یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ عصر حاضر میں کہنے کو اتحاد بین المسلمین کا تصور موجود ہے مگرمسلمان نے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ظلم ،منافقت اور دھوکہ بازی کے ساتھ پیش آنا ترک نہیں کرتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بیشتر مسلم ممالک کے پاس مال و اسباب کی فراوانی ہے،جاہ و حشمت بھی ہے لیکن ا یمان اور سلامی اخوت کا کوئی نام و نشان نہیں۔حد یہ کہ مسلم ممالک میں یہود و نصاریٰ کا نظام گڈ مڈ ہوچکا ہے کہ کہیں امریکہ کی خدائیت ہے ، کہیں اسرائیل کی آقائیت ہے ، کہیں فسادیوں کا بول بالا ہے کہیں دشمنوں کا دور درورہ ہے ۔ انہی ٹھوکروں میں مسلم اُمہ مررہی ہے اور مٹ رہی ہے ۔ یہ آج کی تلخ ترین حقیقت ہے لیکن ایک وہ زمانہ تھا جب مسلمان دنیا میں متحد تھے ، منظم تھے ، پارسا تھے ، نیک عمل تھے ، ہمدردان ِانسانیت تھے ، طاقت ور تھے ، علم وفضل سے لیس تھے ، طب وجراحت اور سائنس میں یکتائے زمانہ تھے ، جنگی مہارت میں بے مثل تھے کہ قیصر و کسریٰ تک ان سے کانپتے اُٹھتے،بڑی بڑی سلطنتیں ان کے مقابلے کی تاب نہ لاتی تھیں۔صحرائے عرب کے اَن پڑھ کلمہ خوان بددوںنے ایشیا،افریقہ اور یورپ کے کئی حصوں کو نورِ اسلام کے زیر سایہ لایاتھا لیکن افسوس کہ وقت گذرنے کے ساتھ ملت اپنی مسلمانیت کھو گئی ،وحدت گنواگئی ، اپنی ایمانی قوت سے ہاتھ دھوگئی ، عسکری قوت سے محروم ہوگئی توانجام کار آپس میں بے مقصد جھگڑوں میں اُلجھ کر رہ گئی اور آہستہ آہستہ حاکم سے محکوم بن گئے۔ اس وقت بھی اگرچہ روئے زمین پر ڈیڑھ ارب مسلمانوں پر مشتمل 57مسلم ممالک موجودہیںمگر مختلف خانوں میں بٹے ہیں ، بکھر ے پڑے ہیں، ہر اعتبار سے پچھڑے ہوئے ہیں، کسی بھی سطح پرباطل سے مقابلہ آرائی کی سکت سے عاری ہیں۔ نتیجہ یہ کہ عالمی سطح پر مسلم اُمت تقسیم درتقسیم ہیں، باہمی منافرت اور کشیدگی کے باعث گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔مسلم دشمن قوتیں بیشتر مسلم حکمرانوںکو شیشے میں اُتار کر اُمت مسلمہ کا شیرازہ تتر بترکرنے میںکامیاب ہورہی ہیں اور مسلم ممالک ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف بے تکلفی سے جنگی کاروائیاں کرنے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور سیاسی،مسلکی،لسانی ،فرقہ بندیوں کی آڑ میں ایک ودسرے کی تکفیر بازی میں مشغول ہے ۔ عام مسلمان النفسی النفسی کی حالت میںہیں اور مسلم حکمران و قائدین اقتدار کی ہوس اور مفادات کی بھوک میں اندھے،گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں ۔ مانا کہ یہود و نصاریٰ نے تمام مسلم ممالک میں نہ صرف اپنے زر خرید ایجنسیوں کا جال بچھایا ہے مگر ان ایجنسیوں کاسارا کام مسلمان انجام دے کر آپسی اتحاد پارہ پارہ کرتے جار ہے ہیں ۔ نتیجتاً مسلمانوں کا خون نہ صرف مسلم ممالک میں بلکہ دیگر ممالک میں بھی پانی کی طرح بہایا جارہا ہے ۔ امریکہ ، روس اور ان کے اتحادی کھلے اور خفیہ طور آج تک بہانہ بازیاں کر کے عراق، افغانستان ،عرب لیگ کے کئی ممالک میں لا تعداد انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں ، جب کہ پاکستان سمیت کئی دیگر ملکوںکو دہشت گردی کی لپیٹ میں لاکر ہزاروں انسانوں کو قبروں میں اتارا جاچکا ہے ۔ نہ مرنے والے کومعلوم ہے کہ اُ س کا قصور کیا ہے ، نہ مارنے والے کو خبر کہ وہ کیوں قاتل بناہوا ہے ۔مصر میں قابض جنرل السیسی نے مرسی حکومت کاتختہ پلٹ کر خونی آمریت کا لبادہ پہناہوا ہے، بنگلہ دیش میں خون تشنہ ڈائین راج تاج کر رہی ہے اور ستم یہ کہ دنیاخاموش تماشائی بن کر اس ساری مصیبت سے لاتعلق ہے۔ فلسطین،عراق ،برما اور جموں و کشمیر میں خاک و خون میں غلطاں ہیں اور مسلم قائدین صرف زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں ، جب کہ او آئی سی بیان بازیوں اور قراردادوںتک ہی محدود ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات میںہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام جس اعلیٰ تمدن کا داعی ہے ،وہ اعلیٰ تمدن تب تک وجود میں نہیں آسکتا جب تک ہم ایمان کی بنیاد پر ایک پاکیزہ معاشرہ تعمیر نہ کریں۔جس مسلم ملک یا قوم کا پاکیزہ معاشرہ مضبوطی اور کامیابی کے ساتھ جتنا آگے بڑھتا ہے اُسی قدر وہاں توحید کا جلوہ ٔ خورشید ہوگا ، یکجہتی ،اتحاد و اتفاق اور امن و امان لوٹ آئے گا، مسائل کا حل بر آمد ہوگا ، یہی وحدت مسلمانوں کو ایمان وصالحات کی اساس پر حقیقی حیات دے گی ۔،انہیں نیستی کے ظلمت کدوں سے نکال کر نور اور روشنی کی رہنمائی میں دنیا کی قیادت سونپے گی ۔قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسلام کا یہ مزاج کرنا کوئی آسان کام نہیں مگر شروعات تو کر نی چاہیے اگر ہم پھر سے خود کو زندہ و پائندہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔یہ امر بالکل واضح اور عیاں ہے کہ اُمت ِمسلمہ کا اللہ ایک ،رسول ؐ ایک ، قرآن ایک ، دین ایک ، حرم ایک ، قبلہ ایک ، منفعت ایک ہے اور نقصان بھی ایک ہے۔اس لئے جس دن ہمیں اپنے انفرادی واجتماعی وجود میںایمان ونیک عملی کی شرینی بھر ناآگئی وہی دن ہماری احیائے نو کی نوید سنائے گا ۔