Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

معرکۂ کربلا

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: September 21, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
17 Min Read
SHARE
 گزشتہ   ماہ وسال کے عمل سے ایک با پھر محرم الحرام کا مہینہ وارد ہوا،اور آج اس کا پہلے عشرہ کا آخری د ن ہے ۔ یہ اسلام میں ایک تقدس مآب مہینہ ہے جس میں انبیائے کرام علیہم السلام پر اللہ جل شانہ کی بے شمارر نوازشیں اور کرم فرمائیاں ہوئیں ۔ عاشورہ محرم کو البتہ واقعہ کربلا کی نسبت سے تاریخ اسلام میں اپنی ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔ عام قاعدہ ہے کہ انسانی تاریخ میں انسانی عظمت وشہرت کا حقیقت کے ساتھ توازن بہت کم قائم رہ سکا ہے۔ یہ بھی ایک عجیب وغریب امر  ہے کہ جو شخصیتیںعظمت وتقدس اور قبولیت وشہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہیں ،دنیا عموماً تاریخ سے زیادہ افسانہ اور تخیل کے اندرانہیں ڈھونڈنا چاہتی ہے۔ اس لئے فلسفۂ تاریخ کے عظیم شارح ابن خلدون کو یہ قاعدہ بنانا پڑا کہ جو واقعہ دنیا میں جس قدر زیادہ مقبول و مشہور ہوگا ،اتنی ہی فسانہ طرازی اسے اپنے حصارِ تخیل میں لے لے گی۔ ایک مغربی شاعر ومفکر گوئٹے نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایہ میں بیان کی ہے کہ عظمت ِانسانی کے حوالے سے حقیقت کی انتہاء یہ ہے کہ افسانہ بن جائے۔ تاریخ اسلام میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شخصیت بڑی اہمیت رکھتی ہے، خلفائے راشدین المہدیئن کے عہدزرین کے بعد جس واقعہ نے اسلام کی دینی سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ حضرت حسین ؓکی شہادت کا عظیم واقعہ( المیہ) ہے ۔ یہ بات بغیر کسی مبالغہ کے کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسل انسانی کے اس قدر آنسو نہ بہے ہوں گے جس قدر اس حادثہ پر بہے ہیں۔ پندرہ سو برس کے اندر پندرہ سو محرم گذر چکے اور تقریباً ہر محرم الحرام اس حادثۂ جانکاہ کی یادتازہ کرتا رہا، واویلا کرتا رہا،اشک بہاتا رہا، یہ سیدناحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور خانوادہ ٔ نبوت کی بیش قیمت قربانی کی صدائے بازگشت ہے ۔ آپ ؓ کے جسمِ نازنین سے دشت کربلا کی سنگ دل زمین نے پاک لہو کا آخری قطرہ نچوڑ کرخود کو سیراب کیا ۔اس موقع پر چشمِ فلک نے بہ نگاہِ حزن و حسرت دیکھا کہ یہاں کس طرح ایک بے سروسامان اور نہتے قافلہ ٔ حق کا معطر ومطہرخون بہا یا گیا ۔ اس پاک لہو کے ایک ایک قطرہ کے بدلے دنیا اَشک ہائے رنج و الم کا ایک ایک سیلاب بہا چکی ہے مگر پھر بھی اس کا غم غلط ہونے کو تیار ہے اور نہ اس کی بین ختم ہونے پر آمادہ ہے۔ کیوں نہ ہو آخر یہ نواسہ رسول ؓ ہیں جنہوں نے اسلام کی سربلندی کی نیت سے احقاق ِ حق اور ابطال ِ باطل کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنا سب کچھ اپنے نانا جان ؐ کے دین کا پرچم ِحق اعلیٰ وبالا رکھنے کے لئے خوشی خوشی نچھاور کیا ۔ بایں ہمہ یہ بات بھی ایک چیستان ہے کہ تاریخ کا اتنا مشہور ومعروف اور عظیم تاثیر رکھنے والا واقعہ بھی دانستہ ونادانستہ کہیں کہیں تاریخ کے بجائے داستان گوئیوں کی صورت میں پیش کیا جا چکا ہے۔ امرواقع یہ ہے کہ دل کوکباب کر نے والا حادثۂ کربلا تاریخ اسلام میں ایک اہم ترین حادثہ ہے جس نے تاریخ اسلام کے سفر کو اشک بار کرکے چھوڑا مگر یہ عظیم الشان قربانی اُمت مسلمہ کے لئے عبرتوں اور نصائح کا ایک وسیع وعریض دفتر اپنے اندر رکھتا ہے ۔ فی الواقع دنیا کی تاریخ کا ہر ورق ابن ِآدم کے لئے عبرتوں اور نصیحتوں کامرقع اور آئینہ ہے ۔ اس کی مثالیں ہمیںقرآن پاک میں قصص القرآن اور انباء الرسل کی صورت ملتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے پند و موعظت کے لئے جہاں تاریخ کا حوالہ دیا ،وہاں تاریخ کا نفس ِ مضمون کسی قصہ یا افسانہ کی حیثیت سے مدون ومرتب شکل میں پیش نہیں کیا بلکہ صرف حقائق کے سمندر کی زیریں لہروں میں چھپے لعل و جواہر کوعبرت کے لئے ڈھونڈ نکالنے کی شاہ کلید انسان کے ہاتھ میں دی ۔اس سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ تاریخ خوداپنی ذات میں کوئی مقصد نہیں بلکہ وہ نتائج ہیں جو تاریخ اقوام اور ان میں پیش آنے والے واقعات سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن پاک نے اززمنۂ رفتہ کے تعلق سے جستہ جستہ قصص پیش کرکے ان سے عبرتیں حاصل کرنے کااشارہ دیا۔سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین حادثہ ہے، اس میں ایک طرف ظلم وجور،سنگ دلی اور محسن کشی کے ایسے ہولناک اور حیرت انگیز واقعات رقصاں نظر آتے ہیں کہ دل پژمردہ اور جگر پاش پاش ہوجاتاہے، اور دوسری طرف آل اطہارِ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چشم وچراغ اور ان کے ستر بہتر مصاحبین کی چھوٹی سی جماعت ہے جو وقت کے باطل کے مقابلہ میں ایمان کے بل بوتے پر ثابت قدمی کے ساتھ جہاد اور قربانی و جانثاری کے ایسے محیرالعقول واقعات کا صدور کرتے ہیں کہ آج بھی تاریخ محو حیرت ہے کہ یہ کس ناقابل تسخیر قوت نے انہیں ایک منظم فوج کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلہ دیا، کس نے انہیں حق کے لئے بہادرانہ طور عزیز جانیں کھپانے کی ہمت دی، کس نے مایوسی کے عالم میں بھی اُمیدو رجائیت کا د امن تھامنے کی ادا اُنہیں سکھائی اور بالآخر انہیں شہادت کی خونین قباؤں میں لپٹی ہمیشگی کی زندگی عطاہوئی اور ان کے مدمقابل لشکر کی قسمت میں دائمی حرماں نصیبی اور ذلت وخواری آئی ۔ بے شک تاریخ اسلام نے یہ دلدوز مناظر طائف، غزوہ بدر اور جنگِ اُحد میں سیدا لشہداء حضرت حمزہ ؓ سمیت متعدد صحابہؓ کی شہادتیں اور خود آپ ؐ کے دندان مبارک شہید ہونے کی سرگزشت ایک دوسری شکل میں دیکھ لئے تھے اور یہ انہی کا تسلسل ہے کہ میدانِ کربلا میں قوت ایمانی اور جان سپاری کی ایسی جیتی جاگتی تصویریں اُبھر آئیں کہ جن کی نظیر تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ بہر طور اس تصویر کے دورُخ ہیں جن میں آنے والی نسلوں کے لیے ہزاروں عبرتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ ۶۱ہجری جب یہ ناقابل برداشت حادثہ پیش آیا، اُس وقت سے لے کر آج تک اس پر مفصل کتب اور رسائل ہر زبان میں لکھئے گئے ہیں، جن میں یہ حادثہ ایک دریائے خون کی طرح چشم ِتصور کے سامنے رقصاں ہوتے ہیں اوراُن کو پڑھنے لکھنے یا سننے کے لیے جگر تھام کر بیٹھنا پڑتا ہے۔ کربلا کے میدان میں جگر گوشہ ٔرسول سید شباب اہل الجنۃ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی دردناک ومظلومانہ شہادت پر توزمین بھی روئی، ملائکہ روئے، آسمان تھرایا، پہاڑ ہل گئے اور آج بھی حساس انسان اس کا درد محسوس نہ کرے یہ ہوہی نہیں سکتا۔ شہید کربلا سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی روح مقدس دردوغم کا رسمی یاروایتی مظاہرہ کرنے والوں کے بجائے ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہے جو آپؓ کے دل مبارک میں اسلام کے لیے اعلانیہ درد میں شریک ہوں اوراس اعلیٰ وارفع مقصد کے ہم قدم ہوں جن کی بالاتری کے لئے معرکۂ کربلا برپا ہو ا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی رُوداد ِغم پر غور کیجئے تو صاف نظر آئے گا کہ آپ ؓ اس مقصد کی حرمت کے لئے کو فہ جانے کے لئے مجبور ہوئے اور اسی ایک مقصد کے لیے آپؓ نے اپنے سامنے اپنی اولاد اوراپنے اہل ِبیت اطہار اور جان نثار ساتھیوں کو قربان ہوتے دیکھا اور خود بھی اس پر قربان ہوگئے۔ شہادتِ حق کے اس کارنامے کو اول سے آخرتک دیکھئے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خطوط اور خطبات کو غور سے پڑھئے تو یہ معلوم ہوگا کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا مقصد تھاکتاب وسنت کو صحیح طور پر رواج دینا،اسلام کے نظام عدل کوازسرنوقائم کرنا، اسلام میں خلافت علی منہاج نبوۃ کے بجائے ملوکیت وآمریت کی بدعت کے مقابلے میں مسلسل جہاد کرنا، حق کے مقابلے میں زوراورزَر کی نمائش سے مرعوب نہ ہونا، حق کے لیے اپنا جان ومال اور اولاد سب قربان کردینا، خوف وہراس اور مصیبت و مشقت سے نہ گھبرانا اور ہر وقت رب کریم کو یادرکھنا ،اُسی پر توکل اور ہر حال میں رب کریم کا شکر اداکرنا وغیرہ وغیرہ ۔ہم میں کوئی ہے جو جگر گوشۂ رسول ، مظلوم شہید کربلاؓ کی اس پکار کو سنے اور اُن کے مشن کو ان کے دکھائے ہوئے نقش قدم پر انجام دینے کے لئے تیا رہو؟ ہم میں کون ہے جو آپ ؓ کے اخلاق فاضلہ اوراعمالِ حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا مقصد بلکہ لب لباب ٹھہراتاہے ؟ اپنی جگہ ان دوسوالوں پر غور کر کے دل کی دنیا سے سچاجواب پاکر واقعہ  ٔ کربلا کو یاد کیجئے تو اس کا کوئی معنی ومطلب ہے۔
قاتلان حسینؓ کا عبرت ناک انجام:
جس وقت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ بھوک پیاس سے مجبور ہوکر دریائے فرات پر پہنچے اور تھوڑا بہت پانی چاہتے تھے، تو کم بخت حصین بن نمیر( بعض اہل تاریخ نے دوسرانام ذکر کیا ہے) نے تیر مارا جو آپ کے دہن مبارک کو لگا۔ اس وقت آپؓ کی زبان مبارک سے بے ساختہ بددُعانکلی : بارالہا! تیرے محبوب کی بیٹی کے فرزند کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے، میں اس کا شکوہ آپ سے کرتا ہوں ،الہٰ العالمین! ان کو چن چن کر قتل کر ،اُن کے ٹکڑے ٹکڑے فرمادے، اُن میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑ۔۔۔اول تو ایسے مظلوم کی بددُعا اور پھر سبط رسولؐ، اس کی قبولیت میں کون سی شئے حائل ہوسکتی ؟ دعا قبول ہوئی اور آخرت کی خدائی عدالت لگنے سے پہلے دنیا میں بھی ایک ایک کر کے بری طرح مارے گئے۔ امام زہری ؒفرماتے ہیں کہ جو لوگ قتل حسینؓ میں شریک تھے، ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچا جس کو آخرت سے پہلے دنیا میں سزانہ ملی ہو، کوئی قتل کیا گیا ،کسی کا چہرہ سخت سیاہ یا مسخ ہوگیا یا چند ہی روز میں ملک وسلطنت چھن گئی ۔ ظاہر ہے کہ یہ ان کے اعمال کی اصل سزا نہیں بلکہ اس کا ایک نمونہ اور جھلک ہے جولوگوں کی عبرت کے لیے دنیا میں دکھایا گیا۔ صالح نظام حکومت کے قیام کی کوششیں اور غلط طریق ِ عمل کو بدلنے کی کاوشیں مفت کا مال نہیں بلکہ ان کے لئے ایک قیمت ادا کی جاتی ہے ۔اس کے متعلق مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی الندوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ خلفائے راشدین ؓکے بعد جو خلافت قائم ہوئی، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ موروثی اور خاندانی نظام پر قائم تھی۔ عرب اور مسلمان جس کے زیر نگیں تھے جن کی اعلیٰ نسبی اور علویت خاندانی معروف مسلّم تھی اور اُن کو وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی حمایت ودینی حمیت کی قوت حاصل ہو، حقیقت میںلوہا لوہاہی کو کاٹتا ہے اور ہواکا مقابلہ آندھی ہی کرسکتی ہے، اسی لئے دیکھا گیا کہ اموی وعباسی خلفاء کے مقابلہ میں جس نے بھی جہاد کا عَلم بلند کیا اور اصلاحِ احوا ل کے لئے آواز لگائی ،وہ پیغمبر اسلامؐ کے خانوادہ کے افراد گرامی اور علویؓ خاندان کے گل سرسبد تھے، انہی لوگوں کو اس کا حقیقی غم تھا کہ زمین پر فساد پھیل رہا ہے، بگاڑ بڑھ رہا ہے ،خلافت کی روح ختم ہوگئی ہے، مسلمانوں کی دولت وقوت نفسانی خواہشات کے پوراکرنے اورعیش کوشی کے اسباب فراہم کرنے اور جاہلیت کی سنتوں کے احیاء میں صرف ہورہی ہے ۔علامہ ابن الاثیر کی تاریخ الکامل میں مذکورہے کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے محمد ذوالنفس الزکیہ کے جہاد کے بارے میں فتویٰ مانگا گیا اور استفتاء میں پوچھا گیا کیا یہ جائز ہے، اس حال میں کہ ابو جعفر منصور کی بیعت کا قلادہ ہماری گردنوں میں ہے ؟امام مالکؒ نے فرمایا تم لوگوں سے زبردستی بیعت لی گئی ہے یعنی جس سے اس کی ناپسندیدگی کے باوجود کوئی کام کرایا جائے اس کی قسم کا اعتبار نہیں۔ اس فتویٰ کے بعد لوگ محمد ذوالنفس الزکیہ سے جاکر مل گئے اور امام مالک ؒاپنے گھر سے نہیں نکلے۔ محمد ذوالنفس الزکیہ کو سن ۱۴۵ہجری ماہ صیام میں شہید کردیا گیا اور ان کے بھائی اسی سال ذوالقعدہ میں شہید ہوئے، یہ کوششیں ناکام رہیں اور ان کا عملی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ جن حکومتوں کے خلاف یہ اقدام کیا گیا تھا ،وہ نہایت ہی مستحکم اور منظم تھیں، ان کے پاس ہتھیار اور مکمل جنگی سامان تھا ۔زمانہ حال کی تاریخوں میں بکثرت ایسی کوششوں کا حال احوال دیکھنے کو ملتا ہے جو باوجود اس کے کہ اخلاص، شجاعت اور ایمان پرور سرگرمیوں پر مبنی تھیں، ان کے رہنماؤں اور علمبرداروں کے اخلاص میں کوئی شک نہیں ،ان کے پیروؤں نے بھی ایثار وقربانی میں کوئی کمی نہ کی، یہ تحریکیں منظم اور مضبوط حکومتوں کے مقابلہ میں ناکام رہیں ۔
اہل اسلام آج بھی کرب وبلا میںہیں، خدا کی زمیں کا ذرہ ذرہ خون آلود ہے، انسانیت کراہ رہی ہے اور شرافت خاک وخون میں غلطاں ہے۔ اس نامساعد صورت حال میں معرکۂ کربلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جیسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ عملًا یہ ثابت کر گئے کہ ظلم کے قلعے اس طرح مسمار کرو کہ جس طرح میں نے کئے۔ آپؓ کی عزیمت وجرأت اور شجاعت وبصالت کا سب سے بڑا ظہور اسی معرکہ میں ہوا ۔وہ حق پر جان دینا گوارہ کر تے تھے مگر زور زبردستی کے سامنے سرجھکانا برداشت نہ تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود یکہ آپ ؓ بے یارومددگار تھے مگر بھی آپ ؓ باطل کے مقابلے میں تن تنہا آگئے اور شہادت عظمیٰ کے مقام پر جاپہنچے ۔ خدائے تعالیٰ پوری ملت اسلامیہ کے جان ومال اور عزت ووقار کی حفاظت فرمائے، بزرگوں کا سایہ جوانوں اور بچوں کے سروں پر تادیر قائم رکھے، جوانوں کو سوزِجگر بخش دے، بچوں کو حسنؓ وحسین ؓسے عملی نسبت اور معاذؓومعوذؓ کا ذوق حق پرستی عطا فرمائے۔(آمین)
    رابطہ نمبر : 9682327107/9596664228
E-mail.-  [email protected]
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

