شہرسری نگر بڑی تیزی کے ساتھ عوامی مسائل کے گھنے جنگل کا روپ دھارن کررہاہے ۔ شہر میں جدھر بھی جایئے بلدیاتی سہولیات کا فقدان نظر آئے گا، ٹریفک جاموں سے پالاپڑے گا ، کوڑا کرکٹ کے انبار اور پالی تھین لفافے استقبال کر یں گے ، پورے شہر میں فٹ پاتھوں پر چھاپڑی فروش اور دوکانداروں کی تجاوزات سے سابقہ پڑے گا ، سب سے بڑھ کر آوارہ کتے غول بیابانی کی طرح ہر گلی کوچے اور شاہراہ پر فوج درفوج ملیں گے۔ اس شہر نا پرسان کے مختلف علاقوں سے روز قلت ِآب کی شکایتیں اخباری کالم بھر رہی ہیں ۔ ہاں ، اس ضمن میں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ پانی کا مسئلہ پی ایچ ای کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہو نے کے علاوہ صارفین کی لاپروائی پر بھی دلالت کرتاہے کیوںکہ ہم میں سے اکثر لوگ مالِ مفت اور دل ِبے رحم کے مثل پینے کے صاف پانی کا غیرضروری استعمال کر کے قلت آب کا سبب بننے سے نہیںکترا تے ۔ انصاف کیجئے کہ جہاں روایت یہ ہو کہ عام لوگ، تھوڑے سے استثنیٰ کو چھوڑ کر، اپنے کچن گارڈنوں اور لانوں میں پینے کے صاف پانی سے آبپاشی کر یں ، وہاں پی ایچ ای کس معنی میں درد کا درماں ثابت ہو ؟ اس عمومی خطاکاری سے پانی کی کمی کا مسئلہ آبادی کے ایک بڑے حصے کا جینا دشوار کر تا جارہاہے ۔ بہرحال دیگر گنجان آبادی والے شہرو ں میں بھی عوام کو مختلف النو ع مسائل کاسامنا رہتا ہے مگر فرق یہ ہے کہ وہاںحکومتیں عوامی مسائل کے حل میں اس قدر بے رُخی یا سہل انگا ری سے کام لینے کی روادار نہیں ہو تیں جتنی یہا ں کی انتظامیہ عا دتا ً اور ارادتاً شہر سر ینگر کو نظر انداز کر تی چلی آ رہی ہے۔ اس بات سے مفر نہیں کہ شہر سری نگر کے چپے چپے پر ہماری تاریخ کے اوراق بکھرے ہو ئے ہیں ۔ معاشی ‘ تمدنی اور مذہبی نقطہ نظر سے بھی سر ی نگر کو ایک امتیازواختصاص حاصل ہے ، اس پر مستزاد یہ کہ سری نگر کشمیر کا دار لحکو مت ہی نہیں، اس خطہ ٔ ار ض کی آن بان اورشا ن ہے۔ با شعور قومیں اپنے تاریخی ورثے ،انمول اثا ثوںاور عظمت ِرفتہ کا سکہ دلو ں میں بٹھا نے والے آثار اور یادگار وںکو متا عِ گراںمایہ سمجھ کر انہیں کو ئی گز ند پہنچا نا گنا ہ عظیم سمجھتی ہیں لیکن اس کے بالکل اُلٹ میں آ ج تک ریا ستی حکو متوں سمیت عوام نے سر ینگر کے تا ریخی، معاشی اور تمدنی تشخص کے تحفظ کے تئیں غفلتیں بر تنے کا ریکارڈ بنایا ہے۔دُکھ بھری سچا ئی یہ بھی ہے کہ اہالیان ِ سری نگر نے کبھی اُن با اختیا ر لو گو ں کا گریباں نہ پکڑا جنہو ں نے اپنے حقیر مقاصد کے لئے شہر سرینگر کے سا تھ کھلے عام سوتیلی ماں کا سلوک مسلسل روا رکھا ۔ اس حما م میں اگرچہ تمام ریاستی حکو متیں ننگی ہیں لیکن وہ عادتاً سر ینگر کے اسقام وعیوب کا سارا ملبہ اپنے حریفوں کے سر ڈالتی رہیں ۔ ایک بھی ریاستی حکومت نے دوسروں پر اُنگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں نہ جھانکنے کی زحمت گوار انہ کی آیا خود اس کا سری نگر کے تئیں کتنا منفی رول رہا ہے۔ خیر گورنر انتظامیہ کو اس نا قابل تر دید حقیقت کی اَن دیکھی نہیں کر نی چاہیے کہ آ ج کا سر ی نگر انہی وجوہ سے گھمبیر مسا ئل کا چیستا ں بنا ہوا ہے۔ عزت مآب گورنر صاحب سے اُمید ہے کہ وہ ان مسائل کی جانب اولین فرصت میں اپنی توجہ مبذول کریں گے ۔ خاص کر ڈل جھیل کی ناقدری کا سنجیدہ نوٹس لیا جائے۔ لا وڈ ا کہنے کو ا س شہرۂ آ فا ق جھیل کو بچا نے کے لئے معرض وجود میں لا یا گیا تھامگراس ادارے کی ما یو س کن کا رکردگی دیکھ کر اگر یہ کہا جا ئے تو بے جا نہ ہوگا کہ لاوڈاسے دفاع ِڈل کی اُمید رکھنا پتھر سے دو دھ ما نگنے کے برابر حما قت ہے۔ یہی بُرا حال شہر کے آ ثار قدیمہ ، دست کاریوں ، روایتی علوم و فنو ن کا ہو رہا ہے جو وادیٔ کشمیر کو ہر لحاظ سے انفرادیت عطاکر تے ہیں۔تصویر کا یہ رُخ بھی کم اذیت ناک نہیں کہ سر ی نگر میں تعلیم یا فتہ بے روزگاری اتنی زیادہ ہے کہ اس کا تذکرہ کرتے ہو ئے قلم کی آنکھ رو تی ہے اور اظہار کی زبا ن گنگ ہوجا تی ہے۔ کئی ایک دہائیوں سے شہر سری نگر کے زیادہ تر تعلیم یافتہ نوجوانو ں اور ان کے مایوس ومغموم والدین کو اس دن کا انتظار ہے جب یہ نوجوان اپنا آذوقہ عزت وآ برو کے ساتھ کما سکیںلیکن یہ طویل انتظار ہے کہ ختم ہو نے کا نا م ہی نہیں لیتا۔محسوس یہ کیاجارہا ہے جیسے سری نگر کے باصلاحیت نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ فٹ پاتھوں پر چھا پڑی فروش بننے یا آٹو ڈائیوری کرنے کی طرف دھکیلا جا ر ہا ہو ۔گرچہ دیہی علا قو ں میں بھی روزگا ر کے حو الے سے دودھ کی ندیاں بہتیں نہ شہد کے چشمے ابلتے ، تا ہم وہا ں کم ازکم بے روز گا ر نوجوان زمین زراعت یا اس سے متعلق دیگر معاشی سرگرمیوں سے کچھ نہ کچھ کمالیتے ہیں ، قسمت یاور ہوئی تو انہیں کم ازکم رہبر تعلیم یا آ نگن واڑ ی ورکر بننے کا چانس بھی ملتا رہتاہے ۔ اس کے مقا بلے میں شہر با ش تعلیم یافتہ نوجوانوں کا خدا ہی حافظ ہے ۔ا س سلسلے میں سری نگر کے تعلیم یافتہ بے روزگاروں کے لئے ایک اسپیشل ریکروٹمنٹ ڈرائیو کا جواز بنتا ہے ۔ سر ی نگر کے سلگتے مسائل کی لمبی فہرست میں یہ معاملہ بھی شدت اختیار کرتاجارہاہے کہ دیہی آبادی مسلسل شہر کی جانب نقل مکانی کر رہی ہے۔اس سے شہر میں بہ سرعت آبادی کا دباؤ بھی بڑھ رہاہے اور کالنیوں کی تعداد بھی ۔ نتیجہ یہ کہ ٹریفک نظام کی ابتری ،کتو ں کی بھاری بھر کم تعداد، جا بجا گنداور غلاظت کے انبار، گندے پا نی کی نکاسی کے لئے کارگر ڈرینج سسٹم کا فقدان، سڑکو ں کی خستہ حا لی، بجلی کی نایابی اور ہمچو قسم کے دیگر عوامی مسائل لمحہ بہ لمحہ جنم پا تے ہیں۔ رہی با ت شہر کے فٹ پاتھو ں پر چھاپڑی فروشو ںاور ریڑ ھی با نو ں کے مستقل قبضے کی‘ اس سے چو نکہ متعلقہ حکام کاحقہ پانی چلتا ہے ،اس لئے ارباب ِ اقتدارکی نظر میں شاید یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔ مختصر اً سر ی نگر کے ان تمام حل طلب مسائل کے بارے میں جملہ مکتبہ ہائے خیال کی جانب سے حکومتی اداروں کی تنقید بلکہ مرثیہ خوانی کو جھٹلا یا نہیں جا سکتاتا وقتیکہ گورنر انتظامیہ سر ی نگر کی شا ن ِرفتہ لفظاً و معناً عملی طو ر بحال نہیں کر تی ، شہر کی انفرا دیت کاپرچم پھر سے فضا میں نہ لہرے اورشہر خاص سمیت دوسرے تا ریخی ، مذہبی اور ثقافتی اہمیت کے حامل آثار اور یادگاروںکی محافظت کا بیڑہ نہ اُٹھایا جائے۔