عورت کے مرتبے، مقام ،فضیلت ،عزت و تکریم اور احترام کے حوالے سے اسلام نے روز اول ہی دنیا پر واضح کیاکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کے بعد حضرت حواؑ کو آدمؑ کی بائیں پسلی سے پیدا فرمایا۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت حواؑ کی پیدا ئش پردے میں کی۔اس ایک رموزِ خداوندی میں ہمارے لئے کئی اہم ہدایات پنہاں ہیں۔پہلی ہدایت یہ کہ پردہ عورت کی فطرت ہے ، لہٰذا اُس کا ہر صورت پردہ کیا جائے ، اُ س کی عفت کی حفاظت کی جائے ،اُسے کچھ اس طرح رکھا جائے جس طرح کسی قیمتی شئے کو سب کی للچائی نظروں سے چھپا کے رکھاجاتاہے، یا کوئی انمول چیز کھو دینے کے ڈر سے پورے اہتمام کے ساتھ سنبھال سنبھال کے رکھی جاتی ہے۔ دوسری ہدایت یہ ہے کہ انسان کے بائیں طرف چونکہ دل ہوتا ہے، اس لئے عورت چاہیے ماں ہو، بہن ہو،بیوی ہویا بیٹی ہو،ا ُس کا مقام دل میں ہونا چاہئے۔
تیسری ہدایت یہ کہ اپنے ہاتھوں سے بنانے کے برعکس حواؑ کوآدمؑ کی پسلی سے نکالنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک عورت کی زندگی کا اصل یا origin مرد کے وجود سے پیوستہ ہے، یعنی عورت اصل میں مرد کے اندر کا ایک اہم ترین جُز ہے۔ شادی بیاہ کی صورت میں مرد کو مہر ادا کرنے پر اس کی پوری زندگی کاساتھی بن جاتاہے اورپھر ایک عورت ہی مرد وزَن کو جنم دیتی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اشرف المخلوقات انسان کے دو روپ مرد یا عورت( درمیانہ ایک استثنائی روپ ہے) ایک دوسرے سکے لئے لازم وملزوم ہیں اور یہ ایک دوسرے کے بغیر یہ کچھ بھی نہیں۔ سوال یہ ہے جب ابدی وازلی حقیقت یہ ہے تو پھر مرد کاہے کو اِتراتا ہے کہ بس وہی مالک و مختار ہے اور اپنے ہی دوسرے حصے کو کچلتا دباتارہتا ہے جب کہ نسوانیت ِزن کا نگہبان ہے فقط مرد قرارپاتا ہے ؎
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درمکنوں
عورت،ضرب کلیم
ــــــ’’اقبال کے نزدیک’’عورت اور مرد دونوں مل کر کائناتِ عشق کی تخلیق کرتے ہیں۔ عورت زندگی کی خازن ہے ،وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے اور اس آگ کی تپش سے ارتقاء پذیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔‘‘(اقبال نئی تشکیل۔۔۔ پروفیسر عزیز احمد)
عورت معاشرے کا وہ انتہائی اہم حصہ ہے جس کے بغیر زندگی کے ساز کو سوز دروںحاصل ہونا ممکن نہیںلیکن آج ہمارے معاشرے میں عورت کو جفا پیشہ،فتنہ گھر،ٹیڑھی پسلی سے نکلی ہوئی کرم جلی جیسے طعنے دئے جاتے ہیں۔حالانکہ یہ جو ٹیڑھی پسلی والا معاملہ ہے، اس حدیث ( بخاری:حدیث نمبر۱۳۳۳) کو ہم میں سے اکثرو بیشتر آدھا ہی پڑھتے ہیں۔فرمایا: عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو کیونکہ یہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہیںیعنی ان کی فطرت میں کسی قدر ٹیڑھا پن رکھا گیا ہے اور ایک ٹیڑھی چیز کا سب سے اونچا حصہ وہی ہوتا ہے جو سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے اس صورت میں اگر تم اس کے ٹیڑھے پن کو سیدھا کرنے کے درپے رہو گے تو چونکہ یہ کجی عورت کی فطرت کا حصہ ہے، تم اُسے سیدھا تو نہیں کر سکو گے البتہ اسے توڑ کر ضرور رکھ دو گے اور اگر تم اسے با لکل ہی اپنی حالت پر چھوڑ دو گے تو ظاہر ہے کہ وہ ہر حال میںٹیڑھی ہی رہے گی۔ ان حالات میں تمہیں یہ نصیحت ہے کہ عورتوں کے اس ٹیڑھے پن کی قدروقیمت کو سمجھو اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرواوراگر ان کا ٹیڑھا پن حد اعتدال سے بڑھنے لگے تو اس کا مناسب طور پر اصلاح کرو۔
ان الفاظ میں فصاحت و بلاغت کا کمال سمو کر مختصر اً ایک نہایت ہی وسیع الجہت مضمون ادا کیا گیا ہے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ نبی پاکﷺ اس کے بعد ایک اور عمدہ فقرہ میں جو فرماتے ہیں وہ گویا اس سارے کلام کی جان اور لب لباب ہے۔۔۔ ایک ٹیڑھی چیز کا وہ حصہ جو سب سے زیادہ ٹیڑھا ہوتا ہے ،وہی اس چیز میں سب سے زیادہ اونچا ہوتا ہے۔
یہ حدیث نہ صرف اپنی فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے بلکہ اپنے اس عظیم الشان فلسفہ کے لحاظ سے جو اس کے لفظ لفظ کی گہرائیوں میں مخفی ہے،ملوک الکام کہلانے کی حق دار ہے۔عورت کے فطری ٹیڑھے پن کا ذکر کرکے آنحضرتﷺ ارشاد گرامی کا گویا مفہوم و تشریح یہ ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ عورت کا ٹیڑھا پن ایک نقص یا کمزوری ہے بلکہ اس کی یہ فطری کجی دراصل اس کے اندر ایک حُسن و خوبی کے طور پر ودیعت کی گئی ہے۔ یہ دراصل عورت کا مخصوص کمال اور اس کی اُنثیت (یعنی عورت پن) کے حُسن کا بہترین حصہ ہے ۔ یہ مخصوص ٹیڑھا پن یعنی جذباتی عنصر جتنا کسی عورت میںزیادہ ہو، اُتنا ہی وہ اپنی اُنثیت یعنی جوہر نسوانی میںکامل سمجھی جائے گی۔یہ وہ اَبلغ اور اَرفع فلسفہ ٔ حیات ہے جو آنحضرتﷺ کے ان مختصر کلمات مبارکہ میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
عورت میں ٹیڑھا پن کیوںرکھا گیا ہے؟ اس کا جواب خود قران شریف دیتا ہے جو ساری حکمتوں کا منبع اور ماخذ ہے۔ فرماتا ہے:’’یعنی خداتعالیٰ نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے تمہاری بیویاں بنائی ہیں تاکہ تم ان سے دل کی سکونت حاصل کر سکو اور اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کو تمہارے لئے محبت اور رحمت کا ذریعہ بنایا ہے‘‘(الروم:۱۲)۔ آخر پر کسی شاعر کا یہ حسین گلہ بھی ملاحظہ فرمایئے ؎
نکل کے خلد سے اُن کو ملی خلافت ارضی
نکالے جانے کی تہمت ہمارے سر آئی