۔9500بنکر دستیاب، شہری علاقوں میں بھی تعمیرکئے جائینگے:ڈلو متاثرہ خاندانوں کی واپسی فورسز کی کلیئرنس کے بعد ممکن،ڈاکٹروں کی کمی دور کرنے کے اقدامات جاری
پیر پنچال
بوتلوں اور ڈبوں میں پیٹرول اور ڈیزل کی فروخت پر پابندی
صنعت، تجارت و مالیات
جنگ بندی اعلان کے بعد تاریخی مغل روڈ پر بھی رونق واپس لوٹ آئی پیرپنچال میں لوگوں نے راحت کی سانس لیکر اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کردیں
پیر پنچال
ریکی باں ملہت پل تکمیل کے باوجود عوام کیلئے تاحال بند عام لوگوں کو پریشانی کا سامنا ، عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر
پیر پنچال

Related

کالممضامین

! پہلگام قتل عام | جو سرحد کے آرپار تباہ کاریوں کی وجہ بنا قلم قرطاس

May 13, 2025
کالممضامین

جنگ حل نہیں! امن ہی اصل فتح ہے فکر و فہم

May 13, 2025
کالممضامین

آتشی گولہ باری اور شہر پونچھ کی تباہی | قاری محمد اقبال کی شہادت کا آنکھوں دیکھا احوال آنکھوں دیکھی

May 13, 2025
کالممضامین

! ہندوپاک جنگ ٹل تو گئی لیکن خاصی تباہی کے بعد حق نوائی

May 13, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?