیکن جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری قبول کرنے بعد انہوں نے کارو بار کو ثانوی حیثیت اور جماعتی ذمہ داریوں کو فوقیت دے کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور بلتستان کے اسفار کرکے دونوں خطوں میں جماعت اسلامی کا نظم قائم کیا ۔مولانا عبد الباری اپنے کارو باری زندگی اور مسلم کانفرنس کے ساتھ طویل وابستگی کے باعث پاکستانی کشمیر اور بلتستان وغیرہ کے عوام و خواص میں کافی مقبول و مشہور آدمی تھے ۔اس لئے جماعت اسلامی کے نظم کے قیام اور فروغ میں انہیں کوئی زیادہ دقت نہیں ہوئی ۔البتہ یہ الگ بات ہے کہ جماعت اسلامی عام مروجہ سیاسی یا دیگر دینی جماعتوں کے طرز کی روایتی جماعت نہیں بلکہ ایک خالصتاًنظریاتی و فکری اور تربیتی جماعت ہے ،جس میں شمولیت کے لئے دین کا بطور نظام زندگی کے مکمل فہم کے ساتھ ساتھ تربیت و تنظیم کے مختلف مراحل سے گذرنے کے بعد تحریکی و تنظیمی ، پختگی و نکھار پیدا ہوتاہے ،جب کہ مولانا عبد الباری مرحوم کی ایک عام روایتی سیاسی تنظیم کے ساتھ طویل وابستگی رہی تھی جس کی وجہ اس خطہ میں قائم ہونے والے نظم میں بعض کمزوریاں ضرورقائم رہیں ،جنہیں بعد کے ادوار میں تطہیر و تربیت کے مختلف مراحل سے گزارکر دور کر دیا گیا ۔مولانا عبد الباری مرحوم ۱۹۷۴ ء سے ۱۹۸۱ ء تک ’’آزاد کشمیر ‘‘ و بلتستان جماعت اسلامی کے امیر رہے ۔۱۹۸۱ ء کے تنظیمی انتخاب کے بعد خطۂ پونچھ کی مردم خیز سر زمین کے علاقہ دھیر کوٹ کے کرنل محمد رشید عباسی مرحوم کو جماعت اسلامی کا امیر منتخب کیا گیا جو فوجی ملازمت کے دوران جماعت اسلامی کی دعوت اور پروگرام سے اچھی طرح متعارف ہونے کے باعث جماعتی نظم و ضبط کے بڑے پابند اور بہترین منتظم تھے ۔مولانا عبد الباری مرحوم نے خطے میں جس تحریک کا آغاز کیا، مرحوم کرنل محمد رشید عباسی نے اسے پروان چڑھانے اور تنظیمی و تحریکی نظم و ضبط اور کردار سازی پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔مولانا عبد الباری مرحوم جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے بعد بدستور جماعت کے ایک سابق امیر اور ذمہ دار ومعزز شخصیت کے طور پر جماعت کے ساتھ زندگی کے آخری لمحوں تک وابستہ رہے۔جماعت اسلامی’’ آزاد کشمیر ‘‘کے علاوہ بھی پاکستان بھر میں ان کی شخصیت جانی پہچانی اور قابل احترام تھی ۔وہ بڑے خوبصورت،دراز قد،وضع دار،نرم مزاج ، شعلہ بیان مقرراور کشمیر کے روایتی حسن و جمال سے مالا مال تھے ۔وہ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی مساجد کاؤنسل کے ممبر اور سعودی عرب کے علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت بھی تھے ۔
مولانا عبد الباری مرحوم ۱۹۸۱ ء میں اسلام آباد میں ہندوستانی سفارت خانے سے وادی کا ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔وہ یہاں تشریف لائے اور وادی کی مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں اور اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان سے مسئلہ کشمیر پر تبادلۂ خیال کیا ۔مگر شیخ عبد اللہ اور بھارتی ایجنسیاں ان کی یہاں زیادہ دیر تک موجودگی کو برداشت نہ کر سکیں ،جس کی وجہ سے انہیں ویزا کی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی وطن واپسی پر مجبور کر دیا ۔