سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کا اکثریتی فیصلہ،ڈاٹا کسی پرائیویٹ کمپنی کو دینے پر پابندی
نئی دہلی//سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کچھ شرائط کے ساتھ آدھار کارڈ کی آئینی فعالیت کو برقرار رکھا ۔چیف جسٹس دیپک مشرا،جسٹس اے کے سکری،جسٹس اے ایم کھانولکر ،جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس اشوک بھوشن کی آئینی بینچ نے اکثریت سے اس فیصلے میں آدھار قانون کو فعال ٹھہرایا ،لیکن اس کے کچھ التزاموں کو مسترد بھی کردیا۔جسٹس سکری نے خود اپنی ،چیف جسٹس اور جسٹس کھانولکر کی جانب سے اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے بینک کھاتے کھلوانے ،موبائل کنکشن حاصل کرنے اور اسکولوں میں داخلے کے لئے آدھار کارڈ کی لازمیت کوختم کردیا،لیکن پین کارڈ کے لئے اب بھی اسے لازمی قرار دیا ہے ۔سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ پرائیویٹ کمپنیاں آدھار ڈاٹا کا مطالبہ نہیں کرسکتیں۔حالانکہ عدالت نے حکومت کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ ڈاٹا کی سکیورٹی کے سلسلے میں ایک مضبوط نظام تیار کرے ۔جسٹس چندر چوڑنے اس فیصلے سے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے اپنا الگ فیصلہ سنایا،جبکہ جسٹس بھوشن نے الگ فیصلہ سنایا لیکن زیادہ تر موضوع پر اکثریت کے فیصلے سے انہوں نے اتفاق ظاہر کیا۔آئینی بینچ نے یہ بھی کہا کہ حکومت عدالت کی اجازت کے بغیر بایو میٹرک ڈاٹا کو قومی سلامتی کے نام پر کسی اور ایجنسی سے بانٹ نہیں سکتی۔عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ غیر قانونی غیر مقیموں کو آدھار کارڈ نہیں ملنا چاہئے ۔جسٹس سکری نے آدھار پر حملے کو آئین کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ آدھار کارڈ پر حملہ لوگوں کے حقوق پر حملہ کرنے کے برابر ہے ۔انہوں نے کہا ،''یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر چیز بہترین ہو،لیکن کچھ الگ بھی ہونی چاہئے ۔''انہوں نے نقلی آدھار کارڈ کے شبہ سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آدھار کارڈ نے غریبوں کو پہچان اور طاقت دی ہے ۔جسٹس سکری نے کہا،''آدھار سماج کے غریب لوگوں کو حق اور پہچان دیتا ہے ۔یہ پہچان کے دوسرے آئیڈینٹیٹی کارڈز سے بھی الگ ہے کیونکہ اس کا ڈوپلی کیٹ نہیں بنایا جاسکتا۔ساتھ ہی اس میں کارڈ ہولڈر کی سب سے کم معلومات جمع کی جاتی ہے ۔''انہوں نے مرکزی حکومت سے ڈاٹا کی حفاظت کرنے والے مضبوط قانون کوجلد از جلد نافذ کرنے کے لئے کہا ہے ۔عدالت نے کہا کہ پرائیویٹ کمپنیاں آدھار نہیں مانگ سکتیں۔یہاں تک کہ اسکولوں میں داخلے کے لئے بھی اس کی ضرورت نہیں ہوگی،لیکن سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای)،نیشنل ایلیجی بیلیٹی اینٹرنس ٹیسٹ (این ای ای ٹی)اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن(یوجی سی)کے لئے یہ ضروری ہوگا۔آدھار قانون کو مالیاتی بل کی طرح منظور کرانے کے موضوع پر جسٹس سکری نے کہا کہ اسے مالیاتی بل کی طرح لایا جاسکتا ہے لیکن کسی بل کو مالیاتی بل کی طرح پیش کرنے کی اجازت دینے سے متعلق لوک سبھا اسپیکر کے حقوق کو چیلنج کیاجاسکتا ہے ۔حالانکہ جسٹس چندرچوڑ نے آدھار بل کو مالیاتی بل کے طورپر پیش کرنے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آدھار قانون ہی غیر آئینی ہے ۔قابل ذکر ہے کہ ریٹائرڈ جج پتاسامی کی عرضی سمیت 31عرضیوں کے ذریعہ آدھار قانون سے منسلک مختلف موضوعات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیا تھا۔عرضیوں میں خاص طورپر آدھار کے لئے جمع کئے جانے والے بایومیٹرک ڈاٹا سے پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی ہونے کی دلیل دی گئی تھی۔آدھار کی سماعت کے دوران ہی پرائیویسی کے حق کے بنیادی حق ہونے یا نہ ہونے کا بھی موضوع زیر بحث آیاتھا،جس کے بعد سپریم کورٹ نے آدھار کی سماعت بیچ میں ہی روک کر پرائیویسی کے بنیادی حق ہونے پر سماعت کے لئے آئینی بینچ تشکیل دی تھی،جس نے پرائیویسی کو بنیادی حق قرار دیا تھا۔اس کے بعد پانچ ججوں نے آدھار کی قانونی حیثیت پرسماعت شروع کی تھی۔تقریباً ساڑھے چار مہینوں میں 38 دنوں تک آدھار پر سماعت ہوئی تھی۔