ریاست جموںوکشمیر میں شخصی دور کے آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کا یوم پیدائش 23ستمبر کو جموں صوبہ میں زور و شور سے منایا گیا اور اس سلسلہ میں کئی تنظیموں اور سماجی گروپوں کی جانب سے تقاریب کا اہتمام کیا گیا ، جن میں آنجہانی مہاراجہ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس موقع پر کئی ریلیوں کا بھی اہتمام ہوا، جو ایک معمول کی بات ہے کیونکہ ان ریلیوں کا اہتمام ماضی سے چلا آرہا ہے ، لیکن اتوار کی کچھ ریلیوں میں جو ایک خاص بات دیکھنے کو ملی ، وہ تھی مہلک ہتھیاروں کی کُھلم کُھلا نمائش۔ اگر چہ ماضی میں اُس رتھ، جس پہ آنجہانی مہاراجہ کی مورتی سوار ہو تی ہے، کے اوپر چند ہتھیار بند لوگ دیکھنے کو ملتے تھے، جو انکی اور انکے خانوادے کی قوت حکمرانی و اقتدار اعلیٰ کی تاریخی علامت کہی جاسکتی ہے لیکن آج کی ریلیوں میں جس وسیع پیمانے پر گاڑیوں ، بائیکوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار نوجوانوں نےبندوقوں ، پستولوں ، تلواروں اور خنجروں کی جس عنوان سے نمائش کی ہے، وہ کسی بھی جمہوری اور قانونی سماج کا حصہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ سماجی سرگرمی کی آڑ میں ایسا مظاہرہ کرنا، جو کسی نہ کسی صورت میں خوف کے ماحول کو جنم دے، کسی بھی قانون میںجائز نہیںٹھہرایا جاسکتا۔ ایسی ریلیوں میں ہتھیاورں کی کھلم کھلا نمائش کی حکومت کیسے اجازت دے رہی ہے یہ ایک ایسا سوال ہے ، جو سماج کے مختلف حلقوں کی طرف سے پوچھا جا رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے جموں صوبے میں مختلف اوقات پر ، خاص طور سے آر ایس ایس اور اسکی حامی جماعتوں کی جانب سے اجتماعات اور ریلیوں میں ہتھیاروں کی نمائش کو جس عنوان سے فروغ مل رہا ہے ،اُس پر مختلف سیاسی،سماجی حلقوںنےوقت وقت پر غم و غصہ اور احتجاج کا مظاہرہ کیا لیکن مقامی انتظامیہ کی طرف سے ہر وقت سنی کو ان سنی کرنا ایک ایسی صورتحال کوجنم دے رہا ہے ، جس سے انتظامیہ پرسے عوام کا اعتماد بُری طرح متزلذل ہو رہا ہے کیونکہ اس غیر جمہوری کاروائی پر انتظامیہ کی پُر اسرار خاموشی مستقبل میں کسی بھی وقت صورتحال میںبگاڑ پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ اگر چہ جموںکے کچھ سیاسی حلقے اس معاملے کو جذباتی رنگ دیکر ڈوگرہ راجپوت طبقہ کی عسکری روایات کا غماز قرار دیکر اس عمل کو خطرات اور خدشات سےعاری قرار دینے میں دور کی کوڑیاں ملانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ملک کے جمہوری نظام میں اس طرح مہلک ہتھیاروں کی نمائش کو جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ انتظامی حلقوں سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ کیا اس نوعیت کی ہتھیار بند ریلیوں کےلئے ریاست کے دیگر حصوں میںاجازت دی جاسکتی ہے؟ یقینی طور پر اس کا جواب نفی میں ہوگا، مگر جموں میں بار بار ایسی ریلیوں کی اجازت دینے کے پیچھے کیا مقاصد کار فرماء ہیں، انکی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی جانب سے اس پر خاموشی بنائے رکھنا کئی ایسے سوالات کو جنم دے سکتا ہے، جو حکومت کی دیانت پر سوالیہ نشان کےمترادف ہوگا۔ فی الوقت ریاست کےا ندر تنائو کے ماحول میں بلدیاتی و پنچایتی انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں عروج پر ہیں اور حکومت اس حوالےسے تیزی کے ساتھ مراحل طے کر رہی ہے۔ انہی تیاریوں کے سلسلہ میں ضلعی سطح پر لائیسنس یافتہ ہتھیار لانے لیجانے پر پابندی عائد کرنے کا عمل شروع ہوا ہے۔ چنانچہ چند روز قبل ہی اننت ناگ کی ضلعی انتظامیہ نے اس حوالےسے احکامات جاری کرتے ہوئے نہ صرف ہتھیاروں اور گولہ بارود کی نقل وحمل پر پابندی عائد کر دی ہےبلکہ شہریوں کوہتھیاروں کے لائیسنس متعلقہ تھانوں میں جمع کرانے کی ہدایت دی ہے۔ یہ ایک ہی تصویر کے د وپہلو ہیں، جنکی حکومت کی جانب سے وضاحت کی جانی چاہئے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو عام لوگ یہ سمجھنے میں غلط نہیں ہونگے کہ انتظامیہ کی جانب سے مخصوص بنیادوں پر دوہرا معیار اختیار کیا جا رہاہے۔