اس میںکوئی شک نہیں ایک مدرس سماج میں اعلیٰ مقام و مرتبہ رکھتا ہے ۔وہ سماج کے لئے ایک آئینہ ہے جسے دیکھ کر لوگ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔استا د ہی وہ شخصیت ہے جو ہر انسان کو تاریکی سے نکال کر اجالے کی جانب راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔استادکو باوقار بننے کے لئے اپنے کردار کو سلامت رکھنا پڑے گا۔چاروں اطراف سے یہ صدائیں آرہی ہیںکہ استاد ڈیوٹی نہیں دیتا ، استاد پڑھاتا نہیں، استاد اپنے طلباء کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں،استاد محنتی نہیں ہیں، استاد مڈ ڈے میل Mid Day Mealکھاتے ہیں،استاد اپنے شاگردوں کے ساتھ غلط تعلقا ت رکھتے ہیں۔اور کہیں جگہوں میں ایسی وارداتیں رونما ہوئیں جن کی وجہ سے ایک استاد پر کالا داغ لگا۔اگر تالاب میں ایک مچھلی گندی ہو تو ساری مچھلیاں بدنام ہو جاتی ہیں۔ مگر ہم ایسا نہیں کرتے کہ اگر ایک مچھلی گندی ہو تو اسے باہر نکال دیا جائے۔ بلکہ ہم سب اساتذہ کو اس بد نامی کا شکار بنالیتے ہیں۔یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ۔زمانہ قدیم میں استاد کا کیا وقار ہوتا تھا میں تھوڑی وضاحت کردوں۔لوگ اساتذہ کو بہت عزت کرتے تھے۔طلباء و طالبات کا یہ الم ہوتا تھا اگر کہیں سے استا د سامنے نکلتا تو ڈر کے مارے طلباء چھپ جاتے تھے ۔لیکن آج کل ایسا نہیں ہے اگر استا د مل جائے تو اس کا شاگرد اس کے سامنے چھاتی تان کر نکلتا ہے ۔اور اپنے قلب میں یہ سوچ رکھتاہے کہ مجھے کیا کرے گا اگر کچھ کہے گا میں والدین کے پاس شکایت کروں گایا تھانے میں رپورٹ لکھوائوں گا۔یہ ہی بات آج طلباء کے ذہینوں میں رقص کر رہی ہے ۔کیا بات ہے کہ آج کل ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان ادب و احترام سے محروم ہیں ۔یہ بھی ایک استاد کے سر پر ہی سہرا باندھ لیا جاتا ہے کہ اساتذہ نے ان کو پڑھایا ہی نہیں ہے کہ ان کو بات کیسے کرنی ہے بڑوں کا ادب کیسے کرنا ہے اور چھوٹو ں پر شفقت۔ اگر کسی کا فرزند استاد یا کسی بڑے کے سامنے کرسی پر بیٹھ جائے تو والدین فخر کرتے ہیں اور ان سے گر یہ بات کہی جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کرسی بیٹھنے کے لئے ہوتی ہے ہم جانتے ہیں بیٹھنے کے لئے ہی ہوتی ہے مگر ہم لفظ ادب و احترام کے کیا معنی نکالیں ۔ اور اگر اسکول کی جانب نظر کریں اور غور سے مشاہدہ کریں کہ کیا کوئی ایسا سبق نصاب Sullabus میں ہے جس سے یہ پڑھایا جائے کہ بڑوں کا ادب کریں اور چھوٹوں پر شفقت۔اور والدین کے سامنے کس طرح پیش آنا ہے ۔یا اگر کوئی راستے میں بزرگ ملے تو اس کے ساتھ کیسے کیا سلوک کرنا چاہئے۔ایسا کسی بھی نصاب، خاکہ Syllabus میں لکھا ہوا نہیں ہے مارل ایجوکیشن Moral Education کا کوئی بھی سبق نہیں دیا جاتا ہے ۔ہاں قدیم زمانے میں ہمارے اساتذہ ہمیں اسمبلی Assemblyمیں کہتے رہتے تھے کہ بزرگوں کی مدد کرنی چاہئے اور والدین کی کی خدمت کرنی چاہئے اور اساتذہ کا بھی احترا م کرنا چاہئے ۔اساتذہ کی کبھی بددعا نہیں لینا ہمیشہ ناکام رہو گے ۔