اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کوایمانداری کی نیک کمائی سے تعلیم دلوا کر میڈیسن میں پوسٹ گریجویشن کروائی۔ امتحان میں اچھے ماکس لینے کی وجہ سے اسکوملک کے ایک باوقار طبی ادارے میں دنیائے طب کی جدید تر اوراُبھرتی برانچ سُپر سپیشلٹی میں عمر رسیدگی کی بیماریوں اور مسائل کے علاج کے شعبے میں داخلہ ملا۔یہ اپنے علاقہ کا پہلاایسا ڈاکٹرتھا جواس برانچ کے ماہر کی حیثیت سے تعینات ہواتھا۔ اس وجہ سے ڈاکٹر مہیش کی ہر سطح پر تعریف ہورہی تھی اورہرکوئی اسکی تقرری سے خوش تھا۔طبی تعلیم اور صحت کے وزیر نے ان کو اپناتھوڑا ساوقت آشرم اور اولڈایج ہومزجیسے فلاحی اداروں میں لگانے کوکہا، جس کی ڈاکٹرنے حامی بھری۔ان اداروں میں گھرسے بے توجہی کی وجہ سے نکالے گئے،ناداراورلاوارث افرادکوداخل کیاجاتاہے ۔اس سلسلے میں وزیرکی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ڈاکٹرمہیش نے پہل کی۔
اس نے سب سے پہلے قریبی شہر کے اولڈ ایج ہوم میں جانکاری اورعلاج معالجہ کے لئے کیمپ لگایا۔
حسب وعدہ ڈاکٹر شرون کمار نے اس اولڈایج ہوم میں لیکچردیا۔ لیکچربہت ہی پراثراورفائدہ مندتھا۔ اپنی تقریرمیں اس نے حاضرین کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ ایک تو ایسے نادارافراد کو اپنے اندرخود اعتمادی کاجذبہ پیداکرناہے اوردوسرے سماج کوبھی انکی صحیح معنوں میں دیکھ بھال کرنی چاہیئے۔ڈاکٹروں نے بھی اپنے فرض کی ادائیگی میں پیش پیش رہنا چاہئے۔
سب سے زیادہ ذمہ داری اولاد کی ہی بنتی ہے کیونکہ جن والدین نے انہیں پال پوس کر بڑاکیا اورتعلیم دلواکر انہیں اپنی ٹانگوں پر کھڑا کیا اور پھر دن اور رات انکی کامیابی لئے دعائیں مانگ مانگ کر کاٹے، اب انکی باری بنتی ہے کہ وہ ان بیمار،لاغراور محتاج والدین کاخیال رکھیں۔ انکی خدمت کریں ۔میں اس بارے میں اس آشرم کے منتظمین کومبارک باد دوں گا کیونکہ وہ ایک اہم کام سرانجام دے رہے ہیں۔
تقریرختم ہونے کے بعدسبھی حاضرین اورانتظامیہ نے ڈاکٹرشرون کمارکے اخلاق اورجذبے کی زبردست تعریف کی۔آشرم کے سبھی افرادکہہ رہے تھے کہ مبارکباد کے مستحق اس ڈاکٹرکے والدین ہیں، جنھوں نے ایسی اولادکوجنم دیاہے اورانکی ایسی تربیت کی ہے۔ ادھرہمارے بیٹے ہیں کہ جنھوں نے ہمیں ناکارہ اور بوجھ سمجھ کراپنے بنے بنائے گھروں سے باہرنکال کر یہاں پھینک دیاہے۔گھنشام سر جھکائے ہوئے سارے تاثرات سنتا رہا۔ اُس کا دم گھٹنے لگا۔ وہ چیخ چیخ کر لوگوں سے کہنا چاہتا تھا ۔
مگر پھر کچھ سوچ کر جان بوجھ کرخاموشی اختیارکرلی کیونکہ موقعہ ہی ایساتھا !کسی سے نہ کہہ سکتاتھا کہ یہ اُس کابیٹاہے اورنہ ہی اُن کی ہاں میںہاں ملاسکتاتھا۔اُس نے پورے لیکچرکے دوران اپناسراپنے دونوں گھنٹوں میں چھپاکررکھاتاکہ بیٹا اُس کودیکھ کرشرم کے مارے ہڑبڑانہ جائے اوروہ لگاتاراپنے بہتے آنسوئوں کوپی رہاتھاکہ حقیقت راز ہی رہے۔
ڈاکٹرشرون کمار کویہ وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اس کاباپ بھی اِسی آشرم میں ہوگااوراِسی مجلس میں ہوگا۔
آشرم کے ایڈمنسٹریٹر نے ڈاکٹرشرون کمار کورخصت کرتے ہوئے انکے کان میں کہا۔جناب ڈاکٹرصاحب ! کیاآپ اپنے پتاگھنشام جی سے ملناپسندکریں گے۔وہ بھی یہاں ہی داخل ہیں۔کسی انہونی یا کسی نازک حالت یاموت کی صورت میں انہوں نے مجھے آپ کومطلع کرنے کیلئے کہاہے ۔
یہ سن کر ڈاکٹرکابدن جیسے سُن ہوگیا۔ وہ محسوس کرنا لگا جیسے وہ دریا میں ڈوب گیا ہے اور پانی اُسے نیچے ہی نیچے کھینچ رہا ہے۔ اُس نے جھر جھری لی اور دیکھا کہ نیتا جی گنگا میں ڈوبکی مار رہے ہیں تو وہ وہاں سے کھسک گیا۔
ڈاکٹرشرون کمار دس برس پہلے اپنے بوڑھے باپ کو گنگااشنان کروانے ہردوار لے گیاتھا۔ وہاں جب وہ نہانے کیلئے ڈبکی لگانے لگا۔اس کابیٹا اُسے وہیں چھوڑکر واپس اپنے شہر آیا اوریہ مشہور کردیاکہ انکے والد کاہردوار میں ہی دہانت ہوگیا۔وہ وہاں سے خالی ہاتھ واپس آیا۔
گھنشام نے نہانے کے بعد اپنے بیٹے کوبہت تلاش کیا تھا مگرجب وہ نہ ملا توبہت پریشان ہوگیا۔ کچھ دنوں بعد ادھراُدھر سے مانگ تانگ کر پیسے جمع کرکے وہ واپس اپنے شہر آیا۔ اپنے گھرجانے کی بجائے سیدھے اس آشرم میں داخل ہوا۔تب سے وہ یہیں پر پڑا ہوا ہے۔
یہ کسی کھلے اجتماع میں ڈاکٹرشرون کمار کاپہلااورآخری تربیتی اورعلاج معالجہ کاسیشن تھا۔
موبائل نمبر؛8825051001