سرینگر//مرکزی حکومت کی طرف سے کشمیری عوام تک پہنچنے کیلئے غلط راستے کا انتخاب کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کانگریس کے سنیئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ بندوق کی نوک پر زمینی سطح پر امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس کے سابق ریاستی صدر پروفیسر سیف الدین سوز نے اپنی رہائش گاہ فرنڈز کالونی ائرپورٹ روڑ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کی وکالت کی۔انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت نے لوگوں تک پہنچنے کیلئے غلط راستے کا انتخاب کیا بالخصوص ان نوجوانوں تک جن کے دماغ میں غیر یقینیت ہے۔انہوں نے کہا ’’ لوگوں کے دل اور دماغ میں جو نفرت اور غصہ ہے،اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے،جبکہ نظام کیلئے اس بات پر تیا رہونا بے سود ہے کہ،جن لوگوں نے تشدد کا راستہ اپنایا ہے،ان کے ساتھ تبادلہ خیال یا بات چیت نہیں کرنی ہے‘‘۔پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا کہ مجھے اس بات پر یقین ہے کہ اگر دائمی امن کے قیام کیلئے کام کرنا ہے تو کشمیریوں کے دماغ میں جو اضطراب ہے،اس کو دور کرنا ضروری ہے،جبکہ کس بھی قسم کے دبائو یا بندوق کی نوک پر امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔کانگریس کے سابق ریاستی صدر نے کہا ’’میں یہ بات محسوس کر رہا ہو ںکہ حکومت ہند کے پاس بہتر متبادل دستیاب ہے،جو نتیجہ خیز ثابت ہوسکتا ہے،اور وہ یہ کہ کشمیری کے ان لوگوں سے بات کی جائے جن کو غصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مشترکہ مزاحمتی قیادت بہتر بات کرسکتی ہے،اگر بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔آر ایس ایس کی جموں کشمیر سے متعلق سرگرمیوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے سابق مرکزی وزیر نے کہا میرے نظریہ میں،کشمیر کی تمام مین اسٹرئم جماعتیں متحد ہوکر آر ایس ایس کے سامنے آئے،اور یہ کشمیر کیلئے لازمی ہے،کیونکہ کشمیر انکے راڈار پر ہے،جبکہ انہوں نے آر ایس ایس کو آرٹیکل35ائے کیلئے کھلا خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جذبات صحیح ہیں،اور جذبات با معنی بھی ہوتے ہیں،تاہم سپریم کورٹ میں آرٹیکل35ائے کا کیس دلائل سے لڑنا ہوگا۔انہوں نے سیول سوسائٹی کو مشورہ دیا کہ وہ ایک اہل وکیل کا انتخاب کریں،اور آرٹیکل35ائے کے دفاع میں کیس لڑیں۔ انہوں نے مین اسٹرئم جماعتوں کی توجہ فوج کو حاصل خصوصی اختیارات سے متعلق قانون افسپا کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا اس قانون کا فوری خاتمے کیلئے متحرک رول ادا کریں۔انہوں نے کہا کہ اسی قانون نے کشمیر میں موت اور تباہی کا سامان پیدا کیا،اور کشمیریوں بالخصوص نوجوانوں کی تنہائی کو وسیع کیا۔