بس اس خوف میں ہم اساتذہ کی باتو ں پر دھیا ن دیتے تھے اور راستے میں اگر کوئی ملتا تو اس کی مدد کرتے اور اپنے والدین کے سامنے جرت نہیں ہوتی کہ اورنچی آواز میں بات کریں۔یا ان کے سامنے کرسی یاچار پائی وغیرہ پر بیٹھیں ۔یہ ہمارے دل و دماغ میں تھا ہی نہیں ۔میں نے ایسی اولاد بھی دیکھی ہے جو چالیس سال کی عمر میں بھی اپنے والدین کے سامنے روبرو نہیں ہوتے اتنا خوف طاری ہوتا تھا کہیں ہم سے نہ غلطی ہو جائے نہ جانے کیا سزا ملے گی ۔وہ تھا ادب و احترام ۔اگر آج کہیں والدین نے اونچی بات کر لی تو بچہ مارنے کے لئے تیا رہو جاتا ہے۔ مگر آج کے بچے جدیدت Modernizationکی اور بڑھ رہے ہیں ۔ان کاجنم ہسپتالوں سے شروع ہوتا ہے اور چار سال کی عمر میں موبائل یا ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھنا پڑتا ہے تب استاد یا والدین کے سکھانے کے بجائے میڈیا خود عرنانیت سکھا دیتی ہے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔میں قربان جائوں ان والدین پر جب کبھی اسکول میں استا د سبق پر مارتے تھے کبھی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ ہم گھر میں فریاد کریں اگر کسی نے ہمت کی بھی تو اُس کا وہ حشر ہوتا تھاشاید زندگی میں پھر کبھی ایسی حرکت نہیں کرتا ۔وہ ماں باپ بھی تھے اوراولاد بھی ۔اگر چہ ہم سارا قصور اساتذہ پر ٹھہرایں تو غلط ہوگا ۔کچھ ذمہ داریا ں والدین پر بھی عائد ہوتی ہیں جو انہوں نے نبھانی ہیں۔رہا سوال ایک استا د کا اس نے اپنا وقار کس طرح سماج میں بنانا ہے وہ اس کو خود ہی تیا رکرنا ہے سب سے پہلے اس نے اپنی ایمانداری کو برقرار رکھنا ہے ۔اگر اس نے اپنے رب کو پہچان لیا گویا اس نے ساری کائینات کو پہچان لیا اگر اس نے رب کو نہ پہچانہ تو پھر ساری سرکار یا سماج ایک استاد کے پیچھے لگ جائے تو اس کو ٹھیک کرنا دشوار ہو گا۔اگر استاد اپنی ڈیوٹی وقت پر دیتا ہے اور اپنے اسکول کے کام صحیح اور نیک نیتی سے انجام دیتا ہے گویا اس نے استاد کا مرتبہ حاصل کر لیا ۔سارا سماج استاد کا احترام کرے گا لیکن ایک استاد نے بھی اپنے مقام کو سمجھنا ہے کہ میرا مقام کیا ہے ۔سارا سماج بھروسہ کر کے اپنے بچے بچیوں کو اساتذہ کے حوالے کرتے ہیں یہ سمجھ کر کہ یہ استاد ہیں کیوں کہ استاد اور ماں باپ کا رشتہ ایک ہوتا ہے پاک و صاف اگر کہیں استاد نے اپنے شاہ گرد سے غلط تعلقات بنا لئے تو وہ استاد کہلانے کے قابل نہیں ۔اس سے بہتر ہے اگر وہ استاد اپنی بچی کے ساتھ ایساکرے میرے خیال میں غلط نہ ہوگا ۔کیوںکہ یہ رشتہ باپ بیٹے یا بیٹی کا ہے ۔ایسے واقعات بہت رونما ہوئے۔مگر ایک اچھے استاد نے ان چیزوں سے بچنا ہے اور اپنی نگاہوں کو سنبھال کر رکھنا ہے ۔اور ایک استا د کا اخلاق بلند ترین ہونا چاہئے سماج میں چاہئے چھوٹا ہو یا بڑا رئیس ہو یا مفلس شاہ ہو یا گدا اس کی ایک ہی نگاہ ہونی چاہئے ۔اس میں عاجزی و انکساری ہونی چاہئے ۔اس میں وہ درد ہونا چاہئے جو دوسروں کے کام آئے ۔اگر ایک ایڈمنسٹریڑAdministrator کے عہدے پراسکول میں ہے اس کو بھی اپنے رفقاء کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش آنا چاہئے ۔کچھ ایسے بھی ایڈمنسٹریڑ ہیں جوقلمی مار دینے میں ذرا دھیر نہیں کرتے۔ اپنے سے جونیر Juniorکو سمجھائے اگر وہ کم عمر ہے یا اس کا تجربہ Experience کم ہے غلطی ہو سکتی ہے اسے چھوٹا سمجھ کر معاف کرنا چاہئے ۔ہر گھڑی اپنے رفقاء کے ساتھ پیار ہمدردی کے ساتھ پیش آنا چاہئے اور اسکول میں مل جل کر کام کریں ۔اور اس بات کا بھی خیال رہے کوئی استاد کلاس جائے بغیر اپنا پیرڈ Periodضائع نہ کرے ایسا کر نا بھی گنا ہ ہے ہمیشہ سچ بولنے کی عادت ڈالنا دغا بازی نہیں کرنا ۔استاد میں ایسی چیزیں موجود ہونی چاہئے جودوسرے اس کو دیکھ کر اپنا ئیں کیوں کہ ایک استا د سماج کا نمونہ ہے جس کو دیکھ کر سارا سماج چلتا ہے۔ بغیر استا د کے کوئی نہیں ہے جس نے خود تعلیم حاصل کی ہو۔اور وہ کسی بڑے عہدے پر فائز ہو ایسا ناممکن ہے ۔کئی وجہ سے آج کل استاد بدنام ہے کوئی کہتا ہے استا د امتحان میں نقل کرواتے ہیں کوئی کہتا ہے مڈ دے میل Mid day meal کھا گئے کوئی کہتا ہے اسکول کے فنڈس Fundsکھا گئے اسی طر ح سے ایک استاد کو بدنام کیا جاتا ہے لیکن لوگ توخدا پر بھی راضی نہیں ہوتے جس نے ساری مخلوق کی پیدا کیا ہے اور ہر ایک چیز اس ناشکر انسان کے لئے حاضر رکھی ہے۔ اگر ایک دن سورج اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہے ساری دنیا تہس نہس ہو جائے گی یہ ساری رب کی مہربانی ہے جو ہم جیسے نافرمان انسانوں کو روزی فرہم کرتا ہے ۔ اگر ایک استادسچائی کے ساتھ اپنا کام نبھائے تو یقیاََ وہ کامیاب ہے ۔اگر استاد ڈیوٹی دینے میں کوتاہی نہ کرے اگر اپنے کردار کو سلامت رکھے اگر کلاس میں ٹائم ضائع نہ کرے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے لوگ اسے دل سے چاہیں ۔اپنے آپ کو علم کے نور سے منور کرے اور اپنے آپ میں وہ صلاحیت پیدا کرے جس سے سماج کے لوگ متاثر ہو جائیں ۔جب و ہ سماج میں جائے تو اس کا اٹھنا بیٹھنااور اس کا کردار ایسا ہوکہ سماج اسے اپنائے ۔ نہ کہ ایسی بات کرے جس سے لوگ حقارت کی نگاہ سے دیکھیں۔اپنی ایمانداری کا ثبوت دے اور ہر کام اللہ کو حاضر ناظر رکھ کر کرے پھر کبھی بھی استاد بدنامی کا شکار نہیں ہو سکتا ۔اگر غلط طریقے کے ذریعے کوئی مال کماتا ہے پھر وہ اپنی اولاد کو جہنم کی طرف دھکیل دیتا ہے اگرحق حلال کی روزی ہو اولاد بھی نیک بخت بنے گی ورنہ پھر اپنی اولا دکو نیک تصور کرنا ایک خام خیال ہے ۔حرام کی کمائی ہمیشہ حرام کی رہ پر جاتی ہے۔اگر چہ تمہیں معلوم نہیں ہوتا ۔اللہ تعالیٰ اسے بندے کو ایسی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے جہاں اسے ہزار روپیہ خرچنا تھا وہاں اس کو ایک لاکھ سے بھی زائد خرچنا پڑتا ہے۔یہ صرف ایک استاد کی بات نہیں ہے بلکہ سماج میں رہنے والے ہر ایک فرد کی ۔اگر مدرس اپنا مقام سمجھ لے شائد کوئی بات نہیں کرے گا۔اپنا کردار ،گفتار،اخلاق،اخوت ،الفت،احساس نرمی،مسکراہٹ،ہمدردی،تڑپ،مفلسوں کی مدد،کسی سے اس طرح ملنا کہ وہ سمجھ جائے یہ ایک استاد ہی ہو سکتا ہے ایسی چیزیں اگر استاد میں آ جائیں تو یقینا ایک استاد کا مقام بلندتریں ہو جائے گا۔
فانی ؔ ایاز گولوی ،رام بن
9596606391_________________________________