انہیں اپنے وطن ،وطن کے لوگوں اور اس کے کلچر و ثقافت کے ساتھ عشق کی حد تک پیار تھا ۔وہ مسئلہ کشمیر کے پُر امن تصفیے اور وادی واپسی کے لئے زندگی بھر ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتے بلکتے رہے ۔میں جن دنوں میر پور’’آزاد کشمیر‘‘ کا شہری تھا (۱۹۸۲ ء تا ۱۹۸۶ ء)تو اس دوران اکثر ان سے ملاقاتیں میر پور میں سرینگر کے باشندے میرے مشفق دوست طارق مشکور بٹ صاحب کے گھر پر ہوتی تھیں۔ مجھے ان کی میر پور آمد کا شدت سے انتظار رہتا تھا ۔وہ جب بھی میر پور تشریف لاتے تو ان کا قیام طارق مشکور بٹ صاحب کے ہاں ہوتااورمیر پور میں مقیم وادیٔ کشمیر کی تمام کشمیری برادری ان کے ارد گرد پروانوں کی طرح بے تکلف جمع ہو جاتی اور ایک عجیب منظر پیش کرتی ۔کشمیری زبان ،کشمیری چائے اور کشمیری کلچر کی جھلک کے باعث طارق مشکور بٹ صاحب کا گھر کا سارا ماحول زعفران زار بن کر کشمیریت کا منظر پیش کرتا ۔اپنے وطن کے مانوس ماحول سے دور اور میر پور کے پنجابی اور غیر مانوس ماحول میں کچھ عرصہ کے لئے ایک عجیب قسم کا ذہنی سکون مل جاتا ، یوں محسوس ہوتا جیسے ہم وادیٔ کشمیر کے کسی روائتی کشمیری ماحول میں بیٹھے ہیں ۔چونکہ ان دنوں میں کنٹرول لائن عبور کر کے اور واپسی کی کشتی جلا کر میر پور’’ آزاد کشمیر‘‘ کی شہریت حاصل کر کے وہاں مستقلاً قیام پذیر تھا ،اس لئے اس اجنبی اور نئے اور غیر مانوس وطن میں اپنے چھوٹے ہوئے اصلی وطن کی ہر ادا بڑی سہانی اور دل کو موہ لینے والی لگتی تھی ۔ مرحوم حفیظؔ جونپوری نے شاید ہم جیسے لوگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کتنی خوبصورت بات کہی ہے ؎
بیٹھ جاتا ہوں وہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
اس لئے کشمیر وادی سے تعلق رکھنے والے مولانا عبد الباری مرحوم ہوں یا کشمیر امریکن کاؤنسل کے چیئرمین ڈاکٹر غلام نبی فائی صاحب، مرحومڈاکٹر ایوب ٹھاکر صاحب یا برطانیہ میں مقیم ڈاکٹر سعید گیلانی صاحب اور دنیا بھر میں بکھرے ہوئے وادیٔ کشمیر کے دانشور و حریت پسند مجھے میر پور میں ان لوگوں کی آمد اور طارق مشکور بٹ صاحب کے گھر مجلس آرائی کا ہمیشہ شدت سے انتظار رہتا تھا ۔چونکہ میر پور میں طارق مشکور بٹ صاحب کا گھر جنت ارضی سے بے دخل کئے گئے یاران ِنکتہ داں کی آماج گا ہ ہوا کرتا تھا اور جب مرحوم مولانا عبد الباری صاحب اس محفل کے امیر مجلس ہوتے تو محفل کے رنگ و رونق میں ایک نئی بہار آجاتی ۔گو کہ میر پور اب میرا نیا وطن بن چکا تھا لیکن پتہ نہیں میرے دل و دماغ اور ضمیر نے کبھی اسے وطن کیوں تسلیم نہیں کیا ؟میری زندگی کے وہ بہت تلخ اور یاد گار دن تھے اور اب ؎
تیرے جانثاروں کے ساتھ ہی گئیں سب جنوں کی روایتیں
یہاں سر فروش تو اب کہاں ،کوئی سر پھرا بھی نہ مل سکا
۱۹۱۹ ء میں وادیٔ کشمیر کے قصبہ بانڈی پور ہمیں پیدا ہونے والا یہ عظیم اورنڈر حریت پسندی و داعیٔ حق اپنے وطن جموں و کشمیر کی آزادی کی تڑپ سینے میں لئے ۲۶؍فروری ۲۰۰۴ ء کو پاکستان کے شہر راولپنڈی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا اور بقول مرحوم عامر عثمانی ؎
وہ کبھی جہاں پہ عامر مجھے چھوڑ کر گئے تھے
ہے رُکی ہوئی ابھی تک وہیں گردشِ زمانہ
………………………..
نوٹ : مضمون نگار چیئرمین الہُدیٰ ٹرسٹ راجوری ہیں
رابطہ نمبر 7